ایک تصویر،ایک کہانی،ایک خیال Episode 10
ایک تصویر،ایک کہانی،ایک خیال
Episode 10
ایک تصویر
ایک کہانی
یہ کیوبا کی کہانی ہے ۔ بالکل آپ صحیح سمجھے ، وہی ملک جہاں فیڈل کاسترو نے آدھی صدی حکومت کی ۔ کیوبا کریبین سمندر میں امریکہ کی بغل میں تین ہزار جزیروں پر مشتمل ایک سینگ نما ملک ہے ۔جس کی آبادی تقریبا ایک کروڑ ، رقبہ تقریباً ایک لاکھ مربع کلومیٹر ہے۔ آپ حیران ہونگے کہ اِس ملک کی سات ایسی خوبیاں ہیں جو دنیا کے دوسرے دو سو ممالک میں نہیں
پہلا۔ کیوبا کے سگار دنیا بھر میں مشہور ہیں۔ اِن کی کوالٹی بہت اعلی اور قیمت بہت ہی زیادہ ہے۔ اِن کے معیار اور ڈیمانڈ کا اندازہ آپ اِس بات سے لگا سکتے ہیں کہ امریکی صدر کینیڈی نے کیوبا پر معاشی پابندیاں لگانے سے چند گھنٹے پہلے دو ہزار سگار خرید کر رکھ لئے۔ دو ہزار چھ میں کیوبا نے ایک" بہیکی "سگار نکالا جس کے ایک کَش کی قیمت ستاسٹھ ہزار روپے بنتی ہے۔
دوسرا ۔ کیوبا دنیا کا واحد ملک ہے، جس میں ڈاکٹروں کا تناسب آبادی کے لحاظ سے سب سے زیادہ ہے۔ جہاں ایک سو پچتر آدمیوں کے لئے ایک ڈاکٹر ہے جبکہ پاکستان میں چھ ہزار تین سو پچیس آدمیوں کے لئے ایک ڈاکٹر کی سہولت موجود ہے.
تیسرا
دنیا کے دو سو ملکوں میں سے صرف دو ملکوں میں کوکاکولا نہیں بکتی؛ایک کیوبا اور دوسرا شمالی کوریا.
چوتھا۔ دنیا میں سب سے زیادہ تعلیم کی شرح کیوبا کی ہے. یونیسکو کے مطابق کیوبا میں شرحِ تعلیم ننانوے اعشاریہ آٹھ فیصد ہے جو آمریکہ سے زیادہ ہے۔ پاکستان میں تعلیم کی شرح اٹھاون فی صد ہے.
پانچواں۔ بدنامِ زمانہ جیل گوانتاناما کیوبا کے ایک جزیرے پر ہے جسے امریکہ نے لیز پر لے رکھا ہے اور چار ہزار ڈالر ماہانہ کرایا دیتا ہے ۔
چھٹا۔ کیوبا میں دنیا کا سب سے چھوٹا پرندہ ہمنگ برڈ(دو انچ) ، دنیا کا سب سے چھوٹا مینڈک(آدھا انچ) "مانٹی ابیریا ایلیوتھ "، دنیا کی سب سے قدیم مچھلی "منجاری" پائی جاتی ہے جو مچھلی اور میملز کا آمیزہ ہے۔، اِسی طرح تقریبا تین ہزار پودوں کی اقسام ہیں جو کسی اور جگہ نہیں۔
ساتواں۔ فیڈل کاسترو کا شمار دنیا کے تیسرے سب سے زیادہ حکمرانی کرنے والے اشخاص میں ہوتا ہے۔ پہلے نمبر پر ملکہ الزبتھ دوئم اور دوسرے نمبر پر تھائی لینڈ کا بادشاہ "بھُومی بول عدلیادیج"ہے
۔کیوبا کی کہانی
صدیوں پہلے کی بات ہے کہ کیوبا میں ایک قبیلہ یوربا رہتا تھا ۔ اس وقت ابتالا بادشاہ کی حکومت تھی۔ ابتالا بوڑھا ہو رہا تھا اور اپنے جانشین کی تلاش میں تھا ۔ اپنے بچوں میں اس کی نظر سب سے چھوٹے بیٹے آرولا پر تھی۔ وہ سلطنت کے کاموں میں دلچسپی بھی لیتا تھا۔ ابتالا چاہتا تھا کہ آرولا کو اپنا نائب مقرر کردے مگر پھر یہ سوچتا تھا کہ آرولا ابھی کم عمر ہے ۔ یہ ذمہ داری اُٹھا سکے گا یا نہیں؟ ایک دن ابتالا نے سوچا کہ آرولا کی عقلمندی کا امتحان لیا جائے ۔ چنانچہ اُس نے آرولا کو حکم دیا کہ میرے لیے لذیذ ترین کھانا تیار کرو ۔ ارولا حکم سن کر فوراً بازار گیا ۔ وہاں بہت سی اچھی اچھی اور مزےدار چیزیں بِک رہی تھیں۔ تمام چیزوں کو دیکھنے اور سوچنے کے بعد آرولا گوشت کی دکان پر گیا اور گائے کی زبان خریدی ۔ گھر آ کر اُسے انواع و اقسام کے مسالے لگا کر پکایا۔ جب زبان پک کر تیار ہوگئی تو ابتالا کے سامنے پیش کی۔ ابتالا نے اُسے مزے لے لے کر کھایا ۔اُس کا ذائقہ لاجواب تھا۔ جب کھا چکا تو اس نے آرولا سے کہا :"بازار میں گوشت اور دوسری بہت ساری کھانے کی چیزیں تھیں۔ مگر تم نے زبان ہی کیوں پسند کی؟" آرولا بولا: "زبان بڑی اہم چیز ہے. اِس سے آپ اچھی اچھی باتیں کرتے ہیں، لوگوں کو اچھی اچھی باتیں سکھاتے ہیں، اُن کے اچھے اچھے کاموں کی تعریف کرتے ہیں، اچھے اچھے راگ الاپتے ہیں،اچھی اچھی خبریں سناتے ہیں، وغیرہ وغیرہ" ۔ابتالا اُس کی بات سن کر بہت خوش ہوا اور دل ہی دل میں کہنے لگا کہ آرولا تو بڑا عقلمند ہے اور اپنے انتخاب پر مسرور ہوا۔ مگر آرولا کو اتنی بھاری ذمہ داری سونپنے کے لئے آبھی اور امتحان لینا چاہتا تھا۔
