Episode-6 ایک تصویر، ایک کہانی، ایک خیال
ایک تصویر، ایک کہانی، ایک خیال
Episode-6
Episode-6
ایک کہانی
امریکہ کی ریاست نیو کارلینا میں ایک سیاہ فام جیمز رہتا تھا ۔وہ الیکٹرک پلانٹ میں سپروائزر تھا ۔اُس کی بیوی ڈ یلارس بینک میں ملازمت کرتی تھی۔ ان کے پانچ بچے تھے۔ دونوں میاں بیوی مل کر بھی گھر کا خرچہ چلانے میں قاصر تھے۔وہ جھونپڑی نما مکان میں رہتے تھے، جس کے دروازے ٹوٹے ہوئے اور چھت بوسیدہ تھی۔ غربت اور بدحالی نے ڈیرے ڈال رکھے تھے۔ جیمز اس صورت حال سے تنگ تھا مگر بے بس تھا ۔اب صرف یہ خواہش تھی کہ اس کے بچے زندگی میں ترقی کریں ۔
ایک دن جیمز نے اپنے بارہ سالہ ہونہار بیٹے مائیکل کو ایک پرانی ٹی شرٹ دکھاتے ہوئے کہا : "بتاؤ یہ کتنے کی ہو گی ؟" مائیکل جھٹ سے بولا:" ایک ڈالر کی"۔جیمز نے کہا: "بیٹا جاؤ اور اس کو دو ڈالر میں بیچ کر آؤ"۔ مائیکل نے شرٹ کو پکڑا، کچھ دیر سوچنے کے بعد اُس شرٹ کو اچھی طرح دھویا اور سوکھنے کے لئے دیوار پر ڈال دیا۔جب تقریبا خشک ہوگی تو اُس نے اُسے پریس کرنے کا سوچا۔ مگر گھر میں استری نہ تھی۔ اس نے شرٹ کو تہہ کیا اور دوسرے تہہ شدہ کپڑوں کے ڈھیر کے نیچے رکھ دیا۔ اگلے دن دیکھا تو وہ کپڑوں کے بوجھ سے پریس ہوگئی تھی۔ اُس نے اُسے اٹھایا اور سوچنے لگا کہ ایک ڈالر کی چیز کو دو ڈالر میں کیسے بیچا جائے؟ اس نے ارادہ کیا کہ بازار جاؤں مگر خیال آیا کہ وہاں تو ایک ڈالر کی نئ شرٹ مل جاتی ہے، دو ڈالر کی پرانی شرٹ کوئی کیوں خریدے گا ؟ وہ سوچنے لگا کہ کس جگہ پر اِس کی ویلیو بڑھ سکتی ہے؟ اچانک اُسے خیال آیا کہ اسٹیشن پر مسافروں کو جلدی ہوتی ہے اور وہ مہنگی چیز خرید لیتے ہیں ۔اس لیے وہاں یہ دو ڈالر میں بِک سکتی ہے چناچہ وہ اسٹیشن پر چلا گیا اور سات گھنٹے تک اُسے بیچنے کی کوشش کرتا رہا۔ اچانک ایک مسافر تیزی سے آیا اور اسٹیشن کے اندر داخل ہونے لگا ۔اس کی نظر شرٹ پر پڑی تو وہ رُک گیا اور بولا کہ کتنے کی دو گے؟ ماہیکل نے کہا:" دو ڈالر کی"۔اس نے دو ڈالر جیب سے نکالے اور دے دیۓ ۔مائیکل نے دو ڈالر لاکر والد کے ہاتھ پر رکھ
دیