یوم سیاہ Black Day
آج گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ تعلیم الاسلام کالج چناب نگر میں یوم سیاہ منایا گیا اور احتجاج میں قومی پرچم سرنگوں رہا ۔ اس ضمن میں ایک سیمینار منعقد کیا گیا جس کا موضوع تھا " یومِ سیاہ منانے کا تقاضا"۔ سیمینار کا آغاز پروفیسر حافظ احسان اللہ نے تلاوت کلام پاک سے کیا ۔پروفیسرر سید علی عمران شاہ نے خطاب کرتے ہوے کہا: کشمیر میں مودی نے اپنی قبر کھود دی ہے اور آزادی کا سورج کشمیر میں جلد طلوع ہوگا ۔وہ دن جلد آنے گا جب آزاد کشمیری پاکستان کے آزاد لوگوں کے ساتھ آزادی سے سانس لیں گے۔ان کی آزُردگی، آزادی میں بدلنے والی ہے۔
پروفیسر عالمگیر نے اپنے جذبات اور خیالات کا اظہار کرتے ہوے کہا کہ ان شاءاللہ مظلوم کشمیریوں کا خون راٸیگاں نہیں جاۓ گا اور معصوموں کی قربانیاں رنگ لاٸیں گی اور وہ دن دور نہیں جب ظلم و ستم کی یہ داستان اپنے انجام کو پہنچے گی اور ہمارے کشمیری بھاٸی بھارتی بنیے کے جابرانہ تسلط سے نکل کر آزاد فضا میں سانس لیں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ امن کے علمبردار اس ضمن میں اپنا کردار ادا کریں اور ذمہ داران کو چاہیے کہ ان حالات کا عملی حل نکالنے کے لیے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراداد نمبر 38, 39 اور 47 (1948) کے مطابق مقبوضہ کشمیر میں راۓ شماری کرواٸی جاۓ اور کشمیر کی موجود صورت حال کو مدنظر رکھتے ہوۓ اقوام متحدہ کی جانب سے اس مسٸلے کے حل کے لیے اپنا ایک مستقل نماٸندہ مقرر کیا جاۓ۔
پروفیسر ڈاکٹر ثقلین نے حکومت وقت کی توجہ مبذول کرواتے ہوۓ کہا کہ یوم سیاہ کو محض روایتی دن کی طرح منانے کی بجاۓ آج کے دن آٸیندہ اقدامات کی منصوبہ سازی کی جاۓ اور سلامتی کونسل کے ممبران سے رابطہ کر کے مسٸلہ کشمیر کے حل پر قرارداد لانے کے ان کی ممبران کی حمایت حاصل کی جاۓ اور اس امر کو یقینی بنایا جاۓ کہ یہ قراداد اقوام متحدہ کے چارٹر کے چیپٹر 6 کی بجاۓ چیپٹر 7 تحت پیش کی جاۓ۔
پروفیسر وقار حسین میڈیا انچارج نے اپنے خطاب میں اس خدشے کا اظہار کیا کہ مسئلہ کشمیر کی وجہ سے تیسری عالمگیر جنگ کا خطرہ سر پر منڈلا رہا ہے ۔ اس وادی جنت کو خون میں رنگنے کی بنیاد پر کسی بھی وقت، دنیا کا امن تباہ ہوسکتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ پاکستانی فوج اپنی پیشاورانہ مہارت میں اپنی مثال آپ ہے۔اس کی صلاحیت اور جرات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔مزید غزوہ ہند کی نوید اس کے کانوں میں گونج رہی ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ پاکستانی عوام اپنی غیور افوج کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑی ہے۔ بلکہ حقیقت میں وقت آنے پر 22 کروڑ عوام "فوج" ہی ہیں اور ہم ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر دشمن کا تادم مرگ مقابلہ کریں گے ۔اس کے باوجود ہم امن کا عٓلم ہاتھ سے نہیں چھوڑیں گے۔لیکن اگر ہمیں مجبور کیا گیا تو ترائین کی دوسری لڑائی 1192 کا پارٹ ٹو چلانے میں دیر نہیں کریں گے۔ اس لئے امن کی فاختہ کو آزادی سے سانس لینے دیا جائے اور مسلہء کا حل اقوام متحدہ کی قرار دادوں سے نکالا جائے۔
وائس پرنسپل پروفیسر سرفراز حسین نے مسئلہ کشمیر کی افادیت پر روشنی ڈالی اور کہا کہ کشمیر پاکستان کی شاہ رگ ہے اور پاکستان کا "اٹوٹ انگ" ہے۔ ہم کسی بھی صورت میں من حیث القوم کشمیر سے دستبردار نہیں ہوں گے ۔بعدازاں انھوں نے مظلوم کشمیریوں کے حق میں اور پاکستان کے استحکام اور سلامتی کے لئے دعا کروائی۔
پرنسپل سید ضیاء الحسنین شاہ نے اپنے صدارتی خطاب میں کہا کہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق نہرو، گاندھی اور واجپائی کے نظریات کا جو خون مودی سرکار نے کشمیر میں کیا ہے ، وہ بھارت کے سیکولر چہرے پر ایک بدنما داغ کی حیثیت رکھتا ہے۔انتہا یہ ہے کہ ہندوستان کے اندر سے اُن کی اپنی سیاسی جماعتیں کشمیر پر ہونے والے مظالم پر واویلا کر رہی ہیں اور مودی جیسے قصاب کے کانوں پر جوں نہیں رینگ رہی۔ کشمیر کے اندر استصواب رائے کروانا ہوگا اور پانچ اگست کو اہین کے ارٹیکل 35 A اور 370 کی ریوکیشن کے فیصلہ کو واپس لینا ہوگا۔اور مسئلہ کے حل کو UNO کی قراردادوں میں ڈھونڈنا ہوگا۔
سیمینار کے بعد ایک احتجاجی ریلی نکالی گئی۔ پروفیسروں نے سیاہ پٹیاں باندھ رکھی تھیں، کچھ نے سیاہ لباس زیبِ تن کیے ہوے تھے اور پلے کارڈ اٹھا کر آزادی کشمیر کے حق میں میں پرجوش نعرے لگا رہے تھے۔ پروفیسروں کا جوش و جذبہ دیدنی تھا اور قابل ستائش تھا۔"کشمیر بنے گا پاکستان" کے نعرے ہر طرف گونج رہے تھے-
No comments
Thanks for your comments.