دوسرے دن اُس نے آ رولا سے کہا:" آ ج میرے لئے سب سے بدمزہ کھانا تیار کرو۔' آرولا بازار گیا۔ ساری چیزیں دیکھنے کے بعد گوشت کی دوکان پر پہنچا، گائے کی زبان خریدی اور جان بوجھ کر بھونڈے طریقے سے پکایا اور ابتالا کے سامنے رکھ دیا ۔ ابتالا نے کھانا شروع کیا اور ایک لقمے کے بعد ہی ہاتھ کھینچ لیا اور منہ بنا کر بیٹھ گیا اور بولا: "ہے تو زبان ہی جو تم نے کل پکائی تھی مگر بہت ہی بد ذائقہ۔ کل تم نے زبان پکائ جس کی لذت کا جواب نہ تھا اور آج تم نے پھر زبان پکائ جس کا ایک لقمہ لینا بھی دشوار ہوگیا ۔ آخر کیوں؟" آرولا ادب سے بولا ؛" یہ زباں ہی ہے جس سے لوگوں کی دل آزاری کرتے ہیں، اُن کی برائی کرتے ہیں، اِس سے لوگوں کو دھوکہ دیتے ہیں، اِس سے گالی گلوچ کرتے ہیں، اِس سے طنز کے تیر چلاتے ہیں، وغیرہ وغیرہ"۔ اُس کا جواب سن کر ابتالا بہت خوش
ہوگیا اور اُسے اپنا جانشین مقرر کردیا
ایک خیال
کیوبا کی اس کہانی کا تھیم ہے:" چیزیں اچھی یا بُری نہیں ہوتیں مگر اُن کا استعمال اُن کو اچھا یا بُرا بنا دیتا ہے"۔ مثلآ چاقو اچھا ہے یا برا؟ اگر چاقو ماں کہ ہاتھ میں ہے تو اُس سے گو شت،سبزیاں اور پھل کاٹتی ہے اور آپ انکو مزے لے لے کر کھاتے ہیں۔ یہ چاقو کسی سرجن کے ہاتھ میں ہو اور کسی کے گردے میں پتھری ہو اور وہ درد سے کراہ رہا ہو تو سرجن چاقو سے گردے کی پتھری نکال دیتا ہے۔ اُس آدمی کو سکون مل جاتا ہے۔ اِس کے برعکس اگر یہی چاقو کسی ڈاکو کے ہاتھ میں ہے تو لوٹ مار کے لیے کسی کا پیٹ تک چیر ڈالتا ہے اور انتڑیوں کو ایسے باہر نکالنا ہے جیسے کانٹے سے سویاں پلیٹ سے نکالتے ہیں۔ تو یہ چاقو بُرا ہے۔گویا ماں یا سرجن کے ہاتھ میں ہے تو نعمت ہے اور زندگی ہے ۔ ڈاکو لٹیرے کے ہاتھ میں ہے تو زحمت ہے اور موت بن جاتا ہے۔
منہ کے لعاب ( سلائیوا) کے بغیر آپ کھانا نہیں نگل سکتے، اِس میں موجود انزائم (اے مائی لیز) نشاستہ کو ہضم کرتا ہے اور یہ لعاب منہ کو خشک ہونے سے بچاتا ہے؛ کتنی فائدہ کی چیز ہے! مگر یہی لعاب جب کسی پر پھینکتے ہیں تو "تھوک" کہلاتا ہے۔ کسی کی ذلت کا باعث بنتا ہے اور بات لڑائی پر ختم ہوتی ہے۔ کتنی بری چیز ہے۔ حالانکہ اصل میں دونوں چیزیں ایک ہی ہیں مگر استعمال بدلنے کے ساتھ وہ کبھی اچھی اور کبھی بُری بن جاتی ہیں۔
تیسری اور آخری مثال موبائل فون کی ہے۔ یہ اچھا ہے یا برا؟ اس کا فیصلہ اِس کا استعمال کرے گا۔ اگر موبائل سے اللہ کا پاک کلام سنیں، اُس کے پیاروں کے ارشادات سنیں، عالم دین کے بیان سنیں ،علم حاصل کریں، ٹائم دیکھیں، الارم لگائیں، ٹارچ کا کام لیں، عزیز و اقارب اور دوستوں کا حال احوال پوچھیں، کیلکولیٹر کے لئے استعمال کریں ، ڈکشنری دیکھیں، کتابیں پڑھیں؛ تو بڑی اچھی چیز ہے۔
اور اگر اس پر "پب جی" کھیلیں، ٹک ٹاک کو ٹکڑ ٹکڑ دیکھیں ، بیوٹی فلٹر لگا کر جعلی خوبصورت بن جاہیں اور جب کوئ حقیقی زندگی میں دیکھ لے تو غش کھا کر گر جائے یا انسان ہوتے ہوئے جانور بن جاہیں، سنیپ چیٹ پر اپنا روپ دکھائیں اور پھر غائب ہو جاہیں، مخالف جنس سے گھنٹوں باتیں کریں، عمران ہاشمی پر فلمائے ہوئے گانے دیکھیں، ٹی سیریز کے لٓچر گانے سنیں، نیٹ فلِکس پر فلمیں دیکھیں، فضول چیٹنگ کریں، غیر اخلاقی مواد تک اِدھر اُدھر سے گھوم کر رسائی حاصل کریں،کانوں میں ٹوٹیاں لگا کر ڈورے ہوجائیں، موبائل پر ایسے نظر جما کر بیٹھیں کہ پاس بیٹھی ماں کو نظرانداز کردیں۔ تو موبائل بری چیز ہے ۔
