ُایک تصویر،ایک کہانی، ایک خیال ٕEpisode-8
ُایک تصویر،ایک کہانی، ایک خیال
ٕEpisode-8
ایک تصویر
ہاتھ، ہاتھ جوڑے بادشاہ کے حضور پیش ہوا ۔ بادشاہ بولا: تو قلم پر دن رات ظلم کرتا ہے، سیاہی کو در بدر کر دیا ہے اور کاغذ کو بد صورت کر دیا ہے؟ تم نے سب کے ساتھ ہی ہاتھ کر دیا ہے اور آب ہاتھ جوڑے معصوم بن کر کھڑے ہو؟ ہاتھ بولا : آپ کا اقبال بلند ہو! میں تو گوشت، ہڈی اور خون ہوں۔ کبھی گوشت نے بھی کسی پر ظلم کیا ہے؟ وہ تو سب کے ظلم سہتا ہے، کٹتا ہی رہتا ہے ۔ کبھی ہڈی بھی کسی کو تکلیف دیتی ہے ،وہ تو خود ٹوٹتی رہتی ہے، خوراک بنتی ہے اور بیچارا خون کیسے ظالم ہو سکتا ہے؟ یہ تو دوسروں کے ظلم سہ کر خون کے آنسو روتا ہے۔ میں تو گاڑی ہوں۔ گُھماتا پھراتا ہوں۔ میرا ڈرائیور طاقت ہے، میں اس کی سواری ہوں۔ سوار مجھے جدہر چلاتا ہے ،میں اُدھر چل پڑتا ہوں۔ وقت ظالم ہے! میں طاقت کے بغیر ہل نہیں سکتا۔ بادشاہ کنفیوژ ہوگیا اور اس کا غصہ آسمان سے باتیں کرنے لگا اور فوراً طاقت کو بلا بھیجا
۔ طاقت حاضر ہوئی۔ پوچھا: تم ہاتھ سے خدمت لیتی ہوں اور اسے اِدھر اُدھر گھماتی پھرتی ہو۔ طاقت بولی: جہاں پناہ ! مجھے ملامت مت کیجیے۔ میں بالکل بے قصور ہوں۔ میں تو خواب خرگوش سو رہی تھی۔ خود ہلتی تھی نہ دوسروں کو ہلاتی تھی۔ دماغ سے حکم آتا ہے اور مجھے جگاکر کام کرنے کو کہا جاتا ہے ۔ سارا قصور دماغ کا ہے! بادشاہ کی بیچینی اضطراب میں بدل گئی۔ غصہ سے اس کی آنکھیں سرخ ہوگئیں۔ حکم صادر کیا کہ ایک لمحہ ضائع کئے بغیر دماغ کو زنجیروں میں جکڑ کر پیش کیا جائے۔ دماغ کو لایا گیا ۔ بادشاہ سیدھا ہو کر بیٹھ گیا اور بولا: اے دماغ! تمہارا دماغ تو نہیں چل گیا؟ تم ہاتھ سے مشقت لیتے ہو۔ دماغ بولا: سلطانِ معّظم! میں تو اپنے سپنوں میں گُم تھا کہ دل نے علم کا قصد، عقل کی زبانی میرے پاس بھیجا اور پیام دیا کہ طاقت کو اُٹھا دے۔ میں نے مجبوراََ طاقت کو حرکت دینے کے لئے برقی توانائی بھیجی۔ میں دل کا تابع فرمان ہوں ۔ دل کے دل میں جو آتا ہے مجھے عقل کے ذریعے بتا دیتا ہے اور میں فرمانبرداری پر مجبور ہوں ۔ میرا دل صد چاک ہے، دل آزاری پر خود دلسوز ہوں۔ سارا قصور دل کا ہے ۔ دیکھو! دل خود بھی ہر وقت پُھدکتا رہتا ہے اور مجھ سے بھی کچھ نہ کچھ کرواتا رہتا ہے ۔اب دل کی باری تھی۔ دل کو بلایا گیا ۔بادشاہ اس مسئلہ میں اُلجھ کر رہ گیا۔ اس کی عجیب کیفیت ہورہی تھی۔ دل حاضر ہوگیا۔ بادشاہ نے کہا: تم دماغ پر حکم چلاتے ہو ؟ دل بولا :میں ایک مٹھی ہوں جو کسی کی مٹھی میں ہے۔ میں ایک تختی ہوں ؛ علم کا نقش اس تختی پر عقل کے چراغ روشن ہونے کے بعد منقوش ہوا۔ بہت دنوں یہ تختی بغیر نقش کے پڑی رہی۔ جس نے اس پر نقش کیا، اُس سے پوچھو۔بادشاہ نے سر پکڑ لیا۔ اس کے دماغ کی دہی بن گئی مگر اس نے ہمت کی اور حکم جاری کیا کہ آج کے بعد کوئی بھی کاغذ کو کالا نہیں کرے گا۔ ساتھ ہی بولا: تخلیہ ! سب اپنے اپنے گھروں کو لوٹ گئے۔
