Breaking News

ایک تصویر، ایک کہانی، ایک خیالEpisode-11

ایک تصویر، ایک کہانی، ایک خیالEpisode-11
ایک تصویر



ایک کہانی

سفر کٹنے کا نام نہیں لے رہا تھا۔ گھنا جنگل، جھاڑیوں کا انبار، جنگلی جانوروں کا خوف،اونچے نیچے راستے، گھر بسترِمرگ پر لیٹی ماں لیکن تتلو اِن مشکلات ، رکاوٹوں اور ڈر کے باوجود "نمیر" پھول کی تلاش میں رواں دواں تھا۔
آج صبح سے أسے کوئی انسان نظر نہیں آیا تھا۔  اچانک اس کی نظر ایک آدمی پر پڑی جو درخت کے نیچے آرام کر رہا تھا۔ یہ اس کے پاس رُک گیا اور پوچھا: کہ وہ کدھر جا رہا ہے؟  اس نے بتایا کہ وہ "کوہِ زمرد" پر زمرد لینے جا رہا ہے۔ وہ ان کو مہنگے داموں بیچے گا اور امیر کبیر ہوجائے گا۔ تتلو بولا: عجیب اتفاق ہے ،میں بھی اُس سے ملحقہ پہاڑی "کوہ ایلم" پر پھول لینے جا رہا ہوں۔ دونوں مل گئے تاکہ سفر اچھا کٹ جائے۔ دونوں خوش تھے کہ اُن کو اِس جنگل بیابان میں ساتھی مل گیا ۔ ایک دوسرے کے تعارف کے بعد باتیں کرتے جھاڑیوں کے بیچ میں سے گزرتے، وہ نسبتأ صاف رستہ پر آگئے ۔ کافی دیر چلنے کے بعد ایک بڑے کیکر کے نیچے آرام کی غرض سے بیٹھ گئے اور اپنی اپنی پوٹلی کھول کر کھانے لگے۔ ٹھنڈی ہوا پتوں سے بغلگیر ہو کر سرسراہٹ پیدا کر رہی تھی اور خشک پتوں کو اڑا کر اِدھر اُدھر پھینک رہی تھی، اچانک کچھ پتے مکھو کے ہاتھ میں روٹی کے ٹکڑے پر گرے۔ مکھو نے فوراً اوپر دیکھا اور کہنے لگا: یہ بھی بڑا منہوس درخت ہے، اس کے قریب جاؤ تو کانٹے چبتے  ہیں ،نیچے بیٹھو تو پتے اور پھلیاں پھینکتا ہے،  دور سے دیکھو  تو اداس کر دیتا ہے ۔ تنا اس کا کالا سیاہ ، پتے چھوٹے ،پھول چھوٹے ،چھاوں ورلی ورلی، کوئی کل سیدھی نہیں!  میرا بس چلے تو سارے کیکر اُکھاڑ پھینکوں۔
تتلو اس کی بات سنتا رہا  اور ساتھ ساتھ ایک نظر اوپر کیکر پر بھی دوڑا لیتا جب مکھو بدگوئی کر کے چپ ہوا تو وہ بولا : دیکھو!  اس کی پیلے رنگ کی پھلیاں کتنی خوبصورت ہیں اور بھوک لگے تو انہیں چوس لو، کچی پھلیوں کا اچار ڈال لو، تنا دیکھو کتنا بڑا اور مضبوط ہے جبکہ پتے اور پھول چھوٹے اور نازک ۔ یہ جلال اور جمال کا شاہکار ہے۔ پانی نہ بھی ملے تو گزارا کر لیتا ہے، یہ درختوں کا اونٹ ہے ۔ اس کے پتے، پھلیاں، چھال ستر مختلف بیماریوں کے علاج میں استعمال ہوتی ہیں ۔ سبز ٹہنیوں سے مسواک کر لو، خشک کو ایندھن کے طور پر جلا لو ،اس کی لکڑی کو چاہے تو فرنیچر میں استعمال کرلو یا چھتیر، بالے بنا لو ۔ مکھو اس کی باتوں سے ذرا بھی متاثر نہ ہوا اور یہ کہہ کر اٹھ گیا کہ ابھی سفر لمبا ہے رات تک ہمیں کسی محفوظ مقام تک پہنچنا ہے۔