موجودہ دور میں موبائل فون ایک ضرورت بن گیا ہے۔ نہ صرف اس کی تعداد میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے بلکہ اس کا استعمال بھی دن بدن بڑھ رہا ہے۔ پی ٹی اے کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں چودہ کروڑ موبائل فون ہیں اور گیلپ کے سروے کے مطابق پاکستانی روزانہ اوسطاً دو گھنٹے اِسے استعمال کرتے ہیں ۔ اگر دنیا پر نظر ڈالیں تو "جی ایس ایم اے" کے مطابق دنیا میں اِس وقت نو ارب موبائل فون ہیں جو موجودہ آبادی (ساڑھے سات ارب) سے زیادہ ہیں۔ دنیا میں اِس کا اوسط استعمال چار گھنٹے روزانہ ہے۔اور طالب علم روزانہ نو گھنٹے اِس کے ساتھ چمٹے رہتے ہیں۔
اس کے بےجا اور بے ہنگم استعمال سے طرح طرح کی جسمانی، دماغی، معاشرتی بیماریاں جنم لیتی ہیں ۔ مثلا
دماغ کا کینسر: موبائل ریڈیو فریکوئنسی نکالتا ہے جو دماغ کے خلیوں پر اثر انداز ہوکر کر اُن میں میوٹیشن (تبدیلی) پیدا کر کے کینسر کا باعث بنتی ہے. ڈپریشن: ریسرچ کے مطابق موبائل فون کے استعمال سے ڈپریشن اڑتیس فیصد بڑھ جاتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ نوجوان اکثر چڑ چڑے، ضدی اور تنہائی پسند ہوتے جا رہے ہیں ۔ہمیں ہر وقت تفتیش رہتی ہےکہ میری پوسٹ پر کتنے لائک ملے، میری تصویر پر کیا کمنٹ اے ، اس نے میرا میسج پڑھا کہ نہیں؟ جواب کیوں نہیں دیا؟ یا پھر ہروقت نوٹیفیکیشن کو چیک کرنا۔ان سب سے اڈرینل گلینڈ ایکٹیو ہو کر ایک کیمیکل کارٹیسول نکالتا ہے۔ جس کو عرفِ عام میں "سٹریس ہارمون" کہتے ہیں ۔ یہ ڈپریشن کے ساتھ ساتھ بلڈ پریشر کو بڑھاتا ہے اور دل کی دھڑکن کو تیز کرتا ہے۔
جراثیم کا حملہ: موبائل فون کی سکرین چکنی ہوتی ہے ۔ اِس چکنائی میں ریسرچرز کے مطابق ٹائلٹ سیٹ سے زیادہ جراثیم ہوتے ہیں۔ دراصل چکنائی جراثیم کو ایسے کھینچتی ہے جیسے مقناطیس لوہے کو۔ جراثیم ہمارے اندر بیماریاں پیدا کرتے ہیں اور دفاعی نظام کو کمزور بنا دیتے ہیں۔
کمر کا درد: جب زیادہ وقت کے لئے موبائل استعمال کیا جائے یے تو گردن کو موڑنا پڑتا ہے اور کمر کو بینڈ کرنا پڑتا ہے جس سے پہلے تو کمر کا درد شروع ہوتا ہے اور رفتہ رفتہ گردن کا درد بھی شروع ہو جاتا ہے ۔ کیونکہ ریڑھ کی ہڈی کے مُہرے کے درمیان ایک فومی پیڈ ہوتا ہے۔ ٹیڑھے ہو کر بیٹھنے سے وہ پیڈ ایک طرف سے بڑھ جاتا ہے اور پھر قریب سے گزرتی ہوئی نروز کو دبانے لگتا ہے جس سے درد شروع ہو جاتا ہے ۔
نظر کی کمزوری: نئی ریسرچ کے مطابق پانچ منٹ چلنے کے بعد نوے فیصد لوگ موبائل چیک کرتے ہیں۔ گویا پانچ منٹ کی جدائی بھی برداشت نہیں؟ موبائل ایچ ای وی( ہائی انرجی وائبریشن) نکالتا ہے۔ یہ نیلے رنگ کی روشنی ہے۔ جس کی فریکوئنسی چھ سو ستر ٹیرا ہرٹ ہے، یعنی اسکی انرجی بہت زیادہ ہے۔ یہ نیلے رنگ کی روشنی ریٹینا( آنکھ کا پردہ) کے کے روشنی سے حساس سیل(راڈ) کو تباہ کر دیتی ہے۔ ریسرچ کہتی ہے کہ آئیندہ سالوں میں نظر کی عینکوں کا استعمال زیادہ ہو جائے گا ۔ جس حساب سے ہم موبائل فون استعمال کر رہے ہیں تو ہر گلی میں ایک عینکوں کی دکان بھی ہوسکتی ہے۔
نیند کی خرابی: موبائل فون کا استعمال ،خاص طور پر سونے سے پہلے، نیند کے پیٹرن کو خراب کر دیتا ہے۔ اور کچھ لوگ تو بے خوابی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ تاریکی میں جسم میں ایک ہارمون میلاٹونن بنتا ہے جو نیند لاتا ہے اور جب ہم موبائل استعمال کرتے کرتے لیٹتے ہیں تو میلاٹونن نہیں بنتا ۔جس سے نیند کی کمی کا شکار ہو جاتے ہیں