کاغذ بہت خوش تھا کہ آج کے بعد سفید، نرم ملائم اور صاف ستھرا رہے گا کیونکہ کاغذ پر لکھنے کی پابندی کا حکم نامہ جاری ہوچکا تھا۔ مگر کاغذ کی خوشی، کاغذی نکلی۔ کاغذ کی قیمت گر گئ۔ لوگوں نے کاغذ کے جہاز بنا کر اُڑا نے شروع کردیے؛ ناؤ بنا کر پانی میں بہانا شروع کردیا؛ کسی نے پکوڑے ڈالے تو کسی نے سموسے، جلیبیاں؛ لفافے دھڑا دھڑ بننے لگے ؛ لوگوں نے الماریوں میں کاغذ بچھانے شروع کردیے؛ کاغذ سے گاڑیوں کے شیشے صاف ہونے لگے ۔ جو بھی استعمال ہوتا کاغذ نہ صرف گندہ ہوتا بلکہ پھٹ جاتا،زخمی ہوکر اس کے پُرزے پُرزے ہوجاتے اور گزرگاہوں پر بکھر جاتے، لوگ اُوپر پاؤں رکھتے یہ مرجاتا بالآخر کوڑے دان میں دفن ہو جاتا۔ کاغذ اس درد ناک، بھیانک اور ذلت آمیز زندگی سے تنگ آگیا اور اس نے دوبارہ زنجیرِعدل بجا دی۔ بادشاہ کے حضور پیش کیا گیا۔ بادشاہ نے کہا: سناؤ! آب پھر تو کسی نے تمہارے اوپر لکیریں اور نقطے وغیرہ تو نہیں بنا دیے ؟ کاغذ رونے لگ پڑا اور ہاتھ جوڑ کر فریاد کی کہ بادشاہ سلامت ! اپنا حکم نامہ واپس لے لیں۔ میں نادان تھا میں جن کو دھبےّ سمجھ رہا تھا، وہ نقش و نگار تھے؛ میں جن کو لکیریں سمجھ رہا تھا وہ میری رگِ جان تھیں؛ میں جن کو سیاہ نقطے سمجھ رہا تھا وہ ہیرے تھے؛ میرے اوپر سیاہی نہیں “روشنائی” تھی جس سے میری زندگی میں روشنی تھی۔ جہاں پناہ! روشنائی کو کہیں، میرے اوپر نقش و نگار بنائے، شاعروں کی غزلیں لکھے، دانشوروں کی حکمت لکھے، سائنسدانوں کی تھیوریّاں لکھے تاکہ ہم بہن بھائی مل کر اکٹھے رہیں اور ہمارا خاندان کتاب بن جائے۔ لوگ ہمیں عزت دیں ،ہماری صحت اچھی ہو، عمر لمبی ہو ، الماریوں کی زینت بنیں اور لوگ ہمیں گود میں رکھ کر پیار سے اپنی نظروں کی مٹھاس ڈالیں۔ قلم کو کہیں، ربُ العالمین کی باتیں لکھے تاکہ لوگ خوبصورت غلافوں میں رکھیں، پاک صاف ہو کر ہاتھ لگائیں، خوشبو لگائیں، چومیں اور بلند جگہ پر رکھیں ۔ بادشاہ سلامت ! میں اپنی پیدائش کا اصل مقصد بھول گیا تھا۔ خطا کار کی خطا معاف کر دیں۔ اپنا حکم نامہ واپس لے لیں
ایک خیال
چین میں "حان خاندان" کے ایک بادشاہ "ہوتی" کے دور میں ایک سرکاری ملازم سائی لون نے ایک سو پانچ عیسوی میں کاغذ کو بنایا۔ اس میں پرانے کپڑوں اور شہثوث کے ریشے(دھاگے) استعمال کئے۔اس سے پہلے جانوروں کی ہڈیوں،کچھوے کے خول اور بانس وغیرہ پر لکھا جاتا تھا۔ یہ اشیاء بہت وزنی تھیں ۔ان پر لکھنا اور بعد میں ان کو سنبھالنا بہت مشکل کام تھا۔ سائ لون کے کاغذ پر لکھائی اور اس کو سنبھالنے کا عمل بہت آسان ہوگیا۔ اس کی ایجاد کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ اس پر لکھا جائے ۔ کاغذ جب اپنے بنیادی مقصد کے علاوہ دوسرے مقاصد کے لئے استعمال ہوا ،تو بدحالی کا شکار ہوگیا اور اُسے جلد احساس ہو گیا کہ جب وہ اپنے بنیادی مقصد کو پورا کر رہا تھا ، تو وہ کتنا خوشحال تھا۔ عزت مقام اور مرتبہ سبھی کچھ حاصل تھا۔
