ایک تصویر،ایک کہانی، ایک خیال Episode 9
Episode 9 ایک تصویر، ایک کہانی، ایک خیال
ایک تصویر
ایک کہانی
سردیوں کی رات تھی۔ چولہے میں آگ جل رہی تھی۔ ساری فیملی کچن میں بیٹھی رات کا کھانا کھا رہی تھی۔ کھانا ختم ہوا تو بچے ابو کے اِرد گرد بیٹھ گئے اور والد کی طرف دیکھنے لگے جیسے کہہ رہے ہوں: ابو آج کی کہانی؟ ابو نے حُقّے کا لمبا کش لگایا، گُڑ گُڑ کی آواز اُٹھی، چِلَم میں پڑے کوئلے قدرے اور سرخ ہوگئے ۔ ابو نے منہ سے دھواں نکالا اور گلے کو کھنکار کر صاف کیا اور کہانی شروع کردی۔
بچو، آج کی کہانی ذرا مختلف ہے ۔غور سے سننا کیونکہ بیچ میں تمہیں میرے سوالوں کا جواب دینا ہوگا ۔ تینوں بیٹے اور بیٹی تجسس سے ابو کا چہرہ دیکھ رہے تھے۔ ابو نے کہانی شروع کی: میرے بچو! لاہور کے ایک پوش علاقہ میں بہت بڑی کوٹھی تھی جس میں ایک ارب پتی بزنس مین رہتا تھا ۔اس کی بیوی مشہور سوشل ورکر تھی۔ ان کا ایک بیٹا تھا۔ اس کوٹھی کی ایک سائیڈ پر سرونٹ کوارٹر تھے جس میں دودھی، خانسامہ، چوکیدار، ڈرائیور وغیرہ رہتے تھے۔ صبع جب سکول جانے کا وقت ہوا۔ منھا دودھی نے بیٹے کو سائیکل پر بٹھایا اور اس کو سکول چھوڑنے کے لئے جانے لگا۔ اِسی اثنا میں ارب پتی کا بیٹا صاف شفاف قیمتی لباس پہنے لینڈکروزر میں بیٹھ گیا۔ اس کے ہاتھ میں سینڈوچ تھا جس کو وہ ساتھ ساتھ کھا رہا تھا۔ ڈرائیور نے دروازہ بند کیا اور ڈرائیور سیٹ کی جانب بڑھا۔ چوکیدار نے لپک کر دیوہیکل گیٹ کھول دیا۔ اُدھر دودھی کا بچہ سائیکل کے ڈنڈے پر بیٹھا ،امیر بچے کی شان و شوکت دیکھ رہا تھا۔ اس نے ایک نظر اپنے پرانے کپڑوں، پھٹے ہوئے بستہ اور پرانی سائیکل کی طرف دوڑائی اور سوچنے لگا کہ اس کے پاس اچھے کپڑے کیوں نہیں؟ اس کے پاس گاڑی کیوں نہیں؟ اس کے پاس کوٹھی کیوں نہیں؟ سائیکل چل پڑی اور وہ ہچکولے لیتا آگےبڑھتا رہا اور ساتھ ساتھ اپنی محرومیوں کی لسٹ کو بھی بڑھاتا رہا۔
باپ نے کش لگایا اور بولا: میں نے کہا تھا کہ آج کی کہانی پر میں سوال کروں گا اب بتاؤ کہ ارب پتی کا بیٹا خوش ہے یا دودھی کا؟ سب بچے ایک ساتھ بولے: ارب پتی کا بیٹا۔
باپ نے کہانی کو آگے بڑھایا۔دوپہر کو دونوں بچے اپنے اپنے گھروں کو واپس لوٹ آئے۔ جب شام ہوئی تو غریب بچہ اپنے ہمسایوں کے بچوں کے ساتھ پٹھوگرم کھیلنے لگا۔ جب اِس کھیل سے اکتا گئے تو کرکٹ کھیلنے لگے۔ ادھر ارب پتی کا بچہ گھر میں اکیلا تھا۔ بچے کا والد بزنس میٹنگ اٹینڈ کر رہا تھا اور اس کی والدہ حسبِ معمول رفاہی کاموں میں مصروف تھی۔ اُس نے اپنے بیڈ روم کا پردہ ہٹایا تو دیکھا کہ سات آٹھ بچے اپنے ہم عمر ساتھیوں کے ساتھ کھیل کود میں مشغول تھے۔ انکے قہقہے کھڑکی کے شیشے پھاڑ کر اس کے کانوں کے پردوں کو پھاڑ رہے تھے۔ اس کے دل میں آیا کہ وہ بھی اس کمرہ سے نکلے اور جا کر ان بچوں کے ساتھ کھیلنا شروع کر دے مگر والد کا حکم اس کے پاؤں کی بیڑی بن گیا۔"ان بچوں سے زیادہ میل ملاپ نہیں رکھنا ، فاصلہ رکھنا ہے۔" یہ سوچ کر اس نے اپنا ارادہ ترک کردیا اور حسرت لئے ان کو کھڑکی سے ہی دیکھتا رہا اور دل ہی دل میں کڑھتا رہا کہ وہ اس کمرہ میں قید ہے جبکہ آزادی باہر غریب بچوں کے پاس ہے۔ وہ کھیلنے کودنے کے مزے تک سے محروم ہے۔ ابّو نے کہانی پھر روک دی اور سوال داغ دیا: بتاؤ، اب کون خوش ہے؟ ارب پتی کا بیٹا یا غریب کا۔ سب نے ایک سانس میں کہا: غریب کا بچہ آزاد ہے،کھیل کود رہاہے۔ ارب پتی کا بچہ تو سونے کے پنجرے میں قید ہے۔
دوسرا دن! صبح کے وقت ارب پتی اپنی مرسیڈیز میں بیٹھ کر دفتر جانے لگا اور ادھر سرونٹ کوارٹر سے شیدے چوکیدار کا بیٹا نکلا۔ وہ ایک سرکاری کالج میں بی اے کا طالب علم ہے اور پیدل ہی کالج آتا جاتا ہے۔ چوکیدار کے بیٹے کی نظر ارب پتی پر پڑی۔ اس کے سوٹ بوٹ کی چمک دمک کو دیکھا ،پرفیوم کی خوشبو ساری فضا کو معطر کر رہی تھی، سارے ملازم صاحب کی گاڑی کے اِرد گرد ہاتھ باندھ کر کھڑے تھے۔ چوکیدار کے بیٹے نے اپنی قسمت پر سرد آہ بھری۔ اُس کے دل میں خواہش پیدا ہوئی :کاش ! اس کے پاس یہ سب کچھ ہوتا ۔اُدھر ارب پتی مرسڈیز کی پچھلی سیٹ پر بیٹھ گیا ۔ اس کی نظر چوکیدار کے بیٹے پر پڑی؛ دبلا پتلا ،چھریرا بدن، سر پر خوبصورت بال اور ہرن کی طرح چال۔۔۔ ایک دم ارب پتی کو اپنی شوگر کی زیادتی، ہای بلڈ پریشر کی شکایت اور گھٹنوں کی سوجن یاد آگئی۔ اسے خیال آیا کہ وہ تیزی سے چلنے سے محروم ہے، وہ سب کچھ کھانے سے محروم ہے جبکہ یہ نوجوان صحت مند ہے، برق رفتاری سے چل سکتاہے اور سب کچھ ہڑپ سکتا ہے۔ اس کے سیاہ بال اور سمارٹ جسم دیکھ کر اسے اپنا گنج اور بڑھی ہوئی توند یاد آگئے، اس کی جوانی دیکھ کر اپنی جوانی یاد آگئی۔ ارب پتی کا دل کیا کہ کاش وہ اس کی جگہ ہوتا؛ صحت مند، توانا، جوان اور خوش خرم۔
ابو نے پھر کہانی روک دی اور بولے: اب بتاؤ چوکیدار کا بیٹا خوش ہے یا ارب پتی؟ اِس دفعہ بچوں کی رائے تقسیم ہوگی۔ ایک بیٹا بولا: دونوں ہی نا خوش ہیں اور اپنی قسمت سے نالاں ہیں۔ دوسرا بیٹا بولا: دونوں خوش ہیں، دونوں کے پاس خوش ہونے کے لئے کچھ نہ کچھ ہے، جو ان کو نظر نہیں آرہا۔ تیسرا بیٹا بولا: ارب پتی خوش ہے کہ اُس کے پاس دولت ہے جو ہر مرض کا علاج ہے ۔ بیٹی بولی: چوکیدار کا بیٹا خوش ہے کہ اس کے پاس صحت جیسی نعمت ہے۔ ابّو نے کہانی آگے بڑھا دی۔