نومو فوبیا: "موبائل فون کے فراق کے غم" کو نوموفوبیا کہتے ہیں۔ یہ "نو موبائل فون فوبیا" کا مخفف ہے۔ اِس اصطلاح کو دو ہزار آٹھ میں پہلی دفعہ برطانیہ میں استعمال کیا گیا جب پوسٹ آفس نے ایک سٹڈی میں بتایا کہ برطانیہ کے ترپن فیصد موبائل فون استعمال کرنے والے اِس بیماری میں مبتلا ہیں اور اُن کو ہر وقت کھٹکا لگا رہتا ہے کہ انکا موبائل فون گم نہ ہو جائے، خراب نہ ہو جائے، بیٹری یا بیلنس ختم نہ ہو جائے ، نیٹ ورک کوریج نہ رُک جائے،وغیرہ وغیرہ۔
Episode 10
ایک تصویر
ایک کہانی
یہ کیوبا کی کہانی ہے ۔ بالکل آپ صحیح سمجھے ، وہی ملک جہاں فیڈل کاسترو نے آدھی صدی حکومت کی ۔ کیوبا کریبین سمندر میں امریکہ کی بغل میں تین ہزار جزیروں پر مشتمل ایک سینگ نما ملک ہے ۔جس کی آبادی تقریبا ایک کروڑ ، رقبہ تقریباً ایک لاکھ مربع کلومیٹر ہے۔ آپ حیران ہونگے کہ اِس ملک کی سات ایسی خوبیاں ہیں جو دنیا کے دوسرے دو سو ممالک میں نہیں
پہلا۔ کیوبا کے سگار دنیا بھر میں مشہور ہیں۔ اِن کی کوالٹی بہت اعلی اور قیمت بہت ہی زیادہ ہے۔ اِن کے معیار اور ڈیمانڈ کا اندازہ آپ اِس بات سے لگا سکتے ہیں کہ امریکی صدر کینیڈی نے کیوبا پر معاشی پابندیاں لگانے سے چند گھنٹے پہلے دو ہزار سگار خرید کر رکھ لئے۔ دو ہزار چھ میں کیوبا نے ایک" بہیکی "سگار نکالا جس کے ایک کَش کی قیمت ستاسٹھ ہزار روپے بنتی ہے۔
دوسرا ۔ کیوبا دنیا کا واحد ملک ہے، جس میں ڈاکٹروں کا تناسب آبادی کے لحاظ سے سب سے زیادہ ہے۔ جہاں ایک سو پچتر آدمیوں کے لئے ایک ڈاکٹر ہے جبکہ پاکستان میں چھ ہزار تین سو پچیس آدمیوں کے لئے ایک ڈاکٹر کی سہولت موجود ہے.
تیسرا
دنیا کے دو سو ملکوں میں سے صرف دو ملکوں میں کوکاکولا نہیں بکتی؛ایک کیوبا اور دوسرا شمالی کوریا.
چوتھا۔ دنیا میں سب سے زیادہ تعلیم کی شرح کیوبا کی ہے. یونیسکو کے مطابق کیوبا میں شرحِ تعلیم ننانوے اعشاریہ آٹھ فیصد ہے جو آمریکہ سے زیادہ ہے۔ پاکستان میں تعلیم کی شرح اٹھاون فی صد ہے.
پانچواں۔ بدنامِ زمانہ جیل گوانتاناما کیوبا کے ایک جزیرے پر ہے جسے امریکہ نے لیز پر لے رکھا ہے اور چار ہزار ڈالر ماہانہ کرایا دیتا ہے ۔
چھٹا۔ کیوبا میں دنیا کا سب سے چھوٹا پرندہ ہمنگ برڈ(دو انچ) ، دنیا کا سب سے چھوٹا مینڈک(آدھا انچ) "مانٹی ابیریا ایلیوتھ "، دنیا کی سب سے قدیم مچھلی "منجاری" پائی جاتی ہے جو مچھلی اور میملز کا آمیزہ ہے۔، اِسی طرح تقریبا تین ہزار پودوں کی اقسام ہیں جو کسی اور جگہ نہیں۔
ساتواں۔ فیڈل کاسترو کا شمار دنیا کے تیسرے سب سے زیادہ حکمرانی کرنے والے اشخاص میں ہوتا ہے۔ پہلے نمبر پر ملکہ الزبتھ دوئم اور دوسرے نمبر پر تھائی لینڈ کا بادشاہ "بھُومی بول عدلیادیج"ہے
۔کیوبا کی کہانی
صدیوں پہلے کی بات ہے کہ کیوبا میں ایک قبیلہ یوربا رہتا تھا ۔ اس وقت ابتالا بادشاہ کی حکومت تھی۔ ابتالا بوڑھا ہو رہا تھا اور اپنے جانشین کی تلاش میں تھا ۔ اپنے بچوں میں اس کی نظر سب سے چھوٹے بیٹے آرولا پر تھی۔ وہ سلطنت کے کاموں میں دلچسپی بھی لیتا تھا۔ ابتالا چاہتا تھا کہ آرولا کو اپنا نائب مقرر کردے مگر پھر یہ سوچتا تھا کہ آرولا ابھی کم عمر ہے ۔ یہ ذمہ داری اُٹھا سکے گا یا نہیں؟ ایک دن ابتالا نے سوچا کہ آرولا کی عقلمندی کا امتحان لیا جائے ۔ چنانچہ اُس نے آرولا کو حکم دیا کہ میرے لیے لذیذ ترین کھانا تیار کرو ۔ ارولا حکم سن کر فوراً بازار گیا ۔ وہاں بہت سی اچھی اچھی اور مزےدار چیزیں بِک رہی تھیں۔ تمام چیزوں کو دیکھنے اور سوچنے کے بعد آرولا گوشت کی دکان پر گیا اور گائے کی زبان خریدی ۔ گھر آ کر اُسے انواع و اقسام کے مسالے لگا کر پکایا۔ جب زبان پک کر تیار ہوگئی تو ابتالا کے سامنے پیش کی۔ ابتالا نے اُسے مزے لے لے کر کھایا ۔اُس کا ذائقہ لاجواب تھا۔ جب کھا چکا تو اس نے آرولا سے کہا :"بازار میں گوشت اور دوسری بہت ساری کھانے کی چیزیں تھیں۔ مگر تم نے زبان ہی کیوں پسند کی؟" آرولا بولا: "زبان بڑی اہم چیز ہے. اِس سے آپ اچھی اچھی باتیں کرتے ہیں، لوگوں کو اچھی اچھی باتیں سکھاتے ہیں، اُن کے اچھے اچھے کاموں کی تعریف کرتے ہیں، اچھے اچھے راگ الاپتے ہیں،اچھی اچھی خبریں سناتے ہیں، وغیرہ وغیرہ" ۔ابتالا اُس کی بات سن کر بہت خوش ہوا اور دل ہی دل میں کہنے لگا کہ آرولا تو بڑا عقلمند ہے اور اپنے انتخاب پر مسرور ہوا۔ مگر آرولا کو اتنی بھاری ذمہ داری سونپنے کے لئے آبھی اور امتحان لینا چاہتا تھا۔
دوسرے دن اُس نے آ رولا سے کہا:" آ ج میرے لئے سب سے بدمزہ کھانا تیار کرو۔' آرولا بازار گیا۔ ساری چیزیں دیکھنے کے بعد گوشت کی دوکان پر پہنچا، گائے کی زبان خریدی اور جان بوجھ کر بھونڈے طریقے سے پکایا اور ابتالا کے سامنے رکھ دیا ۔ ابتالا نے کھانا شروع کیا اور ایک لقمے کے بعد ہی ہاتھ کھینچ لیا اور منہ بنا کر بیٹھ گیا اور بولا: "ہے تو زبان ہی جو تم نے کل پکائی تھی مگر بہت ہی بد ذائقہ۔ کل تم نے زبان پکائ جس کی لذت کا جواب نہ تھا اور آج تم نے پھر زبان پکائ جس کا ایک لقمہ لینا بھی دشوار ہوگیا ۔ آخر کیوں؟" آرولا ادب سے بولا ؛" یہ زباں ہی ہے جس سے لوگوں کی دل آزاری کرتے ہیں، اُن کی برائی کرتے ہیں، اِس سے لوگوں کو دھوکہ دیتے ہیں، اِس سے گالی گلوچ کرتے ہیں، اِس سے طنز کے تیر چلاتے ہیں، وغیرہ وغیرہ"۔ اُس کا جواب سن کر ابتالا بہت خوش
ہوگیا اور اُسے اپنا جانشین مقرر کردیا
ایک خیال
کیوبا کی اس کہانی کا تھیم ہے:" چیزیں اچھی یا بُری نہیں ہوتیں مگر اُن کا استعمال اُن کو اچھا یا بُرا بنا دیتا ہے"۔ مثلآ چاقو اچھا ہے یا برا؟ اگر چاقو ماں کہ ہاتھ میں ہے تو اُس سے گو شت،سبزیاں اور پھل کاٹتی ہے اور آپ انکو مزے لے لے کر کھاتے ہیں۔ یہ چاقو کسی سرجن کے ہاتھ میں ہو اور کسی کے گردے میں پتھری ہو اور وہ درد سے کراہ رہا ہو تو سرجن چاقو سے گردے کی پتھری نکال دیتا ہے۔ اُس آدمی کو سکون مل جاتا ہے۔ اِس کے برعکس اگر یہی چاقو کسی ڈاکو کے ہاتھ میں ہے تو لوٹ مار کے لیے کسی کا پیٹ تک چیر ڈالتا ہے اور انتڑیوں کو ایسے باہر نکالنا ہے جیسے کانٹے سے سویاں پلیٹ سے نکالتے ہیں۔ تو یہ چاقو بُرا ہے۔گویا ماں یا سرجن کے ہاتھ میں ہے تو نعمت ہے اور زندگی ہے ۔ ڈاکو لٹیرے کے ہاتھ میں ہے تو زحمت ہے اور موت بن جاتا ہے۔
منہ کے لعاب ( سلائیوا) کے بغیر آپ کھانا نہیں نگل سکتے، اِس میں موجود انزائم (اے مائی لیز) نشاستہ کو ہضم کرتا ہے اور یہ لعاب منہ کو خشک ہونے سے بچاتا ہے؛ کتنی فائدہ کی چیز ہے! مگر یہی لعاب جب کسی پر پھینکتے ہیں تو "تھوک" کہلاتا ہے۔ کسی کی ذلت کا باعث بنتا ہے اور بات لڑائی پر ختم ہوتی ہے۔ کتنی بری چیز ہے۔ حالانکہ اصل میں دونوں چیزیں ایک ہی ہیں مگر استعمال بدلنے کے ساتھ وہ کبھی اچھی اور کبھی بُری بن جاتی ہیں۔
تیسری اور آخری مثال موبائل فون کی ہے۔ یہ اچھا ہے یا برا؟ اس کا فیصلہ اِس کا استعمال کرے گا۔ اگر موبائل سے اللہ کا پاک کلام سنیں، اُس کے پیاروں کے ارشادات سنیں، عالم دین کے بیان سنیں ،علم حاصل کریں، ٹائم دیکھیں، الارم لگائیں، ٹارچ کا کام لیں، عزیز و اقارب اور دوستوں کا حال احوال پوچھیں، کیلکولیٹر کے لئے استعمال کریں ، ڈکشنری دیکھیں، کتابیں پڑھیں؛ تو بڑی اچھی چیز ہے۔