کچھ دور گئے تو پانی کا ایک چھپڑ نظر آیا۔ دونوں اس کے کنارے پہنچے ،جانوروں کے قدموں کے نشان اوران کے فضلے  بتا رہے تھے  یہ ان کے لیے شفاف پانی کی جھیل ہے ۔ مکھو جھٹ سے بولا: رُک کیوں گئے ہو؟  اس بدبودار چھپڑ کے پاس؟ اِس کی بھڑاس سے دم گھٹ رہا ہے۔ تتلو بولا: ہے تو پانی ہی۔ بس ذرا رک گیا ہے۔ چل پڑے تو یہی جھیل ہے ۔ غور سے دیکھو کتنے جانور اس سے پیاس بجھاتے ہیں۔ اس میں نہاتے ہیں ،مینڈک ،مچھلیوں، کچھوؤں کا گھر ہے۔ بیچ میں دیکھو! وہ کنول کا پھول کیسے مسکرا رہا ہے ۔ مکھو کو اس بات اچھی نہ لگی  اور وہ آگے کی طرف چل دیا ۔ تتلو نے پھول کی طرف دیکھا اور مسکرایا ۔ پھول اور بھی کِھل گیا  اور اپنی خوشبو کا تحفہ ہوا کے ہاتھ بھیجا جو اس کی ناک سے گزر کر اس کی روح میں سرایت کر گیا، اس کا اندر مہکنے لگا۔ پھر وہ بھی اپنے ساتھی کے ساتھ چل پڑا۔          شام ہو چکی تھی سورج ڈھلنے والا تھا۔ ایک چرواہا اپنی بھینسوں کو ہانک کر گھر واپس لے جا رہا تھا ۔ مکھو انہیں دیکھتے ہی بولا: یہ بھینس بھی عجیب جانور ہے؟ کوئی سر پیر نہیں ، گوشت کا بےربط پہاڑ ، دور سے دیکھو تو یہ نہیں پتہ چلتا کہ بھینس آرہی ہے یا جا رہی ہے؟  اوپر سے کالا رنگ، بڑے نتھنے، بھدی صورت اور سست اتنی کہ کچھوا پھرتیلا لگتا ہے۔ 
اوپر سے گوبر کے ڈھیر لگاتی ہے۔ وہ ایک سانس میں بولتا جا رہا تھا۔ تتلو اس کو دیکھ رہا تھا اور اپنی باری کا انتظار کر رہا  تھا۔ وہ بولا کیچر کو اپنے جسم  پر کریم کی طرح لگاتی ہے، بد صورتی کا مقابلہ ہو تو کبھی کسی کو  جیتنے نہ دے۔ جو نہی مکھو نے اپنی ہجو کرنا بند کی تو تتلو نے اپنی مدح سرائی  نکال کر سامنے رکھ دی۔  یہ جانور نہیں، پورا شاپنگ مال ہے ۔  دل کرے تو تھنوں کو ٹٹولو  تو دودھ کے سفید شفاف چشمے ابلنے لگیں۔  اس سے چائے بناؤ ، کافی بناو ، دہی بناو۔ چاہے تو  مکھن نکالو، دل کرے تو برفی گلاب، جامن بنا لو ۔  چاہو تو کسٹرڈ یا کھیر پکا لو۔  چار تھنوں سے نکلے دودھ سے چار سو چیزیں بنا سکتے ہو ۔  دوسرا۔ یہ گوبر کے ڈھیر نہیں؟ دیہاتیوں کا ایندھن ہے ۔ اسے خشک کرو ،پاتھیاں بناؤ اور آگ جلاو۔ توانائی کا مسئلہ تو اس کے فضلے نے ہی حل کر دیا ہے۔
ذبح کر کے گوشت استعمال کرو ،کڑھائی گوشت پکاو، کباب بناؤ اور سینکڑوں قسم کے لذیذ کھانے بناؤ ۔اس کی کھال کا چمڑا اور پھر سینکڑوں اشیاء بناو۔  میں نے کہا تھا کہ یہ قدرت کا شاپنگ مال ہے۔