اسی طرح ہر چیز کی پیدائش کا کوئی نہ کوئی مقصد ہوتا ہے۔ جب تک وہ مقصد پورا کرتی رہتی ہے، اس کی قدر اور عزت ہوتی ہے۔ جب وہ مقصد پورا نہ کرے تو وہ بے کار ہے اور کّچرا ہے۔
دیکھیں! گھر میں گھڑی ہوتی ہے۔ اس کا مقصد ہے کہ وقت بتائے، اگر وہ خراب ہو جائے تو ہم اسے اٹھا کر باہر پھینک دیتے ہیں۔ بلب کا مقصد ہے کہ روشنی دے جب وہ فیوز ہو جائے تو ہم اس کو بدل دیتے ہیں۔ فرج کا مقصد ہے کہ وہ پانی اور اشیا کو ٹھنڈا کرے۔ اگر وہ ٹھنڈک نہ پہنچائے تو ٹھیک کرواتے ہیں ۔اگر ٹھیک ہونے کے قابل نہ ہو تو نیا خرید لاتے ہیں۔اگر ہر چیز کا مقصد ہے، تو کیا انسان بے مقصد پیدا کیا گیا ہے ؟ " کیا تم نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ ہم نے تمہیں بے مقصد پیدا کیا ہے ؟" ہر آدمی کے اندر کسی نہ کسی کام کرنے کی مہارت "اِن بلٹ" ہوتی ہے. ہر آدمی کی بقا اور فلاح اسی میں ہے کہ اسے ادراک ہو جائے کہ اسں میں کس کام کی صلاحیت موجود ہے اور پھر وہ اس کام کو احسن طریقے سے کرے۔ اس طرح نہ صرف وہ مطمئن ہوجاتا ہے بلکہ عزت اور مرتبہ بھی پاتا ہے۔ امام مالک رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں: "انسان کے دو جنم ہوتے ہیں ،ایک جس دن وہ پیدا ہوتا ہے اور دوسرا جس دن اس کو اپنی پیدائش کے مقصد کا پتہ چلتا ہے۔"
ریسرچ کے مطابق اٹھانوے فیصد لوگ ،اپنے "ٹیلنٹ" کو فالوو نہیں کرتے بلکہ "ٹرینڈ" کے پیچھے دوڑتے ہیں اور نتیجتاً اپنے کام سے مطمعن نہیں ہوتے اور نہ ہی کوئی قابل ذکر کامیابی حاصل کر پاتے ہیں۔ کامیابی کی ماڈرن تعریف ہے کہ جس پروفیشن میں آپ ہیں، اس میں کتنے متمعن ہیں۔
مچھلی تیرنے کے لئے بنی ہے اور پرندہ اڑنے کے لئے۔ اگر پرندہ تیرنے لگے تو کیا تیر مار لے گا، سواے ڈبکیاں لینے کے! ہم بھی لوگوں کی بھیڑ چال میں ٹرینڈ کو دیکھ کر کوئی کام شروع کر دیتے ہیں جس کا شوق اور صلاحیت نہیں ہوتی اور ساری زندگی ڈبکیاں لیتے رہتے ہیں۔غالب کہتا ہے : خوش قسمت ہیں وہ لوگ جن کا شوق اور پیشہ ایک ہوتا ہے" یعنی "پیشن اور پروفیشن" ایک ہوتا ہے۔ کہانی میں کاغذ کو اپنی پیدائش کے مقصد کا علم نہیں ہوتا، اس لیے کجھل خوار ہوتا ہے ۔ مگر خوش قسمتی سے اُسے اپنی پیدائش کے مقصد کا جلد ادراک ہو جاتا ہے ۔ اور بغیر انّا کا مسلہ بنائے زنجیر عدل ہلا دیتا ہے اور اپنی کوتاہی کو مان لیتا ہے۔اور نئے سرے سے اپنے مقصد کے مطابق زندگی شروع کردیتا ہے۔انگلش کی کہاوت ہے:" اٹ از نیور لیٹ ٹو مینڈ۔" ہمیں بھی آج ہی زنجیر عدل کو ہلانا ہو گا تاکہ
اطمینان قلب اور ترقی کے ثمرات پا سکیں۔
ٕEpisode-8
ایک تصویر
ایک کہانی