اور اگر اس پر "پب جی" کھیلیں، ٹک ٹاک کو ٹکڑ ٹکڑ دیکھیں ، بیوٹی فلٹر لگا کر جعلی خوبصورت بن جاہیں اور جب کوئ حقیقی زندگی میں دیکھ لے تو غش کھا کر گر جائے یا انسان ہوتے ہوئے جانور بن جاہیں، سنیپ چیٹ پر اپنا روپ دکھائیں اور پھر غائب ہو جاہیں، مخالف جنس سے گھنٹوں باتیں کریں، عمران ہاشمی پر فلمائے ہوئے گانے دیکھیں، ٹی سیریز کے لٓچر گانے سنیں، نیٹ فلِکس پر فلمیں دیکھیں، فضول چیٹنگ کریں، غیر اخلاقی مواد تک اِدھر اُدھر سے گھوم کر رسائی حاصل کریں،کانوں میں ٹوٹیاں لگا کر ڈورے ہوجائیں، موبائل پر ایسے نظر جما کر بیٹھیں کہ پاس بیٹھی ماں کو نظرانداز کردیں۔ تو موبائل بری چیز ہے ۔
موجودہ دور میں موبائل فون ایک ضرورت بن گیا ہے۔ نہ صرف اس کی تعداد میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے بلکہ اس کا استعمال بھی دن بدن بڑھ رہا ہے۔ پی ٹی اے کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں چودہ کروڑ موبائل فون ہیں اور گیلپ کے سروے کے مطابق پاکستانی روزانہ اوسطاً دو گھنٹے اِسے استعمال کرتے ہیں ۔ اگر دنیا پر نظر ڈالیں تو "جی ایس ایم اے" کے مطابق دنیا میں اِس وقت نو ارب موبائل فون ہیں جو موجودہ آبادی (ساڑھے سات ارب) سے زیادہ ہیں۔ دنیا میں اِس کا اوسط استعمال چار گھنٹے روزانہ ہے۔اور طالب علم روزانہ نو گھنٹے اِس کے ساتھ چمٹے رہتے ہیں۔
اس کے بےجا اور بے ہنگم استعمال سے طرح طرح کی جسمانی، دماغی، معاشرتی بیماریاں جنم لیتی ہیں ۔ مثلا
دماغ کا کینسر: موبائل ریڈیو فریکوئنسی نکالتا ہے جو دماغ کے خلیوں پر اثر انداز ہوکر کر اُن میں میوٹیشن (تبدیلی) پیدا کر کے کینسر کا باعث بنتی ہے. ڈپریشن: ریسرچ کے مطابق موبائل فون کے استعمال سے ڈپریشن اڑتیس فیصد بڑھ جاتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ نوجوان اکثر چڑ چڑے، ضدی اور تنہائی پسند ہوتے جا رہے ہیں ۔ہمیں ہر وقت تفتیش رہتی ہےکہ میری پوسٹ پر کتنے لائک ملے، میری تصویر پر کیا کمنٹ اے ، اس نے میرا میسج پڑھا کہ نہیں؟ جواب کیوں نہیں دیا؟ یا پھر ہروقت نوٹیفیکیشن کو چیک کرنا۔ان سب سے اڈرینل گلینڈ ایکٹیو ہو کر ایک کیمیکل کارٹیسول نکالتا ہے۔ جس کو عرفِ عام میں "سٹریس ہارمون" کہتے ہیں ۔ یہ ڈپریشن کے ساتھ ساتھ بلڈ پریشر کو بڑھاتا ہے اور دل کی دھڑکن کو تیز کرتا ہے۔
جراثیم کا حملہ: موبائل فون کی سکرین چکنی ہوتی ہے ۔ اِس چکنائی میں ریسرچرز کے مطابق ٹائلٹ سیٹ سے زیادہ جراثیم ہوتے ہیں۔ دراصل چکنائی جراثیم کو ایسے کھینچتی ہے جیسے مقناطیس لوہے کو۔ جراثیم ہمارے اندر بیماریاں پیدا کرتے ہیں اور دفاعی نظام کو کمزور بنا دیتے ہیں۔
کمر کا درد: جب زیادہ وقت کے لئے موبائل استعمال کیا جائے یے تو گردن کو موڑنا پڑتا ہے اور کمر کو بینڈ کرنا پڑتا ہے جس سے پہلے تو کمر کا درد شروع ہوتا ہے اور رفتہ رفتہ گردن کا درد بھی شروع ہو جاتا ہے ۔ کیونکہ ریڑھ کی ہڈی کے مُہرے کے درمیان ایک فومی پیڈ ہوتا ہے۔ ٹیڑھے ہو کر بیٹھنے سے وہ پیڈ ایک طرف سے بڑھ جاتا ہے اور پھر قریب سے گزرتی ہوئی نروز کو دبانے لگتا ہے جس سے درد شروع ہو جاتا ہے ۔
نظر کی کمزوری: نئی ریسرچ کے مطابق پانچ منٹ چلنے کے بعد نوے فیصد لوگ موبائل چیک کرتے ہیں۔ گویا پانچ منٹ کی جدائی بھی برداشت نہیں؟ موبائل ایچ ای وی( ہائی انرجی وائبریشن) نکالتا ہے۔ یہ نیلے رنگ کی روشنی ہے۔ جس کی فریکوئنسی چھ سو ستر ٹیرا ہرٹ ہے، یعنی اسکی انرجی بہت زیادہ ہے۔ یہ نیلے رنگ کی روشنی ریٹینا( آنکھ کا پردہ) کے کے روشنی سے حساس سیل(راڈ) کو تباہ کر دیتی ہے۔ ریسرچ کہتی ہے کہ آئیندہ سالوں میں نظر کی عینکوں کا استعمال زیادہ ہو جائے گا ۔ جس حساب سے ہم موبائل فون استعمال کر رہے ہیں تو ہر گلی میں ایک عینکوں کی دکان بھی ہوسکتی ہے۔
