Wednesday, 28 August 2019

ایک تصویر، ایک کہانی، ایک خیالEpisode-11

ایک تصویر، ایک کہانی، ایک خیالEpisode-11
ایک تصویر



ایک کہانی

سفر کٹنے کا نام نہیں لے رہا تھا۔ گھنا جنگل، جھاڑیوں کا انبار، جنگلی جانوروں کا خوف،اونچے نیچے راستے، گھر بسترِمرگ پر لیٹی ماں لیکن تتلو اِن مشکلات ، رکاوٹوں اور ڈر کے باوجود "نمیر" پھول کی تلاش میں رواں دواں تھا۔
آج صبح سے أسے کوئی انسان نظر نہیں آیا تھا۔  اچانک اس کی نظر ایک آدمی پر پڑی جو درخت کے نیچے آرام کر رہا تھا۔ یہ اس کے پاس رُک گیا اور پوچھا: کہ وہ کدھر جا رہا ہے؟  اس نے بتایا کہ وہ "کوہِ زمرد" پر زمرد لینے جا رہا ہے۔ وہ ان کو مہنگے داموں بیچے گا اور امیر کبیر ہوجائے گا۔ تتلو بولا: عجیب اتفاق ہے ،میں بھی اُس سے ملحقہ پہاڑی "کوہ ایلم" پر پھول لینے جا رہا ہوں۔ دونوں مل گئے تاکہ سفر اچھا کٹ جائے۔ دونوں خوش تھے کہ اُن کو اِس جنگل بیابان میں ساتھی مل گیا ۔ ایک دوسرے کے تعارف کے بعد باتیں کرتے جھاڑیوں کے بیچ میں سے گزرتے، وہ نسبتأ صاف رستہ پر آگئے ۔ کافی دیر چلنے کے بعد ایک بڑے کیکر کے نیچے آرام کی غرض سے بیٹھ گئے اور اپنی اپنی پوٹلی کھول کر کھانے لگے۔ ٹھنڈی ہوا پتوں سے بغلگیر ہو کر سرسراہٹ پیدا کر رہی تھی اور خشک پتوں کو اڑا کر اِدھر اُدھر پھینک رہی تھی، اچانک کچھ پتے مکھو کے ہاتھ میں روٹی کے ٹکڑے پر گرے۔ مکھو نے فوراً اوپر دیکھا اور کہنے لگا: یہ بھی بڑا منہوس درخت ہے، اس کے قریب جاؤ تو کانٹے چبتے  ہیں ،نیچے بیٹھو تو پتے اور پھلیاں پھینکتا ہے،  دور سے دیکھو  تو اداس کر دیتا ہے ۔ تنا اس کا کالا سیاہ ، پتے چھوٹے ،پھول چھوٹے ،چھاوں ورلی ورلی، کوئی کل سیدھی نہیں!  میرا بس چلے تو سارے کیکر اُکھاڑ پھینکوں۔
تتلو اس کی بات سنتا رہا  اور ساتھ ساتھ ایک نظر اوپر کیکر پر بھی دوڑا لیتا جب مکھو بدگوئی کر کے چپ ہوا تو وہ بولا : دیکھو!  اس کی پیلے رنگ کی پھلیاں کتنی خوبصورت ہیں اور بھوک لگے تو انہیں چوس لو، کچی پھلیوں کا اچار ڈال لو، تنا دیکھو کتنا بڑا اور مضبوط ہے جبکہ پتے اور پھول چھوٹے اور نازک ۔ یہ جلال اور جمال کا شاہکار ہے۔ پانی نہ بھی ملے تو گزارا کر لیتا ہے، یہ درختوں کا اونٹ ہے ۔ اس کے پتے، پھلیاں، چھال ستر مختلف بیماریوں کے علاج میں استعمال ہوتی ہیں ۔ سبز ٹہنیوں سے مسواک کر لو، خشک کو ایندھن کے طور پر جلا لو ،اس کی لکڑی کو چاہے تو فرنیچر میں استعمال کرلو یا چھتیر، بالے بنا لو ۔ مکھو اس کی باتوں سے ذرا بھی متاثر نہ ہوا اور یہ کہہ کر اٹھ گیا کہ ابھی سفر لمبا ہے رات تک ہمیں کسی محفوظ مقام تک پہنچنا ہے۔
کچھ دور گئے تو پانی کا ایک چھپڑ نظر آیا۔ دونوں اس کے کنارے پہنچے ،جانوروں کے قدموں کے نشان اوران کے فضلے  بتا رہے تھے  یہ ان کے لیے شفاف پانی کی جھیل ہے ۔ مکھو جھٹ سے بولا: رُک کیوں گئے ہو؟  اس بدبودار چھپڑ کے پاس؟ اِس کی بھڑاس سے دم گھٹ رہا ہے۔ تتلو بولا: ہے تو پانی ہی۔ بس ذرا رک گیا ہے۔ چل پڑے تو یہی جھیل ہے ۔ غور سے دیکھو کتنے جانور اس سے پیاس بجھاتے ہیں۔ اس میں نہاتے ہیں ،مینڈک ،مچھلیوں، کچھوؤں کا گھر ہے۔ بیچ میں دیکھو! وہ کنول کا پھول کیسے مسکرا رہا ہے ۔ مکھو کو اس بات اچھی نہ لگی  اور وہ آگے کی طرف چل دیا ۔ تتلو نے پھول کی طرف دیکھا اور مسکرایا ۔ پھول اور بھی کِھل گیا  اور اپنی خوشبو کا تحفہ ہوا کے ہاتھ بھیجا جو اس کی ناک سے گزر کر اس کی روح میں سرایت کر گیا، اس کا اندر مہکنے لگا۔ پھر وہ بھی اپنے ساتھی کے ساتھ چل پڑا۔          شام ہو چکی تھی سورج ڈھلنے والا تھا۔ ایک چرواہا اپنی بھینسوں کو ہانک کر گھر واپس لے جا رہا تھا ۔ مکھو انہیں دیکھتے ہی بولا: یہ بھینس بھی عجیب جانور ہے؟ کوئی سر پیر نہیں ، گوشت کا بےربط پہاڑ ، دور سے دیکھو تو یہ نہیں پتہ چلتا کہ بھینس آرہی ہے یا جا رہی ہے؟  اوپر سے کالا رنگ، بڑے نتھنے، بھدی صورت اور سست اتنی کہ کچھوا پھرتیلا لگتا ہے۔ 
اوپر سے گوبر کے ڈھیر لگاتی ہے۔ وہ ایک سانس میں بولتا جا رہا تھا۔ تتلو اس کو دیکھ رہا تھا اور اپنی باری کا انتظار کر رہا  تھا۔ وہ بولا کیچر کو اپنے جسم  پر کریم کی طرح لگاتی ہے، بد صورتی کا مقابلہ ہو تو کبھی کسی کو  جیتنے نہ دے۔ جو نہی مکھو نے اپنی ہجو کرنا بند کی تو تتلو نے اپنی مدح سرائی  نکال کر سامنے رکھ دی۔  یہ جانور نہیں، پورا شاپنگ مال ہے ۔  دل کرے تو تھنوں کو ٹٹولو  تو دودھ کے سفید شفاف چشمے ابلنے لگیں۔  اس سے چائے بناؤ ، کافی بناو ، دہی بناو۔ چاہے تو  مکھن نکالو، دل کرے تو برفی گلاب، جامن بنا لو ۔  چاہو تو کسٹرڈ یا کھیر پکا لو۔  چار تھنوں سے نکلے دودھ سے چار سو چیزیں بنا سکتے ہو ۔  دوسرا۔ یہ گوبر کے ڈھیر نہیں؟ دیہاتیوں کا ایندھن ہے ۔ اسے خشک کرو ،پاتھیاں بناؤ اور آگ جلاو۔ توانائی کا مسئلہ تو اس کے فضلے نے ہی حل کر دیا ہے۔
ذبح کر کے گوشت استعمال کرو ،کڑھائی گوشت پکاو، کباب بناؤ اور سینکڑوں قسم کے لذیذ کھانے بناؤ ۔اس کی کھال کا چمڑا اور پھر سینکڑوں اشیاء بناو۔  میں نے کہا تھا کہ یہ قدرت کا شاپنگ مال ہے۔
مکھو نے منہ چڑھایا۔ اس کے چہرے کے تاثرات بتا رہے تھے کہ وہ اِس تعریف سے متفق نہیں ہے۔ رات ڈھل چکی تھی ،دونوں ایک کھولی میں ٹھہر گئے۔ اگلے دن دونوں اپنے پہاڑی سفر پر روانہ ہوگئے۔ رستہ میں گفتگو کا سلسلہ جاری رہا۔ تتلو نے  کوہ ایلم کے دامن سے نمیر پھول  توڑے اور پوٹلی میں سنبھال لئے۔ ساتھ والی پہاڑی  کوہ زمرد تھی۔ جہاں مکھو نے زمرد نکالے اور ایک تھیلے میں ڈال لئے۔ دونوں بے انتہا خوش تھے تتلو نے خیالوں میں پھولوں سے دوائی بناکر ماں کو دی اور وہ صحت مند ہوگی اور گھر میں چلنا پھرنا شروع کر دیا۔ مکھو اس سے بھی زیادہ خوش تھا اور زمرد کاٹ کر چھوٹے چھوٹے نگینے بنا کر، مہنگے داموں بیچ کر امیر ہو چکا تھا۔ دنیا کی ہر آسائش اُس کو حاصل ہوگئی تھی۔ اس کی ٹھاٹھ باٹھ پر زمانہ رشک کر رہا تھا ۔ دونوں خوابوں کی دنیا سے نکلے تو جلد گھر پہنچنے کی سوجھی اور  واپسی کا سفر شروع کر دیا۔ پہاڑی راستہ ختم ہوگیا اور جنگل شروع ہوگیا ۔اپنی منزل کو قریب دیکھ کر مکھو کی مستی میں اضافہ ہوتا جا رہا تھا۔ ایک جگہ پر آرام کرنے کے لئے  ایک بیری کے درخت کے نیچے بیٹھے تو مکھو کو  شہد کی مکھیوں کا ایک چھتہ نظر آیا ۔اس نے شوخی میں ایک پتھر اٹھا کر اوپر پھینکا، جو سیدھا چھتے کو لگا۔ مکھیوں میں ہلچل مچ گئی۔ اُس نے فاتحانہ قہقہہ لگایا اور اگلے ہی لمحے مکھیوں نے اُس پر حملہ کر دیا۔ چند مکھیوں نے کاٹ لیا ۔مکھو نے دوڑنے میں عافیت جانی اور تیز بھاگنا شروع کر دیا مگر مکھیوں کا غول اس کے تعاقب میں تھا ۔اچانک اُسے نیچے وہی چھپڑ نظر آیا ،اُس نے ٹیلے سے چھلانگ لگا دی۔ تھوڑی دیر کے بعد سر پانی سے نکال کر سانس لیتا، مکھیاں حملہ کر دیتی، وہ پھر چُبکی لگادیتا۔ یہ آنکھ مچولی کافی دیر چلتی رہی مکھو زندگی بچانے کے لئے جدوجہد کر رہا تھا جبکہ مکھیاں انتقام کی آگ بجھا رہی تھی۔ مکھو کا جذبہ زیادہ طاقتور تھا ،مکھیوں نے ہار مان لی اور چلی گئیں۔ وہ چھپڑ سے باہر نکل آیا۔ اِس کشمکش میں اُس کا زمرد کا تھیلا چھپڑ میں گر گیا ۔ جب باہر نکلا تو اُس کے گھٹنے پر گہرا زخم تھا اور خون بہہ رہا تھا ۔اس کی حالت غیر تھی۔ تتلو بھی اُسے ڈھونڈتا ڈھونڈتا آن پہنچا۔ مکھو سے ایک قدم چلنا بھی مشکل ہو گیا تھا۔ تتلو فوراً ایک سمت میں گیا جہاں اُسے آتے وقت بھینسیں مِلی تھیں۔ گوالوں سے دودھ لایا اور مکھو کو دیا جسے وہ ایک سانس میں پی گیا اور کچھ سُرت آگئی۔ تتلو نے رِستے زخم کو دیکھا تو کیکر کی خشک ٹہنیاں جلا کر اُن کی راکھ لگائ اور کپڑا باندھ دیا اور مکھو کو سہارا دے کر چلنے لگا ۔ کچھ دیر بعد مکھو کی حالت بہتر ہوگی اور وہ بغیر سہارے کے لنگڑا کر چلنے لگا اور شہد کی مکھیوں کو برا بھلا کہنا شروع کر دیا ۔ وہ بولا : ان کا چھتہ بے ربط, پھلوں پھولوں کی مٹھاس کی "چور" مکھیاں اور انسانوں کو ڈنگ مار کے موت کہ منہ میں لیجانے والی ظالم مکھیاں۔  میرا بس چلے  تو سارے چھتوں  کو بمع مکھیوں کے آگ لگا دوں اور ان کے فتنے سے دنیا کو آزاد کر دوں۔ تتلو بولا :اگر تنظیم دیکھنی ہو تو شہد کی مکھیوں کا چھتہ دیکھو! کس طرح کام کو بانٹ کر  ملکہ مکھی، مزدور مکھیوں اور محافظ مکھیوں سے کام لیتی ہے۔  چھتہ، پوری کالونی کی طرح ہوتا ہے جس میں سب کے علیحدہ علیحدہ کواٹرز اور کام ہوتے ہی ۔ رہی بات ڈنگ کی، اگر شہد کی مکھی میں ڈنگ نہ ہوتا تو جنگلی جانور اور کیڑے مکوڑے اسے کھا لیتے ۔ اسطرع ہم شہد جیسی شیریں، طاقت سے بھرپور اور شفاء سے مالا مال، قدرت کہ اس انمول تحفہ سے محروم رہتے ۔ باتیں کرتے کرتے وہ اپنے اپنے گھروں کو پہنچ گئے ۔ تتلو نے نمیر پھول سے دوائی بنائی اور اس کی ماں چند ہی دنوں میں صحت یاب ہوگئی اور گھر میں خوشیاں لوٹ آئیں۔ مکھو کی دولت پر تو شہد کی مکھیاں پہلے ہی ڈاکہ ڈال چکیں تھیں۔وہ ناکام و نامراد، لنگڑاتا اور نڈھال گھر پہنچا ۔اس کی بیوی حالت دیکھ کر پریشان ہو گئی، اس کو چارپائی پر لٹایا اور کیکر کی لکڑی جلا کر، اُس پر دودھ گرم کیا اور اُس میں شہد ملا کر مکھو کو دیا۔ شہد جب اس کی رگوں میں پہنچا تو اس نے  کچھ آرام محسوس کیا اور اٹھ کر بیٹھ گیا اور شہد کی مکھیوں کو کوسنے لگا۔
ایک خیال
کہانی کا کردار مکھو، مکھی کی طرح تمام خوبصورتیوں کو چھوڑ  کر بدصورتی کو تلاش کر لیتا ہے جبکہ تتلو، تتلی کی طرح تمام بدصورتیوں کو چھوڑ کر خوبصورتی تلاش کر لیتا ہے۔  زندگی میں دو طرح کی سوچ کے لوگ ہوتے ہیں۔ کچھ مکھی کی طرح سارے صاف بدن کو چھوڑ کر پھوڑے پر بیٹھ جاتے ہیں۔ بدبو سونگھتے ہیں اور پیپ پیتے ہیں۔ وہ برائی پر فوکس کرتے ہیں، اسے ڈسکس کرتے ہیں اور اسے اچھالتے ہیں۔ وہ ہمیشہ غمزدہ اور ناکام رہتے ہیں  جبکہ کچھ تتلی کی طرح گندے چھپڑ میں سے کنول کے پھول کو ڈھونڈ لیتے ہیں اور اس کی خوشبو ،ملائمت اور مٹھاس سے محظوظ ہوتے ہیں۔ ایسے لوگ خوبی پر فوکس کرتے ہیں اور ہمیشہ خوش رہتے ہیں اور کامیاب ہوتے ہیں۔

مکھی اپروچ والے شخص ادھر ادھر بھنبھناتے پھرتے ہیں ۔ ان سے کیسے نپٹیں ؟میری بپتا  سن لیں۔اپ یقیناَ ان کے شر سے بچ جاہیں گے۔  ایک دن میں کالج سے گھر واپس آ رہا تھا، راستے میں میرے ایک رشتہ دار مل گئے۔ انہوں نے بڑے غور سے میرے چہرے کو دیکھا ،پھر میرے کوٹ کو دیکھا، پھر انکی نظر میری قمیض پر پڑی جہاں "پکرک ایسڈ" کا پیلا نشان تھا جو کہیں پریکٹیکل کے دوران لگ گیا۔ اس کو دیکھتے ہی وہ اچھل پڑے اور بولے  بڑی داغدار قمیض پہن رکھی ہے ؟ ان کا فقرہ میرے دماغ میں چپک گیا اور میں کئی گھنٹے کڑہتا سڑتا رہا ۔ پھر وہ  رشتہ دار ملک سے باہر چلے گئے۔ کئی سالوں کے بعد واپس لوٹے اور میرے گھر ملنے آئے۔ میں نے گیٹ کھولا ،وہ میرے چہرے کو دیکھنے لگے اور دیکھتے ہی گئے اور بولے: تمہارے منہ پر پھنسیاں نکلی ہوئی ہیں اور چیچک کی طرح داغ ہیں۔ میں پھر ڈپریس ہوگیا اور پورا دن میرے دماغ میں ان کی بات گردش کرتی رہی۔ کئی دفعہ شیشہ دیکھا ۔ بیگم نے استفسار کیا: بار بار آئینہ دیکھ رہے ہیں ؟ میں نے بتایا کہ رشتہ دار نے "یہ" کہا ہے ۔ اس نے چہرہ غور سے دیکھا اور بولی: ناک پر ایک پمپل کا نشان ہے اور وہ بھی غور سے دیکھو تو نظر آتا ہے اور گال پر ایک تل ہے۔ باقی چہرہ تو صاف ہے ۔ مجھے کچھ حوصلہ ہوا اور دماغ میں کُٹ کُٹ بند ہوئی اور سوچنے لگا کہ یہ رشتہ دار جب بھی ملتے ہیں کوئی نہ کوئی بات کر دیتے ہیں اور میں پریشان ہو جاتا ہوں ۔ دماغ میں ان کی ملاقاتوں کو ریورس کرکے دیکھا اور اس نتیجے پر پہنچا کہ موصوف مکھی کی طرح ہمیشہ گندگی کی تلاش میں رہتے ہیں۔ جونہی یہ خیال آیا ،میں اپنی پریشانی بھول گیا اور ان پر ترس کھانے لگا کہ ان کو سارا دن کتنے لوگ ملتے ہوں گے؟ کتنے داغ ،  پھنسیاں اور طرح طرح کی غلیظ چیزیں دیکھتے ہونگے۔ ان کی زندگی میں خوبصورتی کا وجود ہے ہی نہیں۔ کچھ سالوں کے بعد وہ پھر میرے گھر آئے۔ میں کمرہ میں زمین پر میٹرس بچھا کر لیٹا ہوا تھا۔ گھٹنے میں کچھ مسئلہ تھا ۔ میں ان سے ملنے کے لیے قدرے مشکل سے اٹھا۔ موصوف کو آج تلاش کے بغیر ہی موقع مل گیا اور بولے: "توں تے گٹے، گوڈوں توں رہ گیا ہیں۔" میں مسکرایا اور ان کو سلام کیا، اس دفعہ مجھے ان کے جملے سے ذرا بھر پریشانی نہ ہوئی اور نہ ہی میں کسی احساس کمتری میں مبتلا ہوا کیونکہ مجھے ان کی "مکھی اپروچ" کا پتہ چل چکا تھا ۔ اس لیے آپ کی زندگی میں کئی لوگ آئیں گے جو آپ کی ذات پر تنقید کے تیر چلا ئیں گے ۔آپ نے سوچنا ہے کہ مکھی اپروچ۔۔۔گندگی کا متلاشی۔۔۔ بیچارہ۔۔۔ اور پھر جیسے جسم پر بیٹھی مکھی کو اڑاتے ہیں اسی طرح ان کی تنقید کو مکھی اپروچ کے خیال سے اُڑاتے رہیں اور خود تتلی بن کر اُڑتے رہیں اور زندگی کے رنگ برنگے پھول دیکھیں، ملائمت کے مزے لیں اور میٹھے رس پیئیں۔۔۔

Thursday, 15 August 2019

یوم سیاہ Black Day

یوم سیاہ  
آج گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ تعلیم الاسلام کالج چناب نگر میں یوم سیاہ  منایا گیا اور احتجاج میں قومی پرچم سرنگوں رہا ۔ اس ضمن میں ایک سیمینار منعقد کیا گیا جس کا موضوع تھا " یومِ سیاہ منانے کا تقاضا"۔ سیمینار کا آغاز  پروفیسر حافظ احسان اللہ نے تلاوت کلام پاک سے کیا ۔پروفیسرر سید علی عمران شاہ نے خطاب کرتے ہوے کہا: کشمیر میں  مودی نے اپنی قبر کھود دی ہے  اور آزادی کا سورج کشمیر میں جلد طلوع ہوگا ۔وہ دن جلد آنے گا جب آزاد کشمیری پاکستان کے آزاد لوگوں کے ساتھ آزادی سے سانس لیں گے۔ان کی آزُردگی، آزادی میں بدلنے والی ہے۔









      پروفیسر عالمگیر نے اپنے جذبات اور خیالات کا اظہار کرتے ہوے کہا کہ  ان شاءاللہ  مظلوم کشمیریوں کا خون راٸیگاں نہیں جاۓ گا اور معصوموں کی قربانیاں رنگ لاٸیں گی اور وہ دن دور نہیں جب ظلم و ستم کی یہ داستان اپنے انجام کو پہنچے گی اور ہمارے کشمیری بھاٸی بھارتی بنیے کے جابرانہ تسلط سے نکل کر آزاد فضا میں سانس لیں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ امن کے علمبردار اس ضمن میں اپنا کردار ادا کریں اور ذمہ داران کو چاہیے کہ ان حالات کا عملی حل نکالنے کے لیے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراداد نمبر 38, 39 اور 47 (1948) کے مطابق مقبوضہ کشمیر میں  راۓ شماری کرواٸی جاۓ اور کشمیر کی موجود صورت حال کو مدنظر رکھتے ہوۓ اقوام متحدہ  کی جانب سے اس مسٸلے کے حل کے لیے اپنا ایک مستقل نماٸندہ مقرر کیا جاۓ۔
پروفیسر ڈاکٹر ثقلین نے حکومت وقت کی توجہ مبذول کرواتے ہوۓ کہا کہ یوم سیاہ کو محض روایتی دن کی طرح منانے کی بجاۓ آج کے دن آٸیندہ  اقدامات کی منصوبہ سازی کی جاۓ اور سلامتی کونسل کے ممبران سے رابطہ کر کے مسٸلہ کشمیر کے حل پر قرارداد لانے کے ان کی ممبران کی حمایت حاصل کی جاۓ اور اس امر کو یقینی بنایا جاۓ کہ یہ قراداد اقوام متحدہ کے چارٹر کے چیپٹر 6 کی بجاۓ چیپٹر 7 تحت پیش کی جاۓ۔
پروفیسر وقار حسین میڈیا انچارج نے اپنے خطاب میں  اس خدشے کا اظہار کیا کہ مسئلہ کشمیر کی وجہ سے تیسری عالمگیر جنگ کا خطرہ  سر پر منڈلا رہا ہے ۔ اس وادی جنت کو خون میں رنگنے کی بنیاد  پر کسی بھی  وقت، دنیا کا امن تباہ  ہوسکتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا  کہ پاکستانی فوج اپنی  پیشاورانہ مہارت میں اپنی مثال آپ ہے۔اس کی صلاحیت اور جرات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔مزید غزوہ ہند کی نوید اس کے کانوں میں گونج رہی ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ پاکستانی عوام اپنی غیور افوج کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑی ہے۔ بلکہ حقیقت میں وقت آنے پر  22 کروڑ عوام "فوج" ہی ہیں  اور ہم ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر دشمن کا تادم مرگ مقابلہ کریں گے ۔اس کے باوجود ہم امن کا عٓلم ہاتھ سے نہیں چھوڑیں گے۔لیکن اگر ہمیں مجبور کیا گیا تو ترائین کی دوسری لڑائی 1192 کا پارٹ ٹو چلانے میں دیر نہیں کریں گے۔ اس لئے امن کی فاختہ کو آزادی سے سانس لینے دیا جائے اور مسلہء کا حل اقوام متحدہ کی قرار دادوں سے نکالا جائے۔
وائس پرنسپل  پروفیسر سرفراز  حسین نے مسئلہ کشمیر کی افادیت پر روشنی ڈالی اور کہا کہ کشمیر پاکستان کی شاہ رگ ہے  اور پاکستان کا "اٹوٹ انگ" ہے۔ ہم کسی بھی صورت میں من حیث القوم کشمیر سے دستبردار نہیں ہوں گے ۔بعدازاں انھوں نے مظلوم کشمیریوں کے حق میں اور پاکستان کے استحکام اور سلامتی کے لئے دعا کروائی۔
پرنسپل سید ضیاء الحسنین شاہ نے اپنے صدارتی خطاب میں کہا کہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق نہرو، گاندھی اور واجپائی کے نظریات کا جو خون مودی سرکار  نے کشمیر میں کیا ہے ، وہ بھارت کے  سیکولر چہرے پر ایک بدنما داغ کی حیثیت رکھتا ہے۔انتہا یہ ہے کہ ہندوستان کے اندر سے اُن کی اپنی سیاسی جماعتیں کشمیر پر ہونے والے مظالم  پر واویلا کر رہی ہیں اور مودی جیسے قصاب کے کانوں پر جوں نہیں رینگ رہی۔ کشمیر کے اندر استصواب رائے کروانا ہوگا  اور پانچ اگست کو اہین کے ارٹیکل 35 A اور 370  کی ریوکیشن کے فیصلہ کو واپس لینا ہوگا۔اور مسئلہ کے حل کو UNO کی قراردادوں میں ڈھونڈنا ہوگا۔
سیمینار کے  بعد ایک احتجاجی ریلی نکالی گئی۔ پروفیسروں  نے سیاہ پٹیاں باندھ رکھی تھیں، کچھ نے سیاہ لباس زیبِ تن کیے ہوے تھے اور پلے کارڈ اٹھا کر آزادی کشمیر کے حق میں میں پرجوش نعرے لگا رہے تھے۔ پروفیسروں کا جوش و جذبہ دیدنی تھا اور قابل ستائش تھا۔"کشمیر بنے گا پاکستان" کے نعرے ہر طرف گونج رہے تھے-

BLACK DAY OBSERVED

BLACK DAY OBSERVED


(Report by Nisar Hussain)


Government Post Graduate Taleem Ul Islam College Chenab Nagar commemorated the Black Day by setting up a seminar and taking down the national flag to half mast to record protest.Professor Hafiz Ahsan Ullah did the recitation of the Holy Quran, followed by consecutive speeches of teachers. Professor Syed Ali Imran Shah said that Narindar Modi has dug his own grave in Kashmir. Very soon, the sun will shine on the grateful land of Kashmir, and its people will celebrate the independence with the rest of the Pakistani nation. Professor Alamgir expressed his emotions and thoughts on the occasion by saying that "By the Will of God, the blood of innocent Kashmiris will not go vain. Their damnation is about to become their salvation. He futher added that the parties concerned in bringing peace to Kashmir should go for the United Nation Security Council and revoke the resolution 38, 39 and resolution 40 (1948) to call out for Public election (plebiscite) in Kashmir and assign a representator from United Nation to keep an eye on the current situation of Kashmir and draft out a permanent solution to this problem. Professor doctor Saqlain spoke on the occasion that the acting government should not commemorate this day as a tradition, but it should take this day to lay down their efforts in acheiving the goals for why this day has been commemorated, and that is to gain independence for the Kashmiris. He further said that the members of United Nation Security Council should be contacted to gain their favour in bringing a resolution to this dispute, and to make sure this resolution goes under the chapter 7 of United Nation instead of staying at Chapter 6.
Media Incharge Professor Waqar Hussain placed forth a dreadful possibility that the efforts in turning the heavenly land of kashmir into a warland, might ingnite the World War Three and destroy the global peace. He further said that the capabilities of Pakistani Armed forced is not hidden from anyone. In fact, in times like these , the whole Pakistani nation of 220 million people is an Army itself, and we stand side by side with our soldiers. It will be for everyone's betterment that we draft out a solution throught the resolution in United Nation, instead of using means that can destroy global peace. While moving towards the end of the seminar, Vice Principal Professor Sarfraz Hussain called out for a join prayer for the solidarity and peace of Pakistan and Kashmir.
Principal Syed Zia Ul Husnain Shah spoke on his presidential address that the current Modi govenment has murdered the views of Nehru, Gandhi and Wajpai in the resolution of United Nation, which has defamed the secular face of India to the global communities. The political parties of India are condemning the cruelity of Indian soldiers on Kashmiris. He said that a general election for public opionion should be called in Kashmir, and the actions of 5 August, including the revoke of Article 370 and Article 35 A should be taken back, and a suitable solution should be devised under the lights of resolutions of United Nation.
A Rally was called after the seminar in the name of protest. Professors and students wore black strips, some even wore black dresses, with play cards in their hands, the whole rally embraced the words of "Kashmir Will become Pakistan".

Wednesday, 14 August 2019

ایک تصویر،ایک کہانی،ایک خیال Episode 10

ایک تصویر،ایک کہانی،ایک خیال
Episode 10

ایک تصویر
ایک کہانی
یہ کیوبا کی کہانی ہے ۔ بالکل آپ صحیح سمجھے ، وہی ملک جہاں فیڈل کاسترو نے آدھی صدی حکومت کی ۔ کیوبا کریبین سمندر میں امریکہ کی بغل میں تین ہزار جزیروں پر مشتمل ایک سینگ نما ملک ہے ۔جس کی آبادی تقریبا ایک کروڑ ، رقبہ تقریباً ایک لاکھ مربع کلومیٹر ہے۔ آپ حیران ہونگے کہ اِس ملک کی سات ایسی خوبیاں ہیں جو دنیا کے دوسرے دو سو ممالک میں نہیں 
پہلا۔ کیوبا کے سگار دنیا بھر میں مشہور ہیں۔ اِن کی کوالٹی بہت اعلی اور قیمت بہت ہی زیادہ ہے۔ اِن کے معیار اور ڈیمانڈ کا اندازہ آپ اِس بات سے لگا سکتے ہیں کہ امریکی صدر کینیڈی نے کیوبا پر معاشی پابندیاں لگانے سے چند گھنٹے پہلے دو ہزار سگار خرید کر رکھ لئے۔ دو ہزار چھ میں کیوبا نے ایک" بہیکی "سگار نکالا  جس کے ایک کَش کی قیمت ستاسٹھ ہزار روپے بنتی ہے۔
دوسرا ۔ کیوبا دنیا کا واحد ملک ہے، جس میں ڈاکٹروں کا تناسب آبادی کے لحاظ سے سب سے زیادہ ہے۔ جہاں ایک سو پچتر آدمیوں کے لئے ایک ڈاکٹر ہے جبکہ پاکستان میں چھ ہزار تین سو پچیس آدمیوں کے لئے ایک ڈاکٹر کی سہولت موجود ہے.
تیسرا
 دنیا کے دو سو ملکوں میں سے صرف دو ملکوں میں کوکاکولا نہیں بکتی؛ایک کیوبا اور دوسرا شمالی کوریا.
چوتھا۔ دنیا میں سب سے زیادہ  تعلیم کی شرح کیوبا کی ہے. یونیسکو کے مطابق کیوبا میں شرحِ تعلیم ننانوے اعشاریہ آٹھ فیصد ہے جو آمریکہ سے زیادہ ہے۔ پاکستان میں تعلیم کی شرح اٹھاون فی صد ہے.
پانچواں۔ بدنامِ زمانہ جیل گوانتاناما کیوبا کے ایک جزیرے پر ہے جسے امریکہ نے لیز پر لے رکھا ہے اور چار ہزار ڈالر ماہانہ کرایا دیتا ہے ۔
چھٹا۔ کیوبا میں دنیا کا سب سے چھوٹا پرندہ ہمنگ برڈ(دو انچ) ، دنیا کا سب سے چھوٹا مینڈک(آدھا انچ) "مانٹی ابیریا ایلیوتھ "، دنیا کی سب سے قدیم مچھلی "منجاری" پائی جاتی ہے جو مچھلی اور میملز کا آمیزہ ہے۔، اِسی طرح تقریبا تین ہزار پودوں  کی اقسام ہیں جو کسی اور جگہ نہیں۔
ساتواں۔ فیڈل کاسترو کا شمار دنیا کے تیسرے سب سے زیادہ حکمرانی کرنے والے اشخاص میں ہوتا ہے۔ پہلے نمبر پر ملکہ الزبتھ دوئم اور دوسرے نمبر پر تھائی لینڈ کا بادشاہ  "بھُومی بول عدلیادیج"ہے
۔کیوبا کی کہانی
صدیوں پہلے کی بات ہے کہ کیوبا میں ایک قبیلہ یوربا رہتا تھا ۔ اس وقت ابتالا بادشاہ کی حکومت تھی۔  ابتالا بوڑھا ہو رہا تھا اور اپنے جانشین کی تلاش میں تھا ۔ اپنے بچوں میں اس کی نظر سب سے چھوٹے بیٹے  آرولا پر تھی۔ وہ سلطنت کے کاموں میں دلچسپی بھی لیتا تھا۔ ابتالا چاہتا تھا کہ آرولا کو اپنا نائب مقرر کردے مگر پھر یہ سوچتا تھا کہ  آرولا ابھی کم عمر ہے ۔ یہ ذمہ داری اُٹھا سکے گا یا نہیں؟  ایک دن ابتالا نے سوچا کہ آرولا کی عقلمندی کا امتحان لیا جائے ۔ چنانچہ اُس نے  آرولا کو حکم دیا  کہ میرے لیے لذیذ ترین کھانا تیار کرو ۔ ارولا حکم سن کر فوراً بازار گیا ۔ وہاں بہت سی اچھی اچھی اور مزےدار چیزیں بِک رہی تھیں۔ تمام چیزوں کو دیکھنے اور سوچنے کے بعد آرولا گوشت کی دکان پر گیا اور گائے کی زبان خریدی ۔ گھر آ کر اُسے انواع و اقسام کے مسالے لگا کر پکایا۔ جب زبان پک کر تیار ہوگئی تو ابتالا کے سامنے پیش کی۔ ابتالا نے اُسے مزے لے لے کر کھایا ۔اُس کا ذائقہ لاجواب تھا۔ جب کھا چکا تو اس نے  آرولا سے  کہا :"بازار میں گوشت اور دوسری  بہت ساری کھانے کی چیزیں تھیں۔ مگر تم نے زبان ہی کیوں پسند کی؟" آرولا بولا: "زبان بڑی اہم چیز ہے. اِس سے آپ اچھی اچھی باتیں کرتے ہیں، لوگوں کو اچھی اچھی باتیں سکھاتے ہیں، اُن کے اچھے اچھے کاموں کی تعریف کرتے ہیں، اچھے اچھے راگ الاپتے ہیں،اچھی اچھی خبریں سناتے ہیں، وغیرہ وغیرہ" ۔ابتالا اُس کی بات سن کر بہت خوش ہوا اور دل ہی دل میں کہنے لگا کہ آرولا تو بڑا عقلمند ہے اور اپنے انتخاب پر مسرور ہوا۔  مگر آرولا کو اتنی بھاری ذمہ داری سونپنے کے لئے آبھی اور امتحان لینا چاہتا تھا۔
     دوسرے دن اُس نے آ رولا سے کہا:" آ ج میرے لئے سب سے بدمزہ کھانا تیار کرو۔' آرولا بازار گیا۔ ساری چیزیں دیکھنے کے بعد گوشت کی دوکان پر پہنچا،  گائے کی زبان خریدی اور جان بوجھ کر بھونڈے طریقے سے پکایا اور ابتالا کے سامنے رکھ دیا ۔ ابتالا نے کھانا شروع کیا اور ایک لقمے کے بعد ہی ہاتھ کھینچ لیا  اور منہ بنا کر بیٹھ گیا  اور بولا: "ہے تو زبان ہی جو تم نے کل پکائی تھی مگر بہت ہی بد ذائقہ۔ کل تم نے زبان پکائ  جس کی لذت کا جواب نہ تھا اور آج تم نے پھر زبان پکائ جس کا ایک لقمہ لینا بھی دشوار ہوگیا ۔ آخر کیوں؟"  آرولا ادب سے بولا ؛" یہ زباں ہی ہے جس سے لوگوں کی دل آزاری کرتے ہیں، اُن کی برائی کرتے ہیں، اِس سے لوگوں کو دھوکہ دیتے ہیں،  اِس سے گالی گلوچ کرتے ہیں،  اِس سے  طنز کے تیر چلاتے ہیں، وغیرہ وغیرہ"۔ اُس کا جواب سن کر ابتالا بہت خوش
ہوگیا اور اُسے اپنا جانشین مقرر کردیا
ایک خیال
کیوبا کی اس کہانی کا تھیم ہے:" چیزیں اچھی یا بُری نہیں ہوتیں مگر اُن کا استعمال اُن کو اچھا یا بُرا بنا دیتا ہے"۔ مثلآ چاقو اچھا ہے یا برا؟  اگر چاقو ماں  کہ ہاتھ میں ہے تو  اُس سے  گو شت،سبزیاں اور پھل کاٹتی  ہے اور آپ انکو مزے لے لے کر کھاتے ہیں۔ یہ چاقو کسی سرجن کے ہاتھ میں ہو  اور کسی کے گردے میں پتھری ہو اور وہ درد سے کراہ رہا ہو تو  سرجن چاقو سے گردے کی پتھری نکال دیتا ہے۔ اُس آدمی کو سکون مل جاتا ہے۔  اِس کے برعکس اگر یہی چاقو کسی ڈاکو کے ہاتھ میں ہے تو لوٹ مار کے لیے کسی کا پیٹ تک چیر ڈالتا ہے اور انتڑیوں کو ایسے باہر نکالنا ہے جیسے کانٹے سے سویاں پلیٹ سے نکالتے ہیں۔ تو یہ چاقو بُرا ہے۔گویا ماں یا سرجن کے ہاتھ میں ہے تو نعمت ہے اور زندگی ہے ۔ ڈاکو لٹیرے کے ہاتھ میں ہے تو زحمت ہے اور موت بن جاتا ہے۔
منہ کے لعاب ( سلائیوا) کے بغیر آپ کھانا نہیں نگل سکتے، اِس میں موجود انزائم (اے مائی لیز) نشاستہ کو ہضم کرتا ہے  اور یہ لعاب منہ کو خشک ہونے سے بچاتا ہے؛ کتنی فائدہ کی چیز ہے!  مگر یہی لعاب جب کسی پر پھینکتے ہیں تو "تھوک" کہلاتا ہے۔ کسی کی  ذلت کا باعث بنتا ہے اور بات لڑائی پر ختم ہوتی  ہے۔ کتنی بری  چیز ہے۔ حالانکہ  اصل میں دونوں چیزیں ایک ہی ہیں  مگر استعمال بدلنے کے ساتھ وہ کبھی اچھی اور کبھی بُری بن جاتی ہیں۔
تیسری اور آخری مثال موبائل فون کی ہے۔ یہ اچھا ہے یا برا؟ اس کا فیصلہ اِس کا استعمال کرے گا۔ اگر موبائل سے اللہ کا پاک کلام سنیں،  اُس کے پیاروں کے ارشادات سنیں، عالم دین کے بیان سنیں ،علم حاصل کریں، ٹائم دیکھیں، الارم لگائیں، ٹارچ کا کام لیں، عزیز و اقارب اور دوستوں  کا حال احوال پوچھیں،  کیلکولیٹر کے لئے استعمال کریں ، ڈکشنری دیکھیں، کتابیں پڑھیں؛ تو بڑی اچھی چیز ہے۔
اور اگر اس پر "پب جی" کھیلیں، ٹک ٹاک کو ٹکڑ ٹکڑ دیکھیں ، بیوٹی فلٹر لگا کر جعلی خوبصورت بن جاہیں اور جب کوئ حقیقی زندگی میں دیکھ لے  تو غش کھا کر  گر جائے یا انسان ہوتے ہوئے جانور بن جاہیں، سنیپ چیٹ پر اپنا روپ دکھائیں اور پھر  غائب ہو جاہیں، مخالف جنس سے گھنٹوں باتیں کریں، عمران ہاشمی پر فلمائے ہوئے گانے دیکھیں، ٹی سیریز کے لٓچر گانے سنیں، نیٹ فلِکس پر فلمیں دیکھیں، فضول چیٹنگ کریں، غیر اخلاقی مواد تک اِدھر اُدھر سے گھوم کر رسائی حاصل کریں،کانوں میں ٹوٹیاں لگا کر ڈورے ہوجائیں، موبائل پر ایسے نظر جما کر بیٹھیں کہ پاس بیٹھی ماں کو نظرانداز کردیں۔ تو موبائل بری چیز ہے ۔
موجودہ دور میں موبائل فون ایک ضرورت بن گیا ہے۔  نہ صرف اس کی تعداد میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے بلکہ اس کا استعمال بھی دن بدن بڑھ رہا ہے۔ پی ٹی اے کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں چودہ کروڑ موبائل فون ہیں اور گیلپ کے سروے کے مطابق  پاکستانی روزانہ اوسطاً دو گھنٹے اِسے استعمال کرتے ہیں ۔ اگر دنیا پر نظر ڈالیں تو  "جی ایس ایم اے" کے مطابق دنیا میں اِس وقت نو ارب موبائل فون ہیں جو موجودہ آبادی (ساڑھے سات ارب) سے زیادہ ہیں۔ دنیا میں اِس کا اوسط استعمال چار گھنٹے روزانہ ہے۔اور طالب علم روزانہ نو گھنٹے اِس کے ساتھ چمٹے رہتے ہیں۔
اس کے بےجا اور بے ہنگم  استعمال سے طرح طرح کی جسمانی، دماغی، معاشرتی بیماریاں جنم لیتی ہیں ۔ مثلا
دماغ کا کینسر:  موبائل ریڈیو فریکوئنسی نکالتا ہے جو دماغ کے خلیوں پر اثر انداز ہوکر کر اُن میں میوٹیشن (تبدیلی) پیدا کر کے کینسر کا باعث بنتی ہے.  ڈپریشن: ریسرچ کے مطابق موبائل فون کے استعمال سے ڈپریشن اڑتیس فیصد بڑھ جاتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ نوجوان اکثر چڑ چڑے، ضدی اور تنہائی پسند ہوتے جا رہے ہیں ۔ہمیں ہر وقت  تفتیش رہتی ہےکہ  میری پوسٹ پر کتنے لائک ملے، میری تصویر پر کیا کمنٹ اے ، اس نے میرا میسج پڑھا کہ نہیں؟  جواب کیوں نہیں دیا؟  یا  پھر ہروقت نوٹیفیکیشن کو چیک کرنا۔ان سب سے  اڈرینل گلینڈ ایکٹیو ہو کر  ایک کیمیکل  کارٹیسول نکالتا ہے۔ جس کو عرفِ عام میں  "سٹریس ہارمون" کہتے ہیں ۔ یہ ڈپریشن کے ساتھ ساتھ بلڈ پریشر  کو بڑھاتا ہے اور دل کی دھڑکن کو تیز کرتا ہے۔
جراثیم کا حملہ:  موبائل فون کی سکرین چکنی ہوتی ہے ۔ اِس چکنائی میں ریسرچرز کے مطابق ٹائلٹ سیٹ سے زیادہ جراثیم  ہوتے ہیں۔ دراصل چکنائی جراثیم کو ایسے کھینچتی ہے جیسے مقناطیس لوہے کو۔ جراثیم ہمارے اندر بیماریاں پیدا کرتے ہیں اور دفاعی نظام کو کمزور بنا دیتے ہیں۔
 کمر کا درد:  جب زیادہ وقت کے لئے موبائل استعمال کیا جائے یے تو گردن کو موڑنا پڑتا ہے اور کمر کو بینڈ کرنا پڑتا ہے جس سے پہلے تو کمر کا درد شروع ہوتا ہے اور رفتہ رفتہ گردن کا درد بھی شروع ہو جاتا ہے ۔ کیونکہ ریڑھ کی ہڈی کے مُہرے  کے درمیان ایک فومی پیڈ ہوتا ہے۔ ٹیڑھے ہو کر بیٹھنے سے وہ پیڈ ایک طرف سے بڑھ جاتا ہے اور پھر قریب سے گزرتی ہوئی نروز کو دبانے لگتا ہے جس سے درد شروع ہو جاتا ہے ۔
 نظر کی کمزوری: نئی ریسرچ کے مطابق پانچ منٹ چلنے کے بعد نوے فیصد لوگ موبائل چیک کرتے ہیں۔ گویا پانچ منٹ کی جدائی بھی برداشت نہیں؟  موبائل ایچ ای وی( ہائی انرجی وائبریشن) نکالتا ہے۔ یہ نیلے رنگ کی روشنی ہے۔ جس کی فریکوئنسی چھ سو ستر ٹیرا ہرٹ ہے، یعنی اسکی انرجی بہت زیادہ ہے۔ یہ نیلے رنگ کی روشنی ریٹینا(  آنکھ کا پردہ)  کے کے روشنی سے حساس سیل(راڈ) کو تباہ کر دیتی ہے۔ ریسرچ کہتی ہے کہ آئیندہ سالوں میں نظر کی عینکوں کا استعمال زیادہ ہو جائے گا ۔ جس حساب سے ہم موبائل فون استعمال کر رہے ہیں تو ہر گلی میں ایک عینکوں کی دکان بھی ہوسکتی ہے۔
نیند کی خرابی: موبائل فون کا استعمال ،خاص طور پر سونے سے پہلے،  نیند کے پیٹرن کو خراب کر دیتا ہے۔ اور کچھ لوگ تو بے خوابی  کا شکار ہو جاتے ہیں۔ تاریکی میں  جسم میں ایک ہارمون میلاٹونن بنتا ہے جو نیند لاتا ہے  اور جب ہم موبائل استعمال کرتے کرتے لیٹتے ہیں تو میلاٹونن نہیں بنتا ۔جس سے  نیند کی کمی کا شکار ہو جاتے ہیں
نومو فوبیا: "موبائل فون کے فراق کے غم" کو نوموفوبیا کہتے ہیں۔ یہ "نو موبائل فون فوبیا" کا مخفف ہے۔ اِس اصطلاح کو  دو ہزار آٹھ میں پہلی دفعہ برطانیہ میں  استعمال کیا گیا جب پوسٹ آفس نے ایک سٹڈی میں بتایا کہ برطانیہ کے ترپن  فیصد موبائل فون استعمال کرنے والے اِس بیماری میں مبتلا ہیں  اور اُن کو ہر وقت کھٹکا لگا رہتا ہے کہ انکا موبائل فون گم نہ ہو جائے، خراب نہ ہو جائے، بیٹری یا بیلنس ختم نہ ہو جائے ، نیٹ ورک کوریج نہ رُک جائے،وغیرہ وغیرہ۔
      نوموفوبیا پر دوسری ریسرچ  دو ہزار لوگوں پر کی گئی تو پتہ چلا کہ اٹھاون فیصد مرد اور سینتالیس فیصد عورتیں نومو فوبیا کا شکار ہیں۔ 
    جلدی بیماری:  موبائل فون کو پُرکشش بنانے کے لئے اِس پر دھات کی تہہ چڑھائی جاتی ہے جس میں نِکل، کرومیئم اور کوبالٹ ہوتے ہیں جو جلد کی الرجی کرنے کے لئے بد نام ہیں اور جلدی بیماری ڈرما ٹائٹس کی وجہ بنتے ہیں۔ 
قوت سماعت:  اونچی آواز سے موسیقی سننے اور ہینڈ فری کے استعمال سے کانوں کے پردے( ٹمپانک ممبرین) پر بُرا اثر  پڑتا ہے اور جس سے قوت سماعت میں کمی آجاتی ہے۔ ماں پہلے اپنے بچوں کو آہستہ سے بلاتی تھی: آ جاؤ، کھانا تیار ہے اور بچے بھاگتے آ تے تھے۔ اب ماں چیخ چیخ کر بُلاتی ہے، تب جا کر اس کی نحیف آواز  بچوں کے کانوں میں صرف سرگوشی کرتی ہے۔
 جیب میں بھوت:  موبائل فون استعمال کرنے والا محسوس کرتا ہے کہ موبائل فون اُس کی جیب میں وائبریٹ کر رہا ہے  جبکہ حقیقت میں یا تو کوئی میسیج آیا ہوتا ہے  یا یہ محض آسکا خیال ہوتا ہے یا اس کو کسی کے فون آنے کا شدت سے انتظار  ہوتا ہے ۔ وہ فوراً موبائل فون جیب سے نکال کر دیکھتا ہے کہ کوئی میسج یا فون تو نہیں آیا۔حقیقت میں کچھ نہیں ہوتا بلکہ اس کا وہم ہوتا ہے۔ اس تفتیش کو فنٹم پاکٹ وائبریشن سنڈروم کہتے ہیں۔ خاندان نظام کی تباہی: خاوند بیوی سے بات نہیں کرتا ،نہ بیوی خاوند سے۔اِسی طرح نہ بچے والدین سے۔ سب  پاس بیٹھ کر بھی دور ہو گئے ہیں۔ ایک کمرہ میں بیٹھے ہیں مگر سب اپنے موبائل فون کے ساتھ چپکے ہوتے ہیں ۔ بڑی مشہور بات ہےکہ موبائل فون  نے  قریب کے لوگ دور اور دور کے لوگ قریب کر دیے ہیں۔ اس موبائل کی وجہ سے خاندانی نظام بگڑتا جا رہا ہے۔
 غیر اخلاقی پہلو:  منٹو نے ایک جگہ لکھا ہے:  جب کسی ہوٹل  میں دو شخص میز پر بیٹھے ہوں اور سرجوڑ کر آہستہ آہستہ باتیں کر رہے ہوں اور بات بات پر ایک دوسرے کے ہاتھ پر ہاتھ مار رہے ہوں تو یقین کرلو، کسی فحش موضوع پر گفتگو کر رہے ہیں ۔ اِسی طرح اگر موبائل فون استعمال کرتے وقت کوئی کسی کو چور نظروں سے دیکھے، تو سمجھ جاؤ۔۔۔اور کسی کال آنے پر موبائل فون استعمال کرنے والا گھبرا جائے تو پھر بھی سمجھ جاؤ۔۔۔ اور اگر آپ کے داخل  ہونے پر کوئی موبائل فون بند کر دے تو پھر بھی سمجھ جاؤ۔۔۔ اور اگر کوئی موبائل فون واش روم میں لے جائے تو پھر بھی سمجھ جاؤ۔۔۔ اگر کوئی کال آرہی ہو اور آپ کے پہلو میں بیٹھا شخص بار بار کاٹ دے تو پھر بھی سمجھ جاؤ۔۔۔ اگر کسی کو شوہر پر شک ہو تو اس کا موبائل لے کر شک والی جگہ کے باہر چلے جاو، اگر وائ فای کنیکٹ ہو جائے تو سمجھ جاؤ۔۔۔ اگر کسی کی بیٹر ہاف  بار بار موبائل اٹھا کر کہہ رہی ہو کہ آواز نہیں آ رہی ،کوئ رانگ نمبر ہے تو سمجھ جاو۔۔۔اور میری یہ بات سمجھ جاؤ کہ لاکھ سمجھاؤ، کوئی نہیں سمجھے گا۔ اس لیے آپ ہی سمجھ جاؤ!
     یہ موبائل فون کے بےجا استعمال کے آٹے میں نمک کے برابر چند نقصانات ہیں ۔ اس کے علاوہ اور بھی بہت زیادہ ہیں۔ لیکن اگر صحیح استعمال کیا جائے تو فائدے ہی فائدے ہیں۔ موبائل فون کو اس طرح استعمال کریں کہ یہ آپ کی زندگی میں "موبل آئل" کا کام کرے اور زندگی کی گاڑی کو موبائل رکھے۔ نہ کہ آپ کی زندگی کو سیل( بند) کرنے والا سیل فون بن جائے .
کیوبا کی کہانی سے یہی سبق ملتا ہے کہ زبان کو اچھے اچھے کاموں کے لئے استعمال کریں تاکہ لذت ملے نہ کہ برے کاموں سے اِس کو بدذائقہ بنا ڈالیں ۔  کیوبا کی ایک خصوصیت رہ گئی کہ فیڈرل کاسترو  نے کیوبا میں موبائل کے استعمال پر پابندی لگادی کہ اس سے وقت ضائع ہوتا ہے  اور جب دو ہزار آٹھ میں بیماری کی وجہ سے اقتدار اپنے بھائی کے حوالے کیا تو اس نے پابندی ختم کی مگر اب بھی کیوبا میں لیپ ٹاپ سستا اور موبائل فون مہنگا ہے تا کہ لوگ اس کا کم استعمال کریں۔ انٹرنیٹ پر فری اکسیس صرف پانچ فیصد لوگوں کو ہے اور وہ بھی نیٹ کیفے پر۔ جہاں ڈاکٹر، پروفیسر، سائنسدان وغیرہ ریسرچ کرتے ہیں ۔ کیوبا واحد ملک ہے جہاں انٹرنیٹ  کا استعمال صرف اور صرف تعلیم کے لئے ہوتا ہے۔ یاد رہے کہ مشہور پاپ گروپ بیٹل کو فیڈرل کاسترو نے ملک میں بین کر دیا تھا  کہ یہ وقت کا زِیاں ہے۔ کاسترو سے آپ لاکھ اختلاف کر سکتے ہیں مگر وہ وقت کو ضائع کرنے کے بہت خلاف تھا۔ آپ اس بات سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ وہ شیو نہیں کرتا تھا۔ اس نے کہا؛"میں ہر سال شیو نہ کر کے دس ورکنگ ڈے بچا لیتا ہوں۔"  یہ وقت کی قدر ہی ہے کہ امریکہ جیسی سپر پاور صرف دو سال کیوبا پر قبضہ قائم رکھ سکی اور ناکامی کا منہ دیکھ کر اُسے کیوبا سے نکلنا پڑا۔امریکہ نے متعدد بار کوشش کی کہ کاسترو کا اقتدار یا اُسے ختم کردیا جائے مگر ناکام رہا۔ جو لوگ، جو قومیں،  وقت کی قدر کرتی ہیں اور چیزوں کا صحیح استعمال کرتی ہیں، ان کی شرح  تعلیم  ننانوےفیصد؛ صحت میں ڈاکٹر ہی ڈاکٹر اور سو ملین ڈالر کی بائیو ٹیکنالوجی کی ایکسپورٹ ہوتی ہے۔ وہ چیونٹی ہو کر بھی ہآتھی کے کان میں گھس کر اسے پاگل بنا دیتی ہیں۔ موبائل فون وقت کے ضیاع کا ورلڈ چیمپیئن ہے۔اس کو  ایک نمبر پر لانے میں دو نمبر عِلًت "موبائلیریا" کا بڑا ہاتھ ہے۔ یاد رہے کہ چیزیں اچھی یا بری نہیں ہوتیں، اُن کا استعمال اُن کو اچھا یا برا بنا دیتا ہے۔اہیں مِل کر موبائل فون کو "اچھا" بناتے ہیں۔

Thursday, 8 August 2019

ایک تصویر،ایک کہانی، ایک خیال Episode 9

                      
          Episode 9 ایک تصویر، ایک کہانی، ایک خیال
                               
ایک تصویر


                                ایک کہانی 
سردیوں کی رات تھی۔ چولہے میں آگ جل رہی تھی۔  ساری فیملی کچن میں بیٹھی رات کا کھانا کھا رہی تھی۔ کھانا ختم ہوا تو بچے ابو کے اِرد گرد بیٹھ گئے اور والد کی طرف دیکھنے لگے جیسے کہہ رہے ہوں: ابو آج کی کہانی؟ ابو نے حُقّے کا لمبا کش  لگایا، گُڑ گُڑ کی آواز اُٹھی،  چِلَم میں پڑے کوئلے قدرے اور سرخ ہوگئے ۔ ابو نے منہ سے دھواں نکالا اور گلے کو کھنکار کر صاف کیا اور کہانی شروع کردی۔
بچو، آج کی کہانی ذرا مختلف ہے ۔غور سے سننا کیونکہ بیچ میں تمہیں میرے سوالوں کا جواب دینا ہوگا ۔ تینوں بیٹے اور بیٹی تجسس سے ابو کا چہرہ دیکھ رہے تھے۔ ابو نے کہانی شروع کی: میرے بچو!  لاہور کے ایک پوش علاقہ میں بہت بڑی کوٹھی تھی جس میں ایک ارب پتی بزنس مین رہتا تھا ۔اس کی بیوی مشہور سوشل ورکر تھی۔ ان کا ایک بیٹا تھا۔ اس کوٹھی کی ایک سائیڈ پر سرونٹ کوارٹر تھے جس میں دودھی، خانسامہ، چوکیدار، ڈرائیور وغیرہ رہتے تھے۔ صبع جب سکول جانے کا وقت ہوا۔ منھا دودھی نے بیٹے کو سائیکل پر بٹھایا اور اس کو سکول چھوڑنے کے لئے جانے لگا۔ اِسی اثنا میں ارب پتی کا بیٹا صاف شفاف قیمتی لباس پہنے لینڈکروزر میں بیٹھ گیا۔ اس کے ہاتھ میں سینڈوچ تھا جس کو وہ ساتھ ساتھ کھا رہا تھا۔ ڈرائیور نے دروازہ بند کیا اور ڈرائیور سیٹ کی جانب بڑھا۔ چوکیدار نے لپک کر دیوہیکل گیٹ کھول دیا۔ اُدھر دودھی کا بچہ سائیکل کے ڈنڈے پر بیٹھا ،امیر بچے کی شان و شوکت دیکھ رہا تھا۔ اس نے ایک نظر اپنے پرانے کپڑوں، پھٹے ہوئے بستہ اور پرانی سائیکل کی طرف دوڑائی اور سوچنے لگا کہ اس کے پاس اچھے کپڑے کیوں نہیں؟ اس کے پاس گاڑی کیوں نہیں؟ اس کے پاس کوٹھی کیوں نہیں؟ سائیکل چل پڑی اور وہ ہچکولے لیتا آگےبڑھتا رہا اور  ساتھ ساتھ اپنی محرومیوں کی لسٹ کو بھی بڑھاتا رہا۔
باپ نے کش لگایا اور بولا: میں نے کہا تھا کہ آج کی کہانی پر میں سوال کروں گا اب بتاؤ کہ ارب پتی کا بیٹا خوش ہے یا دودھی کا؟ سب بچے ایک ساتھ بولے: ارب پتی کا بیٹا۔
باپ نے کہانی کو آگے بڑھایا۔دوپہر کو دونوں بچے  اپنے اپنے گھروں کو واپس لوٹ آئے۔ جب شام ہوئی تو غریب بچہ اپنے ہمسایوں کے بچوں کے ساتھ پٹھوگرم کھیلنے لگا۔ جب اِس کھیل سے اکتا گئے تو کرکٹ کھیلنے لگے۔ ادھر ارب پتی کا بچہ گھر میں اکیلا تھا۔ بچے کا والد بزنس میٹنگ اٹینڈ کر رہا تھا اور اس کی والدہ حسبِ معمول رفاہی کاموں میں مصروف تھی۔ اُس نے اپنے بیڈ روم کا پردہ ہٹایا تو دیکھا کہ سات آٹھ بچے اپنے ہم عمر ساتھیوں کے ساتھ کھیل کود میں مشغول تھے۔ انکے قہقہے کھڑکی کے شیشے پھاڑ کر اس کے کانوں کے پردوں کو پھاڑ رہے تھے۔ اس کے دل میں آیا کہ وہ بھی اس کمرہ سے نکلے اور جا کر ان بچوں کے ساتھ کھیلنا شروع کر دے مگر والد کا حکم اس کے پاؤں کی بیڑی بن گیا۔"ان بچوں سے زیادہ میل ملاپ نہیں رکھنا ، فاصلہ رکھنا ہے۔" یہ سوچ کر اس نے اپنا ارادہ ترک کردیا اور حسرت لئے ان کو کھڑکی سے ہی دیکھتا رہا اور دل ہی دل میں کڑھتا رہا کہ وہ اس کمرہ میں قید ہے جبکہ آزادی باہر غریب بچوں کے پاس ہے۔ وہ کھیلنے کودنے کے مزے تک سے محروم ہے۔ ابّو نے کہانی پھر روک دی اور سوال داغ دیا: بتاؤ، اب کون خوش ہے؟ ارب پتی کا بیٹا یا غریب کا۔ سب نے ایک سانس میں کہا: غریب کا بچہ آزاد ہے،کھیل کود رہاہے۔ ارب پتی کا بچہ تو سونے کے پنجرے میں قید ہے۔
دوسرا دن!  صبح کے وقت ارب پتی اپنی مرسیڈیز میں بیٹھ کر دفتر جانے لگا  اور ادھر سرونٹ کوارٹر سے شیدے چوکیدار کا بیٹا نکلا۔ وہ ایک سرکاری کالج میں بی اے کا طالب علم ہے اور  پیدل ہی کالج آتا جاتا ہے۔ چوکیدار کے بیٹے کی نظر ارب پتی پر پڑی۔ اس کے سوٹ بوٹ کی چمک دمک کو دیکھا ،پرفیوم کی خوشبو ساری فضا کو معطر کر رہی تھی، سارے ملازم صاحب کی گاڑی کے اِرد گرد ہاتھ باندھ کر کھڑے تھے۔ چوکیدار کے بیٹے نے اپنی قسمت پر سرد آہ بھری۔ اُس کے دل میں خواہش پیدا ہوئی :کاش !  اس کے پاس یہ سب کچھ ہوتا ۔اُدھر ارب پتی مرسڈیز کی پچھلی سیٹ پر بیٹھ گیا ۔ اس کی نظر چوکیدار کے بیٹے پر پڑی؛ دبلا پتلا ،چھریرا بدن، سر پر خوبصورت بال اور ہرن کی طرح چال۔۔۔ ایک دم ارب پتی کو اپنی شوگر کی زیادتی،  ہای بلڈ پریشر کی شکایت اور گھٹنوں کی سوجن یاد آگئی۔ اسے خیال آیا کہ وہ تیزی سے چلنے سے محروم ہے، وہ سب کچھ کھانے سے محروم ہے جبکہ یہ نوجوان صحت مند ہے،  برق رفتاری سے چل سکتاہے اور سب کچھ ہڑپ سکتا ہے۔ اس کے سیاہ بال اور سمارٹ جسم دیکھ  کر اسے اپنا گنج اور بڑھی ہوئی توند یاد آگئے، اس کی جوانی دیکھ کر اپنی جوانی یاد آگئی۔ ارب پتی کا دل کیا کہ کاش وہ اس کی جگہ ہوتا؛ صحت مند، توانا، جوان اور خوش خرم۔
ابو نے پھر کہانی روک دی  اور بولے: اب بتاؤ  چوکیدار کا بیٹا خوش ہے یا ارب پتی؟ اِس دفعہ بچوں کی رائے تقسیم ہوگی۔ ایک بیٹا بولا: دونوں ہی نا خوش ہیں اور اپنی قسمت سے نالاں ہیں۔ دوسرا بیٹا بولا: دونوں خوش ہیں، دونوں کے پاس خوش ہونے کے لئے کچھ نہ کچھ ہے، جو ان کو نظر نہیں آرہا۔ تیسرا بیٹا بولا: ارب پتی خوش ہے کہ اُس کے پاس دولت ہے جو ہر مرض کا علاج ہے ۔ بیٹی بولی: چوکیدار کا بیٹا خوش ہے کہ اس کے پاس صحت جیسی نعمت ہے۔ ابّو نے کہانی آگے بڑھا دی۔
تیسرا دن! اتوار کا دن تھا۔ ارب پتی کی بیوی آج گھر پر ہی تھی۔اس نے خانسامے کی بیٹی کو بلوا بھیجا۔ خانسامے کی بیٹی نذیراں میٹرک کے بعد رشتے کے انتظار میں گھر بیٹھی تھی۔ گھر کے سارے کام  اس کے حوالے تھے۔ فارغ وقت میں اسے پڑھنے کا شوق تھا؛ اخبار،  ڈائجسٹ، ناول جو ہاتھ لگا پڑھ ڈالا۔ نزیراں مالکن کے بیڈروم میں داخل ہوئی۔ مالکن بیڈ پر لیٹ رہی تھی۔ نذیراں  کو دیکھتے ہی بولی: آج میرے سر میں درد ہے، سر کی مالش کر دو۔ نذیراں فوراً گئ، تیل لائی اور لپک کر بیڈ پر چڑھ گئی، مالکن کو آگے بٹھا کر اس کے پیچھے بیٹھ کر مالش کرنے لگی ۔نذیراں نے دیکھا کہ مالکن کے بال سفید ہو رہے ہیں۔ خیالوں میں شکر کرنے لگی کہ میرے بال تو ابھی کالے ہیں۔ اُدھر مالکن نے محسوس کیا کہ نذیراں کے ہاتھ کتنے کھردرے رہیں ۔ پھر مالکن نے اپنا ہاتھ دوسرے ہاتھ پر  پھیرا اور محسوس کیا کہ میرے ہاتھ تو مکھن کی طرح ملائم ہیں اور دل ہی دل میں خوش ہوگی۔ مالش کرتے کرتے نظیراں نے بائیں جانب دیکھا، جہاں پر ڈریسنگ ٹیبل تھا۔ اس کے بڑے شیشے میں خود کو دیکھا اور مالکن کو بھی۔ نزیراں دیکھنے لگی کہ اس کے چہرے  پر جوانی رقص کر رہی ہے جبکہ مالکن کے چہرے پر جھریاں اپنی آمد کا اعلان کر رہی ہیں۔ مالکن نے جلد محسوس کر لیا کہ نزیراں کے مالش کرنے کی رفتار سست ہو گئی ہے۔ اُس نے دیکھنے کے لئے گردن موڑی اور دیکھا کہ نزیراں  شیشے میں دیکھ رہی ہے۔ شیشے میں دونوں کی آنکھیں چار ہوہیں۔ نذیراں نے مالش تیز کر دی۔ مالکن نے دیکھا  کہ اس کے سرخ سفید چہرے کے پیچھے نذیراں کا سیاہی مائل  نحیف چہرہ نظر آیا جیسے غروب آفتاب کے وقت افق کی سرخی کہ پس منظر میں سوکھا کیکر۔ مالکن اپنی سفید رنگت پر خوش ہوئی اور دل میں نزیراں کے کالے رنگ پر ترس کھایا ۔ مالکن بولی: نذیراں تھک تو نہیں گئ؟ نذیراں بولی : نہیں، بیگم جی ۔ ہم لوگ نہیں تھکتے۔ ہم  کام کرنے کے عادی ہوتے ہیں۔  ایک کام سے تھک جائیں تو آرام کرنے کے لئے دوسرا کام شروع کر دیتے ہیں۔ دل میں اپنی اچھی صحت پر خوش ہوئی جس کی بدولت وہ دن رات کام کرتی تھی۔ مالکن  سوچ رہی تھی کہ وہ کتنی خوش نصیب ہے ۔ سارے کام اس کی آنکھ کے اشارے سے ہو جاتے ہیں۔ اِس بیچاری کو سارے کام خود کرنے پڑتے ہیں
 مالکن بولی: سُنا ہے رات تیز بارش ہوئی؟  نذیراں بولی: "جی بیگم جی،  بہت زور کی"  یہ کہہ کر سوچنے لگی کہ کل شام بادل کی ٹکڑیاں پورے آسمان پر تیرنے لگیں پھر سب مل گئیں جیسے تنکے بہتے دریا میں گرداب میں اکٹھے ہو جاتے ہیں اور ایک بڑا بادل بن گیا۔ آسمان غائب ہوگیا اور بادل ہی آسمان بن گیا ۔ پھر ہلکی ہلکی ٹھنڈی ہوا چلنے لگی ،اندھیرا چھا گیا، سورج نے بادل کی چادر اوڑھ لی، پرندے درختوں میں سہم کر بیٹھ گئے، چیونٹیاں قطاروں میں گھروں کی جانب چل پڑیں۔  ہم نے باہر پڑا سامان اندر کر لیا۔ عجیب کیفیت تھی، خوف اور خوشی مل گئے جیسے کسی نے پلاؤ میں زردہ ملا دیا ہو ۔ پھر بادلوں میں ہلچل مچی ۔ گرج اٹھی  اور کڑک  ہوا چیرتی ہوئی کانوں میں داخل ہوکر دل کی دَھک دّھک بڑھا کر ختم ہوگی۔ تیز چمک اُٹھی اور آسمان پر روشنی کی نہریں بہنے لگیں اور آنکھیں چندھیانے کی بجائے خوف سے اور بھی کھل گئیں۔ گرج چمک کے بعد بارش کی کن کن،  پھر چھن چھن اور پھر پرنالوں کا شور- پر لطف ماحول، ہم آگ جلا کر بیٹھ گئے۔ شعلوں کی حدت جسم کو سہلانے لگی۔  مالکن اپنے کمرے میں بند ٹی وی کے شور میں ان سارے لمحات سے محروم رہی۔اُدھر مالکن سوچ رہی تھی کہ بارش میں اِن کی چھت ضرور ٹپکی ہو گئی، نیچے بالٹی رکھ کر پانی اکٹھا کیا ہوگا اور نذیراں سوراخ بند کرنے کے لئے بارش میں چھت پر چڑھی ہوگی ۔ بیچاری کو کتنی مشکل ہوئی ہوگی؟  اس کے دل میں رحم آگیا اور بولی نزیراں موسلا دھار بارش میں میرےپاس آ جایا کرو۔ نذیراں بولی:  بیگم جی، بارش روز روز تھوڑی ہوتی ہے ۔روز تو ستاروں کی حکومت ہوتی ہے ۔ پورے آسمان پر جگہ جگہ چوکیاں بنا کر، مشعلیں جلا کر بیٹھے رہتے ہیں جیسے کہہ رہے ہوں: خبردار!  جو اِس طرف کا رُخ کیا تو!  کبھی کبھی تو بادلوں کا پردہ پڑتا ہے اور بارانِ رحمت برستی ہے۔  بڑا مسحورکن لمحہ ہوتا ہے۔ مالکن بولی: جانے دو ،زیادہ کتابیں نہ پڑھا کرو۔ بارش میں کیا رکھا ہے؟  ہر طرف کیچڑ ہی کیچڑ ،ہر اک چیز گیلی گیلی،سیلی سیلی دیواریں، دبی  ہوئی بدبویں باہر نکل آتی ہیں۔ چلو اب بس کرو۔ مجھے کافی آرام ملا ہے، تم بھی تھک گئی ہو۔
نذیراں مروتاً بولی: نہیں نہیں حالانکہ اس نے ابھی جھاڑو لگانی تھی، برتن دھونے تھے اور دوپہر کا کھانا بھی پکانا تھا مگر اُس کی ہمت کے سامنے سب کام چھوٹے تھے۔ مالکن مالش کروا کر فریش محسوس کر رہی تھی اور سوچ رہی تھی اگر نزیراں کے سر میں درد ہو تو اِس کی کون مالش کرے گا؟ 
ابو بولے بتاؤ:  مالکن اور نذیراں میں سے کون خوش ہے؟ بچے بولے دونوں عورتیں اپنی زندگی سے مطمئن نظر آرہی ہیں۔ نذیراں کی خوشی میں سمجھوتا ہے جبکہ مالکن کی خوشی میں غرور۔ بظاہر دونوں ہی خوش ہیں۔
ابو بولے: بچو! جب ہم ان چیزوں کے بارے میں سوچتے ہیں جو ہمیں حاصل ہیں تو اس وقت ہم خوش ہوجاتے ہیں  اور اپنی خوش قسمتی پر نازاں ہوتے ہیں۔  اور جو نہی ہم ان چیزوں کے بارے سوچنے لگتے ہیں جو ہمارے پاس موجود نہیں تو ہم دکھی ہوجاتے ہیں اور اپنی بدقسمتی پر ماتم کرنے لگتے ہیں۔ گویا خوشی اور دکھ کا تعلق ہماری سوچ کے ساتھ ہے۔
چوتھا دن! کل کی بارش کے کیچڑ کے باعث دودھی کا سائیکل رُک رُک کے چل رہا تھا ۔اُس کے بیٹے کے کپڑے نمی سے مزید چُڑ مُڑ ہوگئے تھے۔
 شام کو بچے کیچڑ کی وجہ سے کرکٹ نہیں کھیل سکے۔ آج وہ شاپر کی پتنگیں بنا کر اُڑا رہے تھے ۔ صاف ستھرے آسمان پر پتنگ بازی بہت مزہ دے رہی تھی۔ ان کی خوشی کی انتہا نہ تھی ۔ امیر بچہ سب کچھ کھڑکی سے دیکھ رہا تھا اور آج زیادہ اذیّت محسوس کر رہا تھا۔
چوکیدار کا بیٹا آج کیچڑ سے بچتا بچاتا کالج جا رہا تھا۔ پھر بھی چھینٹے اسکی پینٹ پر پڑ رہے تھے۔ ارب پتی کا بلڈ پریشر صبع صبع ہی چڑ گیا۔  آج اُسے ایک بڑا کنٹریکٹ لینے کے لئے کوشش کرنے تھی۔  نذیراں کو ایک نیا ناول مل گیا ۔ وہ اس کو پڑھ کر محظوظ ہو رہی تھی۔ مالکن نے آج یتیم خانے کے بچوں میں گرم کپڑے تقسیم کئے اور بہت خوش تھی۔
 ابو بولے: دیکھا جن کی سوچ  حاصل شدہ چیزوں  پر ہے، ان کو  مزید خوشیاں مل رہی ہیں۔ جن کی سوچ غیر حاصل پر ٹِکّی ہیں، وہ غم و الم کی دلدل میں دھنستے جا رہے ہیں۔ بیٹا! اپنی سوچوں پر پہرہ دو۔
                                        ایک خیال
  کہانی کا تھیم ابو کے اختتامی ریمارکس میں ہے۔  غریب بچہ جب امیر بچہ کی اشیاء کو دیکھتا ہے تو دکھی ہو جاتا ہے۔ جب امیر بچہ کھڑکی سے دوسرے بچوں کو کھیلتے دیکھتا ہے، اس وقت وہ دکھی ہو جاتا ہے۔ اسی طرح ارب پتی اور چوکیدار کا بیٹا دونوں ہی ان چیزوں کے بارے میں سوچتے ہیں جو ان کے پاس نہیں ،دونوں دکھی ہیں ۔جبکہ مالکن اور نذیراں  دونوں اپنی حاصل شدہ چیزوں کو دیکھتی ہیں، دونوں خوش ہیں۔
 خوشی اور غمی ہمارے سوچنے کے انداز میں ہے۔ جب ہم ان چیزوں پر غور کریں گے جو ہمیں حاصل ہیں(ہیوز) تو  ہم خوش ہوجاتے ہیں۔اور جب  ان چیزوں پر توجہ دیتے ہیں جو ہمارے پاس موجود نہیں (ہیو ناٹ)تو  ہم دُکھی ہو جاتے ہیں۔ مختصراً جو ہیوز  کو دیکھیے، وہ خوش ؛ جو ہیو ناٹ کو دیکھے، وہ دُکھی۔ خوشی کا انحصار ہمارے سوچنے کے انداز میں میں ہے۔  خوشی کا یہ فارمولا کوئی نیا نہیں بلکہ چودہ سو سال پہلے حضرت علی رضی اللہ عنہ نے دیا تھا ۔فرمایا: خوش رہنے  کے دو طریقے ہیں :
جو پسند ہے، اُسے حاصل کر  لو ۔
جو حاصل ہے، اُسے پسند کر لو۔
 یعنی ہیوز کے ساتھ دوستی کر لو اُن کے ساتھ ملتے جلتے رہا کرو۔ یا پھر جو ہیو ناٹ ہیں ، اُن کو حاصل کرنے کی کوشش کرو۔
خوشی کا پودا ہیوز کے بیچ میں پوشیدہ ہے
 اِسی طرح کی بات حضرت واصف علی واصف رحمتہ اللہ علیہ نے کی۔ جب کسی نے اُن سے سوال کیا : خوشی کیا ہے اور غم کیا ہے؟  فرمایا: "اپنی مرضی اور اللہ کی مرضی میں فرق کا نام غم ہے ۔"
یعنی جو چیزیں،صلاحیتیں ،خو بیاں۔۔۔ ؛ اللہ نے دی ہیں۔ یہ اللہ کی مرضی ہے۔اس کو  اپنی مرضی بنا لیں۔ ان ہیوز کو قبول کرلیں تو خوشی ہی خوشی ہے ۔
 آج کے اِس مادی دور میں ہر شخص پریشان ہے کیونکہ اس کی ساری توجہ ہیوناٹ پر ہے۔  صنعتی انقلاب کے بعد،اشیاء کی بھر مار نے انسان کے لالچ کو بڑھا دیا ہے اور اس کے ہیوناٹ کے احساس کی شدت کو کئی گناہ بڑھا دیا ہے۔ اس لئے وہ انگزاہیٹی کا شکار ہے جبکہ ماضی میں یہ احساس اتنا شدید نہیں تھا اور انسان کافی حد تک خوش رہتا تھا۔
        ایک دفعہ ایک بادشاہ بیمار ہو گیا۔ شاہی حکیموں سے علاج کروایا، دوسری سلطنتوں کے حکماء سے علاج کروایا مگر بیماری نہ گئی۔ کسی دانشور نے مشورہ دیا کہ اِس کو اُس شخص کی قمیض پہناؤ جس کو کوئی دکھ نہ ہو، بلکہ خوش ہو ۔بادشاہ کو مشورہ پسند آیا ۔ فورا  وزیراعظم سے قمیض مانگ لی ۔ وزیر بولا: جہاں پناہ! میری زندگی میں تو پریشانی ہی پریشانی ہے۔ خوشی کا منہ دیکھے تو سالوں ہو گئے۔ بادشاہ نے سلطنت کے امیر ترین شخص سے رابطہ کیا۔ اس سے بھی یہی جواب ملا۔ بادشاہ نے ڈنکا بجا دیا کہ پوری سلطنت میں پھیل جاؤ اور اس آدمی کی قمیض لا کر دو جس کو کوئی پریشانی نہ ہو ۔ بادشاہ کے کارندے ساری سلطنت میں پھیل گئے۔ ہر خاص و عام سے ایک ہی سوال کرتے کہ تمہیں کوئی دکھ تکلیف تو نہیں؟ ہر ایک سے یہی جواب ملتا کہ میں تو دکھی ہو، میں پریشان ہوں۔ ڈھونڈ تے ڈھونڈتے کھیتوں میں ہل چلاتے ایک کسان  مل گیا ۔ بادشاہ کے کارندوں نے اس سے سوال کیا: تمہیں کوئی دکھ تو نہیں ہے؟ وہ بولا: "نہیں، میں تو خوش ہوں" ۔بندے خوش ہو گئے کہ وہ شخص مل ہی گیا جس کی تلاش تھی ۔ وہ فورا سے پہلے بادشاہ کے پاس پہنچے اور اُس کو خوشی کی خبر سنائی کہ ایسا شخص مل گیا ہے، جسے کوئی دکھ نہیں۔ بادشاہ بولا: "فوراً اُسکی قمیض لاؤ "۔ کارندے پلک جھپکتے اُس کے پاس پہنچے اور کہا: اپنی قمیض ہمیں دے دو۔ بادشاہ نے منگوائی ہے ۔ وہ بولا:  کونسی قمیض ؟ میرے پاس تو قمیض ہی نہیں ہے ۔
 جس شخص کو بنیادی ضرورت کی چیز "قمیض" کی پرواہ نہیں تو دوسری غیر ضروری اشیاء کی کہاں ہوگی؟ اُسکو ہیو ناٹ کا مسئلہ ہی نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ خوش نکلا۔
خوشی کا پودا ہیوز کے بیچ میں پوشیدہ ہے!  غم کا ناسور ہیو ناٹ سے بہتا ہے!
ہیو ناٹ پر غالب کا شعر ہے:
ہے کہاں تمنا کا دوسرا قدم یارب
ہم نے دشتِ امکاں کو نقشِ پا پایا

Sunday, 4 August 2019

ُایک تصویر،ایک کہانی، ایک خیال ٕEpisode-8

ُایک تصویر،ایک کہانی، ایک خیال
ٕEpisode-8
ایک تصویر


ایک کہانی
کاغذ نے زنجیر عدل ہلائی۔ گھنٹیوں کی جھنکار اٹھی۔ بادشاہ نے اُسے دربار میں بلا لیا۔ بادشاہ نے گرج دار آواز میں پوچھا: آچھا بتاؤ،  تمہارے ساتھ کس نے زیادتی کی؟ کاغذ بولا ظلِّ سبحانی!  میرا رنگ سفید اور جلد صاف شفاف اور ملائم تھی۔ سیاہی نے مجھے کالا کر دیا۔  میرے اوپر بے ڈھبی لکیریں اور نقطے ڈال دیئے ۔ میرا حلیہ بگاڑ دیا ہے۔ میرا منہ چیچک زدہ ہوگیا ہے، میں کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہا ۔ بادشاہ نے حکم دیا کہ سیاہی کو فورا حاضر کیا جائے ۔سیاہی کو بلایا گیا۔ سیاہی کو دیکھتے ہی بادشاہ جلال میں آگیا اور کاغذ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے پوچھا :اس کا تم نے حلّیہ بگاڑ دیا ہے ، کیوں؟ سیاہی بولی :بادشاہ سلامت! میں تو چپ چاپ اپنے گھر دوات میں اپنے خاندان کے ہمراہ رہ رہی تھی ۔ میں اپنی چھوٹی سی دنیا میں خوش تھی مگر قلم نے مجھ پر زیادتی کی اور مجھے گھر سے بے گھر کر دیا اور سارے صفحے  پر پھیلا دیا، میری جمعیت کو تتّر بتّر کر دیا ۔بادشاہ غصے میں آ گیا اور حکم دیا: قلم کو فوراً سے پہلے دربار میں پیش کیا جائے ۔ قلم کو دربار لایا گیا۔ بادشاہ کی آنکھوں میں وحشت دیکھ کر قلم سہم گیا۔ بادشاہ چلایا :تمہاری یہ جرات کہ تم نے سیاہی کو بے گھر کر دیا ۔ قلم نے  تھوک نگلی اور ہمت باندھ کر بولا: شاہِ آعظم !آپ کا قلم جاری رہے(حکومت قائم رہے) میں تو نہروں کے کنارے ہرے بھرے درختوں میں خوش وخرم رہ رہا تھا ۔ ہاتھ ، اچانک کلہاڑی اور چاقو لے کر وہاں پہنچا ۔ مجھے جڑ سے اُکھاڑ پھینکا، میرے ہاتھ پاؤں کاٹ دیے ، پھر میری کھال چھیل ڈالی۔ میرے کپڑے اتار کر مجھے ننگا کر کے میری  پوریاں جدا کیں۔ پھر مجھے چاقو سے  تراشا ،سر چیرہ، قسط لگایا اور دوات میں ڈبو دیا ۔ اب ہاتھ ،دن رات مجھے گردن سے پکڑ تا ہے اور مجھے سر کے بل چلاتا ہے ۔ سارا قصور ہاتھ کا ہے !  بادشاہ غصہ سے تھرتھرانے  لگا اور کہا کہ ہاتھ کو ہاتھ پر (فوراً) پیش کیا جائے۔
ہاتھ، ہاتھ جوڑے بادشاہ کے حضور  پیش ہوا ۔ بادشاہ بولا: تو قلم  پر دن رات ظلم کرتا ہے، سیاہی کو در بدر کر دیا ہے اور کاغذ کو بد صورت کر دیا ہے؟   تم نے سب کے ساتھ ہی ہاتھ کر دیا ہے اور آب ہاتھ جوڑے معصوم بن کر کھڑے ہو؟ ہاتھ بولا : آپ کا اقبال بلند ہو!  میں تو گوشت، ہڈی اور خون ہوں۔ کبھی گوشت نے بھی کسی پر ظلم کیا ہے؟ وہ تو سب کے ظلم سہتا ہے، کٹتا ہی رہتا ہے ۔ کبھی ہڈی بھی کسی کو تکلیف دیتی ہے ،وہ تو خود ٹوٹتی رہتی ہے، خوراک بنتی ہے اور بیچارا خون کیسے ظالم ہو سکتا ہے؟ یہ تو دوسروں کے ظلم سہ کر خون کے آنسو روتا ہے۔ میں تو گاڑی ہوں۔ گُھماتا پھراتا ہوں۔ میرا ڈرائیور طاقت ہے، میں اس کی سواری ہوں۔ سوار مجھے جدہر چلاتا ہے ،میں اُدھر چل پڑتا ہوں۔ وقت ظالم ہے!  میں طاقت کے بغیر ہل نہیں سکتا۔ بادشاہ کنفیوژ ہوگیا  اور اس کا غصہ آسمان سے باتیں کرنے لگا  اور فوراً طاقت کو بلا بھیجا
۔ طاقت حاضر ہوئی۔ پوچھا:  تم ہاتھ سے خدمت لیتی ہوں اور اسے اِدھر اُدھر گھماتی پھرتی ہو۔ طاقت بولی: جہاں پناہ ! مجھے ملامت مت کیجیے۔ میں بالکل بے قصور ہوں۔ میں تو خواب خرگوش سو رہی تھی۔ خود ہلتی تھی نہ دوسروں کو ہلاتی تھی۔  دماغ سے حکم آتا ہے اور مجھے جگاکر کام کرنے کو کہا جاتا ہے ۔ سارا قصور دماغ کا ہے!  بادشاہ کی بیچینی اضطراب میں بدل گئی۔ غصہ  سے اس کی آنکھیں سرخ ہوگئیں۔ حکم صادر کیا کہ ایک لمحہ ضائع کئے بغیر دماغ کو زنجیروں میں جکڑ کر پیش کیا جائے۔  دماغ کو لایا گیا ۔ بادشاہ سیدھا ہو کر بیٹھ گیا اور بولا: اے دماغ! تمہارا دماغ تو نہیں چل گیا؟ تم ہاتھ سے مشقت لیتے ہو۔ دماغ بولا: سلطانِ معّظم!  میں تو اپنے سپنوں میں گُم تھا کہ دل نے علم کا قصد، عقل کی زبانی میرے پاس بھیجا اور پیام دیا کہ طاقت کو اُٹھا دے۔  میں نے مجبوراََ طاقت کو حرکت دینے  کے لئے برقی توانائی بھیجی۔ میں دل کا تابع فرمان ہوں ۔ دل کے دل میں جو آتا ہے مجھے عقل کے ذریعے بتا دیتا ہے اور میں فرمانبرداری پر مجبور ہوں ۔ میرا دل صد چاک ہے،  دل آزاری پر خود دلسوز ہوں۔ سارا قصور دل کا ہے ۔ دیکھو! دل خود بھی ہر وقت پُھدکتا رہتا ہے اور  مجھ سے بھی کچھ نہ کچھ کرواتا رہتا ہے ۔اب دل کی باری تھی۔ دل کو بلایا گیا ۔بادشاہ اس مسئلہ میں اُلجھ کر رہ گیا۔ اس کی عجیب کیفیت ہورہی تھی۔ دل حاضر ہوگیا۔  بادشاہ نے کہا: تم دماغ پر حکم چلاتے ہو ؟  دل بولا :میں ایک مٹھی ہوں جو کسی کی مٹھی میں ہے۔ میں ایک تختی ہوں ؛ علم کا نقش اس تختی پر عقل کے چراغ روشن ہونے کے بعد منقوش ہوا۔  بہت دنوں یہ تختی بغیر نقش کے پڑی رہی۔ جس نے اس پر نقش کیا، اُس سے پوچھو۔بادشاہ نے سر پکڑ لیا۔ اس کے دماغ کی دہی بن گئی مگر اس نے ہمت کی اور حکم جاری کیا کہ آج کے بعد کوئی بھی کاغذ کو کالا نہیں کرے گا۔ ساتھ ہی بولا: تخلیہ !  سب اپنے اپنے گھروں کو لوٹ گئے۔
کاغذ بہت خوش تھا کہ آج کے بعد سفید، نرم ملائم اور صاف ستھرا رہے گا کیونکہ کاغذ پر لکھنے کی پابندی کا حکم نامہ جاری ہوچکا تھا۔ مگر کاغذ کی خوشی، کاغذی نکلی۔ کاغذ کی قیمت گر گئ۔ لوگوں نے کاغذ کے جہاز بنا کر اُڑا نے شروع کردیے؛ ناؤ بنا کر پانی میں بہانا شروع کردیا؛ کسی نے پکوڑے ڈالے تو کسی نے سموسے، جلیبیاں؛ لفافے دھڑا دھڑ بننے لگے ؛ لوگوں نے الماریوں میں کاغذ بچھانے شروع کردیے؛ کاغذ سے گاڑیوں کے شیشے صاف ہونے لگے ۔ جو بھی استعمال ہوتا کاغذ نہ صرف گندہ ہوتا بلکہ پھٹ  جاتا،زخمی ہوکر اس کے پُرزے پُرزے ہوجاتے اور گزرگاہوں پر بکھر جاتے،  لوگ  اُوپر پاؤں رکھتے یہ مرجاتا بالآخر کوڑے دان میں دفن ہو جاتا۔ کاغذ اس درد ناک، بھیانک اور ذلت آمیز زندگی سے تنگ آگیا اور اس نے دوبارہ زنجیرِعدل بجا دی۔ بادشاہ کے حضور پیش کیا گیا۔ بادشاہ نے کہا: سناؤ! آب پھر تو کسی نے تمہارے اوپر لکیریں  اور نقطے  وغیرہ تو نہیں بنا دیے ؟ کاغذ رونے لگ پڑا اور ہاتھ جوڑ کر فریاد کی کہ بادشاہ سلامت !  اپنا حکم نامہ واپس لے لیں۔ میں نادان تھا میں جن کو دھبےّ سمجھ رہا تھا، وہ نقش و نگار تھے؛  میں جن کو لکیریں سمجھ رہا تھا وہ میری رگِ جان تھیں؛  میں جن کو سیاہ نقطے سمجھ رہا تھا وہ ہیرے تھے؛  میرے اوپر سیاہی نہیں “روشنائی” تھی جس سے میری زندگی میں روشنی تھی۔ جہاں پناہ!  روشنائی کو کہیں، میرے اوپر نقش و نگار بنائے، شاعروں کی غزلیں لکھے، دانشوروں کی حکمت لکھے،  سائنسدانوں کی تھیوریّاں لکھے تاکہ ہم بہن بھائی مل کر اکٹھے رہیں اور ہمارا خاندان کتاب بن جائے۔ لوگ ہمیں عزت دیں ،ہماری صحت اچھی ہو، عمر لمبی ہو ، الماریوں کی زینت بنیں اور لوگ ہمیں گود میں رکھ کر پیار سے اپنی نظروں کی مٹھاس ڈالیں۔  قلم کو کہیں، ربُ العالمین کی باتیں لکھے  تاکہ لوگ خوبصورت غلافوں میں رکھیں،  پاک صاف ہو کر ہاتھ لگائیں، خوشبو لگائیں، چومیں اور بلند جگہ پر رکھیں ۔ بادشاہ سلامت ! میں اپنی پیدائش کا  اصل مقصد بھول گیا تھا۔ خطا کار کی خطا معاف کر دیں۔ اپنا حکم نامہ واپس لے لیں
ایک خیال
چین میں "حان خاندان" کے ایک بادشاہ "ہوتی" کے دور میں ایک سرکاری ملازم سائی لون نے ایک سو پانچ عیسوی میں کاغذ کو بنایا۔ اس میں پرانے کپڑوں اور شہثوث کے ریشے(دھاگے)  استعمال کئے۔اس سے پہلے جانوروں کی ہڈیوں،کچھوے کے خول اور بانس وغیرہ پر لکھا جاتا تھا۔ یہ اشیاء بہت وزنی تھیں ۔ان پر لکھنا اور بعد میں ان کو سنبھالنا بہت مشکل کام  تھا۔ سائ لون کے کاغذ پر لکھائی اور اس کو سنبھالنے کا عمل بہت آسان ہوگیا۔ اس کی ایجاد کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ اس پر لکھا جائے ۔ کاغذ جب اپنے بنیادی مقصد کے علاوہ دوسرے مقاصد کے لئے استعمال ہوا ،تو بدحالی کا شکار ہوگیا اور اُسے جلد احساس ہو گیا کہ جب وہ اپنے بنیادی مقصد کو پورا کر رہا تھا ، تو وہ کتنا خوشحال تھا۔ عزت مقام اور مرتبہ سبھی کچھ حاصل تھا۔
اسی طرح ہر چیز کی پیدائش کا کوئی نہ کوئی مقصد ہوتا ہے۔ جب تک وہ مقصد پورا کرتی رہتی ہے، اس کی قدر اور عزت ہوتی ہے۔ جب وہ  مقصد پورا نہ کرے تو وہ بے کار ہے اور کّچرا ہے۔
 دیکھیں!  گھر میں گھڑی ہوتی ہے۔ اس کا مقصد ہے کہ وقت بتائے، اگر وہ خراب ہو جائے تو ہم اسے اٹھا کر باہر پھینک دیتے ہیں۔ بلب کا مقصد ہے کہ روشنی دے جب وہ فیوز ہو جائے تو ہم اس کو بدل دیتے ہیں۔ فرج کا مقصد ہے کہ وہ  پانی اور اشیا کو ٹھنڈا کرے۔ اگر وہ ٹھنڈک نہ پہنچائے تو ٹھیک کرواتے ہیں ۔اگر ٹھیک ہونے کے قابل نہ ہو تو نیا خرید لاتے ہیں۔اگر ہر چیز  کا مقصد ہے، تو کیا انسان بے مقصد پیدا کیا گیا ہے ؟  " کیا تم نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ ہم نے تمہیں بے مقصد پیدا کیا ہے ؟" ہر آدمی کے اندر کسی نہ کسی کام کرنے کی مہارت "اِن بلٹ" ہوتی ہے. ہر آدمی کی بقا اور فلاح اسی میں ہے کہ اسے ادراک ہو جائے کہ اسں میں کس کام  کی صلاحیت موجود ہے اور  پھر وہ اس کام کو احسن طریقے سے کرے۔  اس طرح نہ صرف وہ مطمئن ہوجاتا ہے بلکہ عزت اور مرتبہ بھی پاتا  ہے۔ امام مالک رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں: "انسان کے دو جنم ہوتے ہیں ،ایک جس دن  وہ پیدا ہوتا ہے اور دوسرا جس دن اس کو اپنی پیدائش کے مقصد کا پتہ چلتا ہے۔"
ریسرچ کے مطابق اٹھانوے فیصد لوگ ،اپنے "ٹیلنٹ" کو فالوو نہیں کرتے بلکہ "ٹرینڈ" کے پیچھے دوڑتے ہیں اور نتیجتاً اپنے کام سے مطمعن نہیں ہوتے اور نہ ہی کوئی قابل ذکر کامیابی حاصل کر پاتے ہیں۔ کامیابی کی ماڈرن تعریف ہے کہ جس پروفیشن میں  آپ ہیں، اس میں کتنے متمعن ہیں۔
 مچھلی تیرنے کے لئے بنی ہے اور پرندہ اڑنے کے لئے۔ اگر پرندہ تیرنے لگے تو کیا تیر مار لے گا، سواے ڈبکیاں لینے کے! ہم بھی لوگوں کی بھیڑ چال میں ٹرینڈ کو دیکھ کر کوئی کام شروع کر دیتے ہیں جس کا شوق اور صلاحیت نہیں ہوتی اور ساری زندگی ڈبکیاں لیتے رہتے ہیں۔غالب کہتا ہے : خوش قسمت ہیں وہ لوگ جن کا شوق اور پیشہ ایک ہوتا ہے" یعنی "پیشن اور پروفیشن" ایک ہوتا ہے۔ کہانی میں کاغذ کو اپنی پیدائش کے مقصد کا علم نہیں ہوتا، اس لیے کجھل خوار ہوتا ہے ۔ مگر خوش قسمتی سے اُسے اپنی پیدائش کے مقصد کا جلد ادراک ہو جاتا ہے ۔ اور بغیر انّا کا مسلہ بنائے زنجیر عدل ہلا دیتا ہے اور اپنی کوتاہی کو مان لیتا ہے۔اور نئے سرے سے اپنے مقصد کے مطابق زندگی شروع کردیتا ہے۔انگلش کی کہاوت ہے:" اٹ از نیور لیٹ ٹو مینڈ۔" ہمیں بھی آج ہی زنجیر عدل کو ہلانا ہو گا تاکہ
 اطمینان قلب اور ترقی کے ثمرات پا سکیں۔

Thursday, 1 August 2019

HARD WORK : A THOUGHT OF THE DAY

HARD WORK : A THOUGHT OF THE DAY
   
DR M. IKRAM KASHMIRI USED TO SAY;

"HARDWORK IS THE KEY WHICH CAN UNLOCK ANY LOCK "

Who is a man?

  کمال انسان وہ ہے جسے دیکھیں تو پہلے آنکھ کو اچھا لگے اور پھر دل کو اچھا لگے ۔