تیسرا دن! اتوار کا دن تھا۔ ارب پتی کی بیوی آج گھر پر ہی تھی۔اس نے خانسامے کی بیٹی کو بلوا بھیجا۔ خانسامے کی بیٹی نذیراں میٹرک کے بعد رشتے کے انتظار میں گھر بیٹھی تھی۔ گھر کے سارے کام اس کے حوالے تھے۔ فارغ وقت میں اسے پڑھنے کا شوق تھا؛ اخبار، ڈائجسٹ، ناول جو ہاتھ لگا پڑھ ڈالا۔ نزیراں مالکن کے بیڈروم میں داخل ہوئی۔ مالکن بیڈ پر لیٹ رہی تھی۔ نذیراں کو دیکھتے ہی بولی: آج میرے سر میں درد ہے، سر کی مالش کر دو۔ نذیراں فوراً گئ، تیل لائی اور لپک کر بیڈ پر چڑھ گئی، مالکن کو آگے بٹھا کر اس کے پیچھے بیٹھ کر مالش کرنے لگی ۔نذیراں نے دیکھا کہ مالکن کے بال سفید ہو رہے ہیں۔ خیالوں میں شکر کرنے لگی کہ میرے بال تو ابھی کالے ہیں۔ اُدھر مالکن نے محسوس کیا کہ نذیراں کے ہاتھ کتنے کھردرے رہیں ۔ پھر مالکن نے اپنا ہاتھ دوسرے ہاتھ پر پھیرا اور محسوس کیا کہ میرے ہاتھ تو مکھن کی طرح ملائم ہیں اور دل ہی دل میں خوش ہوگی۔ مالش کرتے کرتے نظیراں نے بائیں جانب دیکھا، جہاں پر ڈریسنگ ٹیبل تھا۔ اس کے بڑے شیشے میں خود کو دیکھا اور مالکن کو بھی۔ نزیراں دیکھنے لگی کہ اس کے چہرے پر جوانی رقص کر رہی ہے جبکہ مالکن کے چہرے پر جھریاں اپنی آمد کا اعلان کر رہی ہیں۔ مالکن نے جلد محسوس کر لیا کہ نزیراں کے مالش کرنے کی رفتار سست ہو گئی ہے۔ اُس نے دیکھنے کے لئے گردن موڑی اور دیکھا کہ نزیراں شیشے میں دیکھ رہی ہے۔ شیشے میں دونوں کی آنکھیں چار ہوہیں۔ نذیراں نے مالش تیز کر دی۔ مالکن نے دیکھا کہ اس کے سرخ سفید چہرے کے پیچھے نذیراں کا سیاہی مائل نحیف چہرہ نظر آیا جیسے غروب آفتاب کے وقت افق کی سرخی کہ پس منظر میں سوکھا کیکر۔ مالکن اپنی سفید رنگت پر خوش ہوئی اور دل میں نزیراں کے کالے رنگ پر ترس کھایا ۔ مالکن بولی: نذیراں تھک تو نہیں گئ؟ نذیراں بولی : نہیں، بیگم جی ۔ ہم لوگ نہیں تھکتے۔ ہم کام کرنے کے عادی ہوتے ہیں۔ ایک کام سے تھک جائیں تو آرام کرنے کے لئے دوسرا کام شروع کر دیتے ہیں۔ دل میں اپنی اچھی صحت پر خوش ہوئی جس کی بدولت وہ دن رات کام کرتی تھی۔ مالکن سوچ رہی تھی کہ وہ کتنی خوش نصیب ہے ۔ سارے کام اس کی آنکھ کے اشارے سے ہو جاتے ہیں۔ اِس بیچاری کو سارے کام خود کرنے پڑتے ہیں