نیند کی خرابی: موبائل فون کا استعمال ،خاص طور پر سونے سے پہلے، نیند کے پیٹرن کو خراب کر دیتا ہے۔ اور کچھ لوگ تو بے خوابی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ تاریکی میں جسم میں ایک ہارمون میلاٹونن بنتا ہے جو نیند لاتا ہے اور جب ہم موبائل استعمال کرتے کرتے لیٹتے ہیں تو میلاٹونن نہیں بنتا ۔جس سے نیند کی کمی کا شکار ہو جاتے ہیں
نومو فوبیا: "موبائل فون کے فراق کے غم" کو نوموفوبیا کہتے ہیں۔ یہ "نو موبائل فون فوبیا" کا مخفف ہے۔ اِس اصطلاح کو دو ہزار آٹھ میں پہلی دفعہ برطانیہ میں استعمال کیا گیا جب پوسٹ آفس نے ایک سٹڈی میں بتایا کہ برطانیہ کے ترپن فیصد موبائل فون استعمال کرنے والے اِس بیماری میں مبتلا ہیں اور اُن کو ہر وقت کھٹکا لگا رہتا ہے کہ انکا موبائل فون گم نہ ہو جائے، خراب نہ ہو جائے، بیٹری یا بیلنس ختم نہ ہو جائے ، نیٹ ورک کوریج نہ رُک جائے،وغیرہ وغیرہ۔
نوموفوبیا پر دوسری ریسرچ دو ہزار لوگوں پر کی گئی تو پتہ چلا کہ اٹھاون فیصد مرد اور سینتالیس فیصد عورتیں نومو فوبیا کا شکار ہیں۔
جلدی بیماری: موبائل فون کو پُرکشش بنانے کے لئے اِس پر دھات کی تہہ چڑھائی جاتی ہے جس میں نِکل، کرومیئم اور کوبالٹ ہوتے ہیں جو جلد کی الرجی کرنے کے لئے بد نام ہیں اور جلدی بیماری ڈرما ٹائٹس کی وجہ بنتے ہیں۔
قوت سماعت: اونچی آواز سے موسیقی سننے اور ہینڈ فری کے استعمال سے کانوں کے پردے( ٹمپانک ممبرین) پر بُرا اثر پڑتا ہے اور جس سے قوت سماعت میں کمی آجاتی ہے۔ ماں پہلے اپنے بچوں کو آہستہ سے بلاتی تھی: آ جاؤ، کھانا تیار ہے اور بچے بھاگتے آ تے تھے۔ اب ماں چیخ چیخ کر بُلاتی ہے، تب جا کر اس کی نحیف آواز بچوں کے کانوں میں صرف سرگوشی کرتی ہے۔
جیب میں بھوت: موبائل فون استعمال کرنے والا محسوس کرتا ہے کہ موبائل فون اُس کی جیب میں وائبریٹ کر رہا ہے جبکہ حقیقت میں یا تو کوئی میسیج آیا ہوتا ہے یا یہ محض آسکا خیال ہوتا ہے یا اس کو کسی کے فون آنے کا شدت سے انتظار ہوتا ہے ۔ وہ فوراً موبائل فون جیب سے نکال کر دیکھتا ہے کہ کوئی میسج یا فون تو نہیں آیا۔حقیقت میں کچھ نہیں ہوتا بلکہ اس کا وہم ہوتا ہے۔ اس تفتیش کو فنٹم پاکٹ وائبریشن سنڈروم کہتے ہیں۔ خاندان نظام کی تباہی: خاوند بیوی سے بات نہیں کرتا ،نہ بیوی خاوند سے۔اِسی طرح نہ بچے والدین سے۔ سب پاس بیٹھ کر بھی دور ہو گئے ہیں۔ ایک کمرہ میں بیٹھے ہیں مگر سب اپنے موبائل فون کے ساتھ چپکے ہوتے ہیں ۔ بڑی مشہور بات ہےکہ موبائل فون نے قریب کے لوگ دور اور دور کے لوگ قریب کر دیے ہیں۔ اس موبائل کی وجہ سے خاندانی نظام بگڑتا جا رہا ہے۔
غیر اخلاقی پہلو: منٹو نے ایک جگہ لکھا ہے: جب کسی ہوٹل میں دو شخص میز پر بیٹھے ہوں اور سرجوڑ کر آہستہ آہستہ باتیں کر رہے ہوں اور بات بات پر ایک دوسرے کے ہاتھ پر ہاتھ مار رہے ہوں تو یقین کرلو، کسی فحش موضوع پر گفتگو کر رہے ہیں ۔ اِسی طرح اگر موبائل فون استعمال کرتے وقت کوئی کسی کو چور نظروں سے دیکھے، تو سمجھ جاؤ۔۔۔اور کسی کال آنے پر موبائل فون استعمال کرنے والا گھبرا جائے تو پھر بھی سمجھ جاؤ۔۔۔ اور اگر آپ کے داخل ہونے پر کوئی موبائل فون بند کر دے تو پھر بھی سمجھ جاؤ۔۔۔ اور اگر کوئی موبائل فون واش روم میں لے جائے تو پھر بھی سمجھ جاؤ۔۔۔ اگر کوئی کال آرہی ہو اور آپ کے پہلو میں بیٹھا شخص بار بار کاٹ دے تو پھر بھی سمجھ جاؤ۔۔۔ اگر کسی کو شوہر پر شک ہو تو اس کا موبائل لے کر شک والی جگہ کے باہر چلے جاو، اگر وائ فای کنیکٹ ہو جائے تو سمجھ جاؤ۔۔۔ اگر کسی کی بیٹر ہاف بار بار موبائل اٹھا کر کہہ رہی ہو کہ آواز نہیں آ رہی ،کوئ رانگ نمبر ہے تو سمجھ جاو۔۔۔اور میری یہ بات سمجھ جاؤ کہ لاکھ سمجھاؤ، کوئی نہیں سمجھے گا۔ اس لیے آپ ہی سمجھ جاؤ!