مکھو نے منہ چڑھایا۔ اس کے چہرے کے تاثرات بتا رہے تھے کہ وہ اِس تعریف سے متفق نہیں ہے۔ رات ڈھل چکی تھی ،دونوں ایک کھولی میں ٹھہر گئے۔ اگلے دن دونوں اپنے پہاڑی سفر پر روانہ ہوگئے۔ رستہ میں گفتگو کا سلسلہ جاری رہا۔ تتلو نے  کوہ ایلم کے دامن سے نمیر پھول  توڑے اور پوٹلی میں سنبھال لئے۔ ساتھ والی پہاڑی  کوہ زمرد تھی۔ جہاں مکھو نے زمرد نکالے اور ایک تھیلے میں ڈال لئے۔ دونوں بے انتہا خوش تھے تتلو نے خیالوں میں پھولوں سے دوائی بناکر ماں کو دی اور وہ صحت مند ہوگی اور گھر میں چلنا پھرنا شروع کر دیا۔ مکھو اس سے بھی زیادہ خوش تھا اور زمرد کاٹ کر چھوٹے چھوٹے نگینے بنا کر، مہنگے داموں بیچ کر امیر ہو چکا تھا۔ دنیا کی ہر آسائش اُس کو حاصل ہوگئی تھی۔ اس کی ٹھاٹھ باٹھ پر زمانہ رشک کر رہا تھا ۔ دونوں خوابوں کی دنیا سے نکلے تو جلد گھر پہنچنے کی سوجھی اور  واپسی کا سفر شروع کر دیا۔ پہاڑی راستہ ختم ہوگیا اور جنگل شروع ہوگیا ۔اپنی منزل کو قریب دیکھ کر مکھو کی مستی میں اضافہ ہوتا جا رہا تھا۔ ایک جگہ پر آرام کرنے کے لئے  ایک بیری کے درخت کے نیچے بیٹھے تو مکھو کو  شہد کی مکھیوں کا ایک چھتہ نظر آیا ۔اس نے شوخی میں ایک پتھر اٹھا کر اوپر پھینکا، جو سیدھا چھتے کو لگا۔ مکھیوں میں ہلچل مچ گئی۔ اُس نے فاتحانہ قہقہہ لگایا اور اگلے ہی لمحے مکھیوں نے اُس پر حملہ کر دیا۔ چند مکھیوں نے کاٹ لیا ۔مکھو نے دوڑنے میں عافیت جانی اور تیز بھاگنا شروع کر دیا مگر مکھیوں کا غول اس کے تعاقب میں تھا ۔اچانک اُسے نیچے وہی چھپڑ نظر آیا ،اُس نے ٹیلے سے چھلانگ لگا دی۔ تھوڑی دیر کے بعد سر پانی سے نکال کر سانس لیتا، مکھیاں حملہ کر دیتی، وہ پھر چُبکی لگادیتا۔ یہ آنکھ مچولی کافی دیر چلتی رہی مکھو زندگی بچانے کے لئے جدوجہد کر رہا تھا جبکہ مکھیاں انتقام کی آگ بجھا رہی تھی۔ مکھو کا جذبہ زیادہ طاقتور تھا ،مکھیوں نے ہار مان لی اور چلی گئیں۔ وہ چھپڑ سے باہر نکل آیا۔ اِس کشمکش میں اُس کا زمرد کا تھیلا چھپڑ میں گر گیا ۔ جب باہر نکلا تو اُس کے گھٹنے پر گہرا زخم تھا اور خون بہہ رہا تھا ۔اس کی حالت غیر تھی۔ تتلو بھی اُسے ڈھونڈتا ڈھونڈتا آن پہنچا۔ مکھو سے ایک قدم چلنا بھی مشکل ہو گیا تھا۔ تتلو فوراً ایک سمت میں گیا جہاں اُسے آتے وقت بھینسیں مِلی تھیں۔ گوالوں سے دودھ لایا اور مکھو کو دیا جسے وہ ایک سانس میں پی گیا اور کچھ سُرت آگئی۔ تتلو نے رِستے زخم کو دیکھا تو کیکر کی خشک ٹہنیاں جلا کر اُن کی راکھ لگائ اور کپڑا باندھ دیا اور مکھو کو سہارا دے کر چلنے لگا ۔ کچھ دیر بعد مکھو کی حالت بہتر ہوگی اور وہ بغیر سہارے کے لنگڑا کر چلنے لگا اور شہد کی مکھیوں کو برا بھلا کہنا شروع کر دیا ۔ وہ بولا : ان کا چھتہ بے ربط, پھلوں پھولوں کی مٹھاس کی "چور" مکھیاں اور انسانوں کو ڈنگ مار کے موت کہ منہ میں لیجانے والی ظالم مکھیاں۔  میرا بس چلے  تو سارے چھتوں  کو بمع مکھیوں کے آگ لگا دوں اور ان کے فتنے سے دنیا کو آزاد کر دوں۔ تتلو بولا :اگر تنظیم دیکھنی ہو تو شہد کی مکھیوں کا چھتہ دیکھو! کس طرح کام کو بانٹ کر  ملکہ مکھی، مزدور مکھیوں اور محافظ مکھیوں سے کام لیتی ہے۔  چھتہ، پوری کالونی کی طرح ہوتا ہے جس میں سب کے علیحدہ علیحدہ کواٹرز اور کام ہوتے ہی ۔ رہی بات ڈنگ کی، اگر شہد کی مکھی میں ڈنگ نہ ہوتا تو جنگلی جانور اور کیڑے مکوڑے اسے کھا لیتے ۔ اسطرع ہم شہد جیسی شیریں، طاقت سے بھرپور اور شفاء سے مالا مال، قدرت کہ اس انمول تحفہ سے محروم رہتے ۔ باتیں کرتے کرتے وہ اپنے اپنے گھروں کو پہنچ گئے ۔ تتلو نے نمیر پھول سے دوائی بنائی اور اس کی ماں چند ہی دنوں میں صحت یاب ہوگئی اور گھر میں خوشیاں لوٹ آئیں۔ مکھو کی دولت پر تو شہد کی مکھیاں پہلے ہی ڈاکہ ڈال چکیں تھیں۔وہ ناکام و نامراد، لنگڑاتا اور نڈھال گھر پہنچا ۔اس کی بیوی حالت دیکھ کر پریشان ہو گئی، اس کو چارپائی پر لٹایا اور کیکر کی لکڑی جلا کر، اُس پر دودھ گرم کیا اور اُس میں شہد ملا کر مکھو کو دیا۔ شہد جب اس کی رگوں میں پہنچا تو اس نے  کچھ آرام محسوس کیا اور اٹھ کر بیٹھ گیا اور شہد کی مکھیوں کو کوسنے لگا۔
ایک خیال
کہانی کا کردار مکھو، مکھی کی طرح تمام خوبصورتیوں کو چھوڑ  کر بدصورتی کو تلاش کر لیتا ہے جبکہ تتلو، تتلی کی طرح تمام بدصورتیوں کو چھوڑ کر خوبصورتی تلاش کر لیتا ہے۔  زندگی میں دو طرح کی سوچ کے لوگ ہوتے ہیں۔ کچھ مکھی کی طرح سارے صاف بدن کو چھوڑ کر پھوڑے پر بیٹھ جاتے ہیں۔ بدبو سونگھتے ہیں اور پیپ پیتے ہیں۔ وہ برائی پر فوکس کرتے ہیں، اسے ڈسکس کرتے ہیں اور اسے اچھالتے ہیں۔ وہ ہمیشہ غمزدہ اور ناکام رہتے ہیں  جبکہ کچھ تتلی کی طرح گندے چھپڑ میں سے کنول کے پھول کو ڈھونڈ لیتے ہیں اور اس کی خوشبو ،ملائمت اور مٹھاس سے محظوظ ہوتے ہیں۔ ایسے لوگ خوبی پر فوکس کرتے ہیں اور ہمیشہ خوش رہتے ہیں اور کامیاب ہوتے ہیں۔