کاغذ نے زنجیر عدل ہلائی۔ گھنٹیوں کی جھنکار اٹھی۔ بادشاہ نے اُسے دربار میں بلا لیا۔ بادشاہ نے گرج دار آواز میں پوچھا: آچھا بتاؤ، تمہارے ساتھ کس نے زیادتی کی؟ کاغذ بولا ظلِّ سبحانی! میرا رنگ سفید اور جلد صاف شفاف اور ملائم تھی۔ سیاہی نے مجھے کالا کر دیا۔ میرے اوپر بے ڈھبی لکیریں اور نقطے ڈال دیئے ۔ میرا حلیہ بگاڑ دیا ہے۔ میرا منہ چیچک زدہ ہوگیا ہے، میں کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہا ۔ بادشاہ نے حکم دیا کہ سیاہی کو فورا حاضر کیا جائے ۔سیاہی کو بلایا گیا۔ سیاہی کو دیکھتے ہی بادشاہ جلال میں آگیا اور کاغذ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے پوچھا :اس کا تم نے حلّیہ بگاڑ دیا ہے ، کیوں؟ سیاہی بولی :بادشاہ سلامت! میں تو چپ چاپ اپنے گھر دوات میں اپنے خاندان کے ہمراہ رہ رہی تھی ۔ میں اپنی چھوٹی سی دنیا میں خوش تھی مگر قلم نے مجھ پر زیادتی کی اور مجھے گھر سے بے گھر کر دیا اور سارے صفحے پر پھیلا دیا، میری جمعیت کو تتّر بتّر کر دیا ۔بادشاہ غصے میں آ گیا اور حکم دیا: قلم کو فوراً سے پہلے دربار میں پیش کیا جائے ۔ قلم کو دربار لایا گیا۔ بادشاہ کی آنکھوں میں وحشت دیکھ کر قلم سہم گیا۔ بادشاہ چلایا :تمہاری یہ جرات کہ تم نے سیاہی کو بے گھر کر دیا ۔ قلم نے تھوک نگلی اور ہمت باندھ کر بولا: شاہِ آعظم !آپ کا قلم جاری رہے(حکومت قائم رہے) میں تو نہروں کے کنارے ہرے بھرے درختوں میں خوش وخرم رہ رہا تھا ۔ ہاتھ ، اچانک کلہاڑی اور چاقو لے کر وہاں پہنچا ۔ مجھے جڑ سے اُکھاڑ پھینکا، میرے ہاتھ پاؤں کاٹ دیے ، پھر میری کھال چھیل ڈالی۔ میرے کپڑے اتار کر مجھے ننگا کر کے میری پوریاں جدا کیں۔ پھر مجھے چاقو سے تراشا ،سر چیرہ، قسط لگایا اور دوات میں ڈبو دیا ۔ اب ہاتھ ،دن رات مجھے گردن سے پکڑ تا ہے اور مجھے سر کے بل چلاتا ہے ۔ سارا قصور ہاتھ کا ہے ! بادشاہ غصہ سے تھرتھرانے لگا اور کہا کہ ہاتھ کو ہاتھ پر (فوراً) پیش کیا جائے۔ہاتھ، ہاتھ جوڑے بادشاہ کے حضور پیش ہوا ۔ بادشاہ بولا: تو قلم پر دن رات ظلم کرتا ہے، سیاہی کو در بدر کر دیا ہے اور کاغذ کو بد صورت کر دیا ہے؟ تم نے سب کے ساتھ ہی ہاتھ کر دیا ہے اور آب ہاتھ جوڑے معصوم بن کر کھڑے ہو؟ ہاتھ بولا : آپ کا اقبال بلند ہو! میں تو گوشت، ہڈی اور خون ہوں۔ کبھی گوشت نے بھی کسی پر ظلم کیا ہے؟ وہ تو سب کے ظلم سہتا ہے، کٹتا ہی رہتا ہے ۔ کبھی ہڈی بھی کسی کو تکلیف دیتی ہے ،وہ تو خود ٹوٹتی رہتی ہے، خوراک بنتی ہے اور بیچارا خون کیسے ظالم ہو سکتا ہے؟ یہ تو دوسروں کے ظلم سہ کر خون کے آنسو روتا ہے۔ میں تو گاڑی ہوں۔ گُھماتا پھراتا ہوں۔ میرا ڈرائیور طاقت ہے، میں اس کی سواری ہوں۔ سوار مجھے جدہر چلاتا ہے ،میں اُدھر چل پڑتا ہوں۔ وقت ظالم ہے! میں طاقت کے بغیر ہل نہیں سکتا۔ بادشاہ کنفیوژ ہوگیا اور اس کا غصہ آسمان سے باتیں کرنے لگا اور فوراً طاقت کو بلا بھیجا