مالکن بولی: سُنا ہے رات تیز بارش ہوئی؟ نذیراں بولی: "جی بیگم جی، بہت زور کی" یہ کہہ کر سوچنے لگی کہ کل شام بادل کی ٹکڑیاں پورے آسمان پر تیرنے لگیں پھر سب مل گئیں جیسے تنکے بہتے دریا میں گرداب میں اکٹھے ہو جاتے ہیں اور ایک بڑا بادل بن گیا۔ آسمان غائب ہوگیا اور بادل ہی آسمان بن گیا ۔ پھر ہلکی ہلکی ٹھنڈی ہوا چلنے لگی ،اندھیرا چھا گیا، سورج نے بادل کی چادر اوڑھ لی، پرندے درختوں میں سہم کر بیٹھ گئے، چیونٹیاں قطاروں میں گھروں کی جانب چل پڑیں۔ ہم نے باہر پڑا سامان اندر کر لیا۔ عجیب کیفیت تھی، خوف اور خوشی مل گئے جیسے کسی نے پلاؤ میں زردہ ملا دیا ہو ۔ پھر بادلوں میں ہلچل مچی ۔ گرج اٹھی اور کڑک ہوا چیرتی ہوئی کانوں میں داخل ہوکر دل کی دَھک دّھک بڑھا کر ختم ہوگی۔ تیز چمک اُٹھی اور آسمان پر روشنی کی نہریں بہنے لگیں اور آنکھیں چندھیانے کی بجائے خوف سے اور بھی کھل گئیں۔ گرج چمک کے بعد بارش کی کن کن، پھر چھن چھن اور پھر پرنالوں کا شور- پر لطف ماحول، ہم آگ جلا کر بیٹھ گئے۔ شعلوں کی حدت جسم کو سہلانے لگی۔ مالکن اپنے کمرے میں بند ٹی وی کے شور میں ان سارے لمحات سے محروم رہی۔اُدھر مالکن سوچ رہی تھی کہ بارش میں اِن کی چھت ضرور ٹپکی ہو گئی، نیچے بالٹی رکھ کر پانی اکٹھا کیا ہوگا اور نذیراں سوراخ بند کرنے کے لئے بارش میں چھت پر چڑھی ہوگی ۔ بیچاری کو کتنی مشکل ہوئی ہوگی؟ اس کے دل میں رحم آگیا اور بولی نزیراں موسلا دھار بارش میں میرےپاس آ جایا کرو۔ نذیراں بولی: بیگم جی، بارش روز روز تھوڑی ہوتی ہے ۔روز تو ستاروں کی حکومت ہوتی ہے ۔ پورے آسمان پر جگہ جگہ چوکیاں بنا کر، مشعلیں جلا کر بیٹھے رہتے ہیں جیسے کہہ رہے ہوں: خبردار! جو اِس طرف کا رُخ کیا تو! کبھی کبھی تو بادلوں کا پردہ پڑتا ہے اور بارانِ رحمت برستی ہے۔ بڑا مسحورکن لمحہ ہوتا ہے۔ مالکن بولی: جانے دو ،زیادہ کتابیں نہ پڑھا کرو۔ بارش میں کیا رکھا ہے؟ ہر طرف کیچڑ ہی کیچڑ ،ہر اک چیز گیلی گیلی،سیلی سیلی دیواریں، دبی ہوئی بدبویں باہر نکل آتی ہیں۔ چلو اب بس کرو۔ مجھے کافی آرام ملا ہے، تم بھی تھک گئی ہو۔
نذیراں مروتاً بولی: نہیں نہیں حالانکہ اس نے ابھی جھاڑو لگانی تھی، برتن دھونے تھے اور دوپہر کا کھانا بھی پکانا تھا مگر اُس کی ہمت کے سامنے سب کام چھوٹے تھے۔ مالکن مالش کروا کر فریش محسوس کر رہی تھی اور سوچ رہی تھی اگر نزیراں کے سر میں درد ہو تو اِس کی کون مالش کرے گا؟
ابو بولے بتاؤ: مالکن اور نذیراں میں سے کون خوش ہے؟ بچے بولے دونوں عورتیں اپنی زندگی سے مطمئن نظر آرہی ہیں۔ نذیراں کی خوشی میں سمجھوتا ہے جبکہ مالکن کی خوشی میں غرور۔ بظاہر دونوں ہی خوش ہیں۔
ابو بولے: بچو! جب ہم ان چیزوں کے بارے میں سوچتے ہیں جو ہمیں حاصل ہیں تو اس وقت ہم خوش ہوجاتے ہیں اور اپنی خوش قسمتی پر نازاں ہوتے ہیں۔ اور جو نہی ہم ان چیزوں کے بارے سوچنے لگتے ہیں جو ہمارے پاس موجود نہیں تو ہم دکھی ہوجاتے ہیں اور اپنی بدقسمتی پر ماتم کرنے لگتے ہیں۔ گویا خوشی اور دکھ کا تعلق ہماری سوچ کے ساتھ ہے۔