یہ موبائل فون کے بےجا استعمال کے آٹے میں نمک کے برابر چند نقصانات ہیں ۔ اس کے علاوہ اور بھی بہت زیادہ ہیں۔ لیکن اگر صحیح استعمال کیا جائے تو فائدے ہی فائدے ہیں۔ موبائل فون کو اس طرح استعمال کریں کہ یہ آپ کی زندگی میں "موبل آئل" کا کام کرے اور زندگی کی گاڑی کو موبائل رکھے۔ نہ کہ آپ کی زندگی کو سیل( بند) کرنے والا سیل فون بن جائے .
کیوبا کی کہانی سے یہی سبق ملتا ہے کہ زبان کو اچھے اچھے کاموں کے لئے استعمال کریں تاکہ لذت ملے نہ کہ برے کاموں سے اِس کو بدذائقہ بنا ڈالیں ۔ کیوبا کی ایک خصوصیت رہ گئی کہ فیڈرل کاسترو نے کیوبا میں موبائل کے استعمال پر پابندی لگادی کہ اس سے وقت ضائع ہوتا ہے اور جب دو ہزار آٹھ میں بیماری کی وجہ سے اقتدار اپنے بھائی کے حوالے کیا تو اس نے پابندی ختم کی مگر اب بھی کیوبا میں لیپ ٹاپ سستا اور موبائل فون مہنگا ہے تا کہ لوگ اس کا کم استعمال کریں۔ انٹرنیٹ پر فری اکسیس صرف پانچ فیصد لوگوں کو ہے اور وہ بھی نیٹ کیفے پر۔ جہاں ڈاکٹر، پروفیسر، سائنسدان وغیرہ ریسرچ کرتے ہیں ۔ کیوبا واحد ملک ہے جہاں انٹرنیٹ کا استعمال صرف اور صرف تعلیم کے لئے ہوتا ہے۔ یاد رہے کہ مشہور پاپ گروپ بیٹل کو فیڈرل کاسترو نے ملک میں بین کر دیا تھا کہ یہ وقت کا زِیاں ہے۔ کاسترو سے آپ لاکھ اختلاف کر سکتے ہیں مگر وہ وقت کو ضائع کرنے کے بہت خلاف تھا۔ آپ اس بات سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ وہ شیو نہیں کرتا تھا۔ اس نے کہا؛"میں ہر سال شیو نہ کر کے دس ورکنگ ڈے بچا لیتا ہوں۔" یہ وقت کی قدر ہی ہے کہ امریکہ جیسی سپر پاور صرف دو سال کیوبا پر قبضہ قائم رکھ سکی اور ناکامی کا منہ دیکھ کر اُسے کیوبا سے نکلنا پڑا۔امریکہ نے متعدد بار کوشش کی کہ کاسترو کا اقتدار یا اُسے ختم کردیا جائے مگر ناکام رہا۔ جو لوگ، جو قومیں، وقت کی قدر کرتی ہیں اور چیزوں کا صحیح استعمال کرتی ہیں، ان کی شرح تعلیم ننانوےفیصد؛ صحت میں ڈاکٹر ہی ڈاکٹر اور سو ملین ڈالر کی بائیو ٹیکنالوجی کی ایکسپورٹ ہوتی ہے۔ وہ چیونٹی ہو کر بھی ہآتھی کے کان میں گھس کر اسے پاگل بنا دیتی ہیں۔ موبائل فون وقت کے ضیاع کا ورلڈ چیمپیئن ہے۔اس کو ایک نمبر پر لانے میں دو نمبر عِلًت "موبائلیریا" کا بڑا ہاتھ ہے۔ یاد رہے کہ چیزیں اچھی یا بری نہیں ہوتیں، اُن کا استعمال اُن کو اچھا یا برا بنا دیتا ہے۔اہیں مِل کر موبائل فون کو "اچھا" بناتے ہیں۔
Excellent piece of writing. Great massage for youth
ReplyDeletethanks a lot
DeleteThis topic is clear reality
ReplyDeleteSir please keep it up to notify further minus points of our society
ok dear,,, i will do it
Delete