۔ طاقت حاضر ہوئی۔ پوچھا: تم ہاتھ سے خدمت لیتی ہوں اور اسے اِدھر اُدھر گھماتی پھرتی ہو۔ طاقت بولی: جہاں پناہ ! مجھے ملامت مت کیجیے۔ میں بالکل بے قصور ہوں۔ میں تو خواب خرگوش سو رہی تھی۔ خود ہلتی تھی نہ دوسروں کو ہلاتی تھی۔ دماغ سے حکم آتا ہے اور مجھے جگاکر کام کرنے کو کہا جاتا ہے ۔ سارا قصور دماغ کا ہے! بادشاہ کی بیچینی اضطراب میں بدل گئی۔ غصہ سے اس کی آنکھیں سرخ ہوگئیں۔ حکم صادر کیا کہ ایک لمحہ ضائع کئے بغیر دماغ کو زنجیروں میں جکڑ کر پیش کیا جائے۔ دماغ کو لایا گیا ۔ بادشاہ سیدھا ہو کر بیٹھ گیا اور بولا: اے دماغ! تمہارا دماغ تو نہیں چل گیا؟ تم ہاتھ سے مشقت لیتے ہو۔ دماغ بولا: سلطانِ معّظم! میں تو اپنے سپنوں میں گُم تھا کہ دل نے علم کا قصد، عقل کی زبانی میرے پاس بھیجا اور پیام دیا کہ طاقت کو اُٹھا دے۔ میں نے مجبوراََ طاقت کو حرکت دینے کے لئے برقی توانائی بھیجی۔ میں دل کا تابع فرمان ہوں ۔ دل کے دل میں جو آتا ہے مجھے عقل کے ذریعے بتا دیتا ہے اور میں فرمانبرداری پر مجبور ہوں ۔ میرا دل صد چاک ہے، دل آزاری پر خود دلسوز ہوں۔ سارا قصور دل کا ہے ۔ دیکھو! دل خود بھی ہر وقت پُھدکتا رہتا ہے اور مجھ سے بھی کچھ نہ کچھ کرواتا رہتا ہے ۔اب دل کی باری تھی۔ دل کو بلایا گیا ۔بادشاہ اس مسئلہ میں اُلجھ کر رہ گیا۔ اس کی عجیب کیفیت ہورہی تھی۔ دل حاضر ہوگیا۔ بادشاہ نے کہا: تم دماغ پر حکم چلاتے ہو ؟ دل بولا :میں ایک مٹھی ہوں جو کسی کی مٹھی میں ہے۔ میں ایک تختی ہوں ؛ علم کا نقش اس تختی پر عقل کے چراغ روشن ہونے کے بعد منقوش ہوا۔ بہت دنوں یہ تختی بغیر نقش کے پڑی رہی۔ جس نے اس پر نقش کیا، اُس سے پوچھو۔بادشاہ نے سر پکڑ لیا۔ اس کے دماغ کی دہی بن گئی مگر اس نے ہمت کی اور حکم جاری کیا کہ آج کے بعد کوئی بھی کاغذ کو کالا نہیں کرے گا۔ ساتھ ہی بولا: تخلیہ ! سب اپنے اپنے گھروں کو لوٹ گئے۔
کاغذ بہت خوش تھا کہ آج کے بعد سفید، نرم ملائم اور صاف ستھرا رہے گا کیونکہ کاغذ پر لکھنے کی پابندی کا حکم نامہ جاری ہوچکا تھا۔ مگر کاغذ کی خوشی، کاغذی نکلی۔ کاغذ کی قیمت گر گئ۔ لوگوں نے کاغذ کے جہاز بنا کر اُڑا نے شروع کردیے؛ ناؤ بنا کر پانی میں بہانا شروع کردیا؛ کسی نے پکوڑے ڈالے تو کسی نے سموسے، جلیبیاں؛ لفافے دھڑا دھڑ بننے لگے ؛ لوگوں نے الماریوں میں کاغذ بچھانے شروع کردیے؛ کاغذ سے گاڑیوں کے شیشے صاف ہونے لگے ۔ جو بھی استعمال ہوتا کاغذ نہ صرف گندہ ہوتا بلکہ پھٹ جاتا،زخمی ہوکر اس کے پُرزے پُرزے ہوجاتے اور گزرگاہوں پر بکھر جاتے، لوگ اُوپر پاؤں رکھتے یہ مرجاتا بالآخر کوڑے دان میں دفن ہو جاتا۔ کاغذ اس درد ناک، بھیانک اور ذلت آمیز زندگی سے تنگ آگیا اور اس نے دوبارہ زنجیرِعدل بجا دی۔ بادشاہ کے حضور پیش کیا گیا۔ بادشاہ نے کہا: سناؤ! آب پھر تو کسی نے تمہارے اوپر لکیریں اور نقطے وغیرہ تو نہیں بنا دیے ؟ کاغذ رونے لگ پڑا اور ہاتھ جوڑ کر فریاد کی کہ بادشاہ سلامت ! اپنا حکم نامہ واپس لے لیں۔ میں نادان تھا میں جن کو دھبےّ سمجھ رہا تھا، وہ نقش و نگار تھے؛ میں جن کو لکیریں سمجھ رہا تھا وہ میری رگِ جان تھیں؛ میں جن کو سیاہ نقطے سمجھ رہا تھا وہ ہیرے تھے؛ میرے اوپر سیاہی نہیں “روشنائی” تھی جس سے میری زندگی میں روشنی تھی۔ جہاں پناہ! روشنائی کو کہیں، میرے اوپر نقش و نگار بنائے، شاعروں کی غزلیں لکھے، دانشوروں کی حکمت لکھے، سائنسدانوں کی تھیوریّاں لکھے تاکہ ہم بہن بھائی مل کر اکٹھے رہیں اور ہمارا خاندان کتاب بن جائے۔ لوگ ہمیں عزت دیں ،ہماری صحت اچھی ہو، عمر لمبی ہو ، الماریوں کی زینت بنیں اور لوگ ہمیں گود میں رکھ کر پیار سے اپنی نظروں کی مٹھاس ڈالیں۔ قلم کو کہیں، ربُ العالمین کی باتیں لکھے تاکہ لوگ خوبصورت غلافوں میں رکھیں، پاک صاف ہو کر ہاتھ لگائیں، خوشبو لگائیں، چومیں اور بلند جگہ پر رکھیں ۔ بادشاہ سلامت ! میں اپنی پیدائش کا اصل مقصد بھول گیا تھا۔ خطا کار کی خطا معاف کر دیں۔ اپنا حکم نامہ واپس لے لیں
ایک خیال
چین میں "حان خاندان" کے ایک بادشاہ "ہوتی" کے دور میں ایک سرکاری ملازم سائی لون نے ایک سو پانچ عیسوی میں کاغذ کو بنایا۔ اس میں پرانے کپڑوں اور شہثوث کے ریشے(دھاگے) استعمال کئے۔اس سے پہلے جانوروں کی ہڈیوں،کچھوے کے خول اور بانس وغیرہ پر لکھا جاتا تھا۔ یہ اشیاء بہت وزنی تھیں ۔ان پر لکھنا اور بعد میں ان کو سنبھالنا بہت مشکل کام تھا۔ سائ لون کے کاغذ پر لکھائی اور اس کو سنبھالنے کا عمل بہت آسان ہوگیا۔ اس کی ایجاد کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ اس پر لکھا جائے ۔ کاغذ جب اپنے بنیادی مقصد کے علاوہ دوسرے مقاصد کے لئے استعمال ہوا ،تو بدحالی کا شکار ہوگیا اور اُسے جلد احساس ہو گیا کہ جب وہ اپنے بنیادی مقصد کو پورا کر رہا تھا ، تو وہ کتنا خوشحال تھا۔ عزت مقام اور مرتبہ سبھی کچھ حاصل تھا۔
اسی طرح ہر چیز کی پیدائش کا کوئی نہ کوئی مقصد ہوتا ہے۔ جب تک وہ مقصد پورا کرتی رہتی ہے، اس کی قدر اور عزت ہوتی ہے۔ جب وہ مقصد پورا نہ کرے تو وہ بے کار ہے اور کّچرا ہے۔
دیکھیں! گھر میں گھڑی ہوتی ہے۔ اس کا مقصد ہے کہ وقت بتائے، اگر وہ خراب ہو جائے تو ہم اسے اٹھا کر باہر پھینک دیتے ہیں۔ بلب کا مقصد ہے کہ روشنی دے جب وہ فیوز ہو جائے تو ہم اس کو بدل دیتے ہیں۔ فرج کا مقصد ہے کہ وہ پانی اور اشیا کو ٹھنڈا کرے۔ اگر وہ ٹھنڈک نہ پہنچائے تو ٹھیک کرواتے ہیں ۔اگر ٹھیک ہونے کے قابل نہ ہو تو نیا خرید لاتے ہیں۔اگر ہر چیز کا مقصد ہے، تو کیا انسان بے مقصد پیدا کیا گیا ہے ؟ " کیا تم نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ ہم نے تمہیں بے مقصد پیدا کیا ہے ؟" ہر آدمی کے اندر کسی نہ کسی کام کرنے کی مہارت "اِن بلٹ" ہوتی ہے. ہر آدمی کی بقا اور فلاح اسی میں ہے کہ اسے ادراک ہو جائے کہ اسں میں کس کام کی صلاحیت موجود ہے اور پھر وہ اس کام کو احسن طریقے سے کرے۔ اس طرح نہ صرف وہ مطمئن ہوجاتا ہے بلکہ عزت اور مرتبہ بھی پاتا ہے۔ امام مالک رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں: "انسان کے دو جنم ہوتے ہیں ،ایک جس دن وہ پیدا ہوتا ہے اور دوسرا جس دن اس کو اپنی پیدائش کے مقصد کا پتہ چلتا ہے۔"
ریسرچ کے مطابق اٹھانوے فیصد لوگ ،اپنے "ٹیلنٹ" کو فالوو نہیں کرتے بلکہ "ٹرینڈ" کے پیچھے دوڑتے ہیں اور نتیجتاً اپنے کام سے مطمعن نہیں ہوتے اور نہ ہی کوئی قابل ذکر کامیابی حاصل کر پاتے ہیں۔ کامیابی کی ماڈرن تعریف ہے کہ جس پروفیشن میں آپ ہیں، اس میں کتنے متمعن ہیں۔
مچھلی تیرنے کے لئے بنی ہے اور پرندہ اڑنے کے لئے۔ اگر پرندہ تیرنے لگے تو کیا تیر مار لے گا، سواے ڈبکیاں لینے کے! ہم بھی لوگوں کی بھیڑ چال میں ٹرینڈ کو دیکھ کر کوئی کام شروع کر دیتے ہیں جس کا شوق اور صلاحیت نہیں ہوتی اور ساری زندگی ڈبکیاں لیتے رہتے ہیں۔غالب کہتا ہے : خوش قسمت ہیں وہ لوگ جن کا شوق اور پیشہ ایک ہوتا ہے" یعنی "پیشن اور پروفیشن" ایک ہوتا ہے۔ کہانی میں کاغذ کو اپنی پیدائش کے مقصد کا علم نہیں ہوتا، اس لیے کجھل خوار ہوتا ہے ۔ مگر خوش قسمتی سے اُسے اپنی پیدائش کے مقصد کا جلد ادراک ہو جاتا ہے ۔ اور بغیر انّا کا مسلہ بنائے زنجیر عدل ہلا دیتا ہے اور اپنی کوتاہی کو مان لیتا ہے۔اور نئے سرے سے اپنے مقصد کے مطابق زندگی شروع کردیتا ہے۔انگلش کی کہاوت ہے:" اٹ از نیور لیٹ ٹو مینڈ۔" ہمیں بھی آج ہی زنجیر عدل کو ہلانا ہو گا تاکہ
اطمینان قلب اور ترقی کے ثمرات پا سکیں۔
sir conclusion is superb
ReplyDeletethanks dear
DeleteSuperb
ReplyDeletethanks dear
DeleteAwesome and thought provoking story
ReplyDelete_*مسئلوں کو ہینڈل کرنا سیکھیں آپ کی زندگی بدل جائے گی۔*_
ReplyDeleteسندر پچائی کھانا کھا رہے تھے‘ اچانک ایک کاکروچ آیا‘ اڑا اور اڑ کر ایک خوبصورت خاتون کے کوٹ پر بیٹھ گیا۔
خاتون نے اچھل کر چیخنا شروع کر دیا‘ ریستوران میں پینک ہو گیا‘ کاکروچ بھی پینک میں آگیا‘ وہ اس خاتون کے کوٹ سے اڑا اور دوسری خاتون کے کندھے پر بیٹھ گیا‘ دوسری خاتون بھی اٹھ کر کودنے اور چیخنے لگی‘ پورے ریستوران میں ہنگامہ ہو گیا‘ لوگوں میں خوف و ہراس پھیل گیا‘ ایک ویٹر یہ منظر دیکھ رہا تھا‘ وہ دوڑ کر خواتین کی مدد کے لیے آیا‘ وہ قریب پہنچا تو کاکروچ نے ایک اور فلائیٹ لی اور وہ سیدھا ویٹر کی جیب پر آ کر بیٹھ گیا‘ سندر پچائی یہ سارا منظر دیکھ رہے تھے۔
انہوں نے کھانا چھوڑا اور اپنی ساری توجہ ویٹر‘ کاکروچ اور چیختی ہوئی خواتین پر لگا دی‘ سندر پچائی نے دیکھا کاکروچ جونہی ویٹر کی جیب پر بیٹھا‘ ویٹر نے سب سے پہلے ٹیڑھی آنکھ سے کاکروچ کے ”بی ہیویئر“ کا جائزہ لیا‘ ساکت کھڑے کھڑے جیب سے ٹشو پیپر نکالا‘ ٹشو کے ساتھ کاکروچ پکڑا اور اسے لے کر ریستوران سے باہر نکل گیا‘ سندر پچائی نے اس واقعے اور اس ویٹر سے اپنی زندگی کا شان دار ترین سبق سیکھا‘ ان کا کہنا تھا‘ میں نے دیکھا کاکروچ خواتین اور ویٹر دونوں کے لیے ایک تھا بس دونوں کا کاکروچ سے ڈیل کرنے کا طریقہ مختلف تھا۔
خواتین نے اچھلنا‘ کودنا اور چیخنا شروع کر دیا تھا جب کہ ویٹر نے چیخنے چلانے کے بجائے کاکروچ پکڑا اور باہر پھینک دیا‘ میں نے دونوں کے رویوں کا جائزہ لیا تو پتا چلا خواتین نے کاکروچ دیکھ کر ری ایکٹ کرنا شروع کر دیا تھا جب کہ ویٹر نے کاکروچ کو ریسپانڈ کیا تھا۔سندر پچائی نے کہا دنیا کے مسائل بھی کاکروچ کی طرح ہوتے ہیں‘ یہ سب کے لیے ایک جیسے ہوتے ہیں بس ہم میں سے کچھ لوگ ان پر ری ایکٹ کر کے ماحول میں تشویش پیدا کر دیتے ہیں جب کہ تھوڑے سے لوگ ریسپانڈ کر کے مسئلہ حل کر دیتے ہیں لہٰذا ہم اگر زندگی میں کام یاب ہونا چاہتے ہیں تو پھر ہمیں یہ ماننا ہوگا دنیا میں باس ایشو نہیں ہوتے۔
ام‘ ٹریفک‘ منہگائی‘ پلوشن‘ حکومتیں‘ ریاستوں کی پالیسیاں‘ ساس بہوئیں‘ داماد‘ بیویاں‘ بچے‘ ہمسائے اور نوکریاں بھی مسئلے نہیں ہیں‘ مسئلہ صرف یہ ہے ہم انہیں ہینڈل کیسے کرتے ہیں‘ ان پر ہمارا ریسپانس کیا ہوتا ہے‘ میں آپ کو یہاں ری ایکشن اور ریسپانس میں فرق بھی بتاتا چلوں‘ ری ایکشن اچانک اور منصوبہ بندی کے بغیر ہوتا ہے جبکہ ریسپانس سوچا‘ سمجھا اورحکمت کے ساتھ ہوتا ہے‘ کاکروچ کو دیکھ کر خواتین نے ری ایکٹ کیا تھا جب کہ ویٹر نے ریسپانڈ کیا تھاچناں چہ آپ زندگی میں ری ایکٹ نہ کیا کریں‘ ریسپانس کیا کریں‘ آپ کام یاب ہو جائیں گے۔
مسئلوں اور مشکلوں سے نہ گھبرائیں‘ یہ زندگی ہیں‘ اس پورے کرہ ارض پر صرف ایک جگہ ہے جہاں کوئی مشکل ہے اور نہ مسئلہ اور وہ جگہ ہے قبرستان‘ آپ قبرستان میں جا کر دیکھیں‘ بجلی‘ گیس‘ پٹرول اور پانی کتنا ہی منہگا کیوں نہ ہو جائے قبروں کو کوئی فرق نہیں پڑتا‘ گاڑیاں منہگی ہو جائیں‘ ٹریفک ڈبل یا ٹرپل ہو جائے‘ ٹیکس بڑھ جائیں‘ شہر کے سیوریج پائپ بلاک ہو جائیں یادھرنے شروع ہو جائیں قبروں اور مُردوں کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔
دنیا میں صرف یہ وہ جگہ ہے جہاں آپ کا کسی رشتے دار‘ کسی کولیگ اور کسی ہمسائے سے کوئی جھگڑا نہیں ہوتا‘ جہاں کوئی کسی کے ساتھ حسد نہیں کرتا‘ آپ زندہ ہیں تو لوگ آپ سے جیلس بھی ہوں گے‘ یہ آپ کو چیلنج بھی کریں گے‘ منہگائی بھی ہو گی‘ چوری بھی ہو گی اور آپ چوکوں میں لٹیں گے بھی‘ حکومتیں بھی بری آئیں گی‘ آپ کے گھر پر نوٹس بھی سرو کئے جائیں گے اور بجلی‘ گیس اور پٹرول بھی منہگاہو گا اور آپ کا نقصان بھی ہو گا‘ زندہ ہیں تو مسئلے بھی ہیں‘ زندہ ہیں تو مشکلیں بھی ہیں۔
مر جائیں گے تو مشکلیں بھی ختم اور مسئلے بھی غائب چناں چہ مسئلوں سے نہ گھبرائیں‘ ان پر ری ایکٹ بھی نہ کیا کریں‘آپ صرف انہیں ہینڈل کرنا سیکھیں‘ آپ انہیں حل کریں‘ آپ کی زندگی بدل جائے گی۔گی۔
🔹▬▬▬▬🌹🌹▬▬▬🔹
🔹▬▬▬▬🌹🌹▬▬▬🔹
GOOD SHARE
Delete