چوتھا دن! کل کی بارش کے کیچڑ کے باعث دودھی کا سائیکل رُک رُک کے چل رہا تھا ۔اُس کے بیٹے کے کپڑے نمی سے مزید چُڑ مُڑ ہوگئے تھے۔
شام کو بچے کیچڑ کی وجہ سے کرکٹ نہیں کھیل سکے۔ آج وہ شاپر کی پتنگیں بنا کر اُڑا رہے تھے ۔ صاف ستھرے آسمان پر پتنگ بازی بہت مزہ دے رہی تھی۔ ان کی خوشی کی انتہا نہ تھی ۔ امیر بچہ سب کچھ کھڑکی سے دیکھ رہا تھا اور آج زیادہ اذیّت محسوس کر رہا تھا۔
چوکیدار کا بیٹا آج کیچڑ سے بچتا بچاتا کالج جا رہا تھا۔ پھر بھی چھینٹے اسکی پینٹ پر پڑ رہے تھے۔ ارب پتی کا بلڈ پریشر صبع صبع ہی چڑ گیا۔ آج اُسے ایک بڑا کنٹریکٹ لینے کے لئے کوشش کرنے تھی۔ نذیراں کو ایک نیا ناول مل گیا ۔ وہ اس کو پڑھ کر محظوظ ہو رہی تھی۔ مالکن نے آج یتیم خانے کے بچوں میں گرم کپڑے تقسیم کئے اور بہت خوش تھی۔
ابو بولے: دیکھا جن کی سوچ حاصل شدہ چیزوں پر ہے، ان کو مزید خوشیاں مل رہی ہیں۔ جن کی سوچ غیر حاصل پر ٹِکّی ہیں، وہ غم و الم کی دلدل میں دھنستے جا رہے ہیں۔ بیٹا! اپنی سوچوں پر پہرہ دو۔
ایک خیال
کہانی کا تھیم ابو کے اختتامی ریمارکس میں ہے۔ غریب بچہ جب امیر بچہ کی اشیاء کو دیکھتا ہے تو دکھی ہو جاتا ہے۔ جب امیر بچہ کھڑکی سے دوسرے بچوں کو کھیلتے دیکھتا ہے، اس وقت وہ دکھی ہو جاتا ہے۔ اسی طرح ارب پتی اور چوکیدار کا بیٹا دونوں ہی ان چیزوں کے بارے میں سوچتے ہیں جو ان کے پاس نہیں ،دونوں دکھی ہیں ۔جبکہ مالکن اور نذیراں دونوں اپنی حاصل شدہ چیزوں کو دیکھتی ہیں، دونوں خوش ہیں۔
خوشی اور غمی ہمارے سوچنے کے انداز میں ہے۔ جب ہم ان چیزوں پر غور کریں گے جو ہمیں حاصل ہیں(ہیوز) تو ہم خوش ہوجاتے ہیں۔اور جب ان چیزوں پر توجہ دیتے ہیں جو ہمارے پاس موجود نہیں (ہیو ناٹ)تو ہم دُکھی ہو جاتے ہیں۔ مختصراً جو ہیوز کو دیکھیے، وہ خوش ؛ جو ہیو ناٹ کو دیکھے، وہ دُکھی۔ خوشی کا انحصار ہمارے سوچنے کے انداز میں میں ہے۔ خوشی کا یہ فارمولا کوئی نیا نہیں بلکہ چودہ سو سال پہلے حضرت علی رضی اللہ عنہ نے دیا تھا ۔فرمایا: خوش رہنے کے دو طریقے ہیں :
جو پسند ہے، اُسے حاصل کر لو ۔
جو حاصل ہے، اُسے پسند کر لو۔
یعنی ہیوز کے ساتھ دوستی کر لو اُن کے ساتھ ملتے جلتے رہا کرو۔ یا پھر جو ہیو ناٹ ہیں ، اُن کو حاصل کرنے کی کوشش کرو۔
خوشی کا پودا ہیوز کے بیچ میں پوشیدہ ہے
اِسی طرح کی بات حضرت واصف علی واصف رحمتہ اللہ علیہ نے کی۔ جب کسی نے اُن سے سوال کیا : خوشی کیا ہے اور غم کیا ہے؟ فرمایا: "اپنی مرضی اور اللہ کی مرضی میں فرق کا نام غم ہے ۔"
یعنی جو چیزیں،صلاحیتیں ،خو بیاں۔۔۔ ؛ اللہ نے دی ہیں۔ یہ اللہ کی مرضی ہے۔اس کو اپنی مرضی بنا لیں۔ ان ہیوز کو قبول کرلیں تو خوشی ہی خوشی ہے ۔
آج کے اِس مادی دور میں ہر شخص پریشان ہے کیونکہ اس کی ساری توجہ ہیوناٹ پر ہے۔ صنعتی انقلاب کے بعد،اشیاء کی بھر مار نے انسان کے لالچ کو بڑھا دیا ہے اور اس کے ہیوناٹ کے احساس کی شدت کو کئی گناہ بڑھا دیا ہے۔ اس لئے وہ انگزاہیٹی کا شکار ہے جبکہ ماضی میں یہ احساس اتنا شدید نہیں تھا اور انسان کافی حد تک خوش رہتا تھا۔
ایک دفعہ ایک بادشاہ بیمار ہو گیا۔ شاہی حکیموں سے علاج کروایا، دوسری سلطنتوں کے حکماء سے علاج کروایا مگر بیماری نہ گئی۔ کسی دانشور نے مشورہ دیا کہ اِس کو اُس شخص کی قمیض پہناؤ جس کو کوئی دکھ نہ ہو، بلکہ خوش ہو ۔بادشاہ کو مشورہ پسند آیا ۔ فورا وزیراعظم سے قمیض مانگ لی ۔ وزیر بولا: جہاں پناہ! میری زندگی میں تو پریشانی ہی پریشانی ہے۔ خوشی کا منہ دیکھے تو سالوں ہو گئے۔ بادشاہ نے سلطنت کے امیر ترین شخص سے رابطہ کیا۔ اس سے بھی یہی جواب ملا۔ بادشاہ نے ڈنکا بجا دیا کہ پوری سلطنت میں پھیل جاؤ اور اس آدمی کی قمیض لا کر دو جس کو کوئی پریشانی نہ ہو ۔ بادشاہ کے کارندے ساری سلطنت میں پھیل گئے۔ ہر خاص و عام سے ایک ہی سوال کرتے کہ تمہیں کوئی دکھ تکلیف تو نہیں؟ ہر ایک سے یہی جواب ملتا کہ میں تو دکھی ہو، میں پریشان ہوں۔ ڈھونڈ تے ڈھونڈتے کھیتوں میں ہل چلاتے ایک کسان مل گیا ۔ بادشاہ کے کارندوں نے اس سے سوال کیا: تمہیں کوئی دکھ تو نہیں ہے؟ وہ بولا: "نہیں، میں تو خوش ہوں" ۔بندے خوش ہو گئے کہ وہ شخص مل ہی گیا جس کی تلاش تھی ۔ وہ فورا سے پہلے بادشاہ کے پاس پہنچے اور اُس کو خوشی کی خبر سنائی کہ ایسا شخص مل گیا ہے، جسے کوئی دکھ نہیں۔ بادشاہ بولا: "فوراً اُسکی قمیض لاؤ "۔ کارندے پلک جھپکتے اُس کے پاس پہنچے اور کہا: اپنی قمیض ہمیں دے دو۔ بادشاہ نے منگوائی ہے ۔ وہ بولا: کونسی قمیض ؟ میرے پاس تو قمیض ہی نہیں ہے ۔
جس شخص کو بنیادی ضرورت کی چیز "قمیض" کی پرواہ نہیں تو دوسری غیر ضروری اشیاء کی کہاں ہوگی؟ اُسکو ہیو ناٹ کا مسئلہ ہی نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ خوش نکلا۔
خوشی کا پودا ہیوز کے بیچ میں پوشیدہ ہے! غم کا ناسور ہیو ناٹ سے بہتا ہے!
ہیو ناٹ پر غالب کا شعر ہے:
ہے کہاں تمنا کا دوسرا قدم یارب
ہم نے دشتِ امکاں کو نقشِ پا پایا
I enjoyed this post, thanks for sharing.
ReplyDelete