مکھی اپروچ والے شخص ادھر ادھر بھنبھناتے پھرتے ہیں ۔ ان سے کیسے نپٹیں ؟میری بپتا  سن لیں۔اپ یقیناَ ان کے شر سے بچ جاہیں گے۔  ایک دن میں کالج سے گھر واپس آ رہا تھا، راستے میں میرے ایک رشتہ دار مل گئے۔ انہوں نے بڑے غور سے میرے چہرے کو دیکھا ،پھر میرے کوٹ کو دیکھا، پھر انکی نظر میری قمیض پر پڑی جہاں "پکرک ایسڈ" کا پیلا نشان تھا جو کہیں پریکٹیکل کے دوران لگ گیا۔ اس کو دیکھتے ہی وہ اچھل پڑے اور بولے  بڑی داغدار قمیض پہن رکھی ہے ؟ ان کا فقرہ میرے دماغ میں چپک گیا اور میں کئی گھنٹے کڑہتا سڑتا رہا ۔ پھر وہ  رشتہ دار ملک سے باہر چلے گئے۔ کئی سالوں کے بعد واپس لوٹے اور میرے گھر ملنے آئے۔ میں نے گیٹ کھولا ،وہ میرے چہرے کو دیکھنے لگے اور دیکھتے ہی گئے اور بولے: تمہارے منہ پر پھنسیاں نکلی ہوئی ہیں اور چیچک کی طرح داغ ہیں۔ میں پھر ڈپریس ہوگیا اور پورا دن میرے دماغ میں ان کی بات گردش کرتی رہی۔ کئی دفعہ شیشہ دیکھا ۔ بیگم نے استفسار کیا: بار بار آئینہ دیکھ رہے ہیں ؟ میں نے بتایا کہ رشتہ دار نے "یہ" کہا ہے ۔ اس نے چہرہ غور سے دیکھا اور بولی: ناک پر ایک پمپل کا نشان ہے اور وہ بھی غور سے دیکھو تو نظر آتا ہے اور گال پر ایک تل ہے۔ باقی چہرہ تو صاف ہے ۔ مجھے کچھ حوصلہ ہوا اور دماغ میں کُٹ کُٹ بند ہوئی اور سوچنے لگا کہ یہ رشتہ دار جب بھی ملتے ہیں کوئی نہ کوئی بات کر دیتے ہیں اور میں پریشان ہو جاتا ہوں ۔ دماغ میں ان کی ملاقاتوں کو ریورس کرکے دیکھا اور اس نتیجے پر پہنچا کہ موصوف مکھی کی طرح ہمیشہ گندگی کی تلاش میں رہتے ہیں۔ جونہی یہ خیال آیا ،میں اپنی پریشانی بھول گیا اور ان پر ترس کھانے لگا کہ ان کو سارا دن کتنے لوگ ملتے ہوں گے؟ کتنے داغ ،  پھنسیاں اور طرح طرح کی غلیظ چیزیں دیکھتے ہونگے۔ ان کی زندگی میں خوبصورتی کا وجود ہے ہی نہیں۔ کچھ سالوں کے بعد وہ پھر میرے گھر آئے۔ میں کمرہ میں زمین پر میٹرس بچھا کر لیٹا ہوا تھا۔ گھٹنے میں کچھ مسئلہ تھا ۔ میں ان سے ملنے کے لیے قدرے مشکل سے اٹھا۔ موصوف کو آج تلاش کے بغیر ہی موقع مل گیا اور بولے: "توں تے گٹے، گوڈوں توں رہ گیا ہیں۔" میں مسکرایا اور ان کو سلام کیا، اس دفعہ مجھے ان کے جملے سے ذرا بھر پریشانی نہ ہوئی اور نہ ہی میں کسی احساس کمتری میں مبتلا ہوا کیونکہ مجھے ان کی "مکھی اپروچ" کا پتہ چل چکا تھا ۔ اس لیے آپ کی زندگی میں کئی لوگ آئیں گے جو آپ کی ذات پر تنقید کے تیر چلا ئیں گے ۔آپ نے سوچنا ہے کہ مکھی اپروچ۔۔۔گندگی کا متلاشی۔۔۔ بیچارہ۔۔۔ اور پھر جیسے جسم پر بیٹھی مکھی کو اڑاتے ہیں اسی طرح ان کی تنقید کو مکھی اپروچ کے خیال سے اُڑاتے رہیں اور خود تتلی بن کر اُڑتے رہیں اور زندگی کے رنگ برنگے پھول دیکھیں، ملائمت کے مزے لیں اور میٹھے رس پیئیں۔۔۔

4 comments:

  1. اس کہانی کی بنت کاری اور بہاؤ بہتر ہے بیان امیجز کو حرکت دے رہا ہے۔

    ReplyDelete
    Replies
    1. thanks a lot, dear Asif...many issues are still to be solved....students complain about length,,,,you said length does not matter,,,,whereas in I am only focused on efficiency of its motivational and ethical aspect. very few tells,,,whether story is bringing change in his or her life

      Delete
  2. Comprehensive, especially theme has so many lessons, ideal length

    ReplyDelete

  3. Psoriasis Treatment Cream Safe, effective, affordable. Quick relief from clinical symptoms and early onset of remission. Prolonged period of remission.

    Psoriasis is a common skin condition that speeds up the life cycle of skin cells. It causes cells to build up rapidly on the surface of the skin. The extra skin cells form scales and red patches that are itchy and sometimes painful.

    ReplyDelete

Thanks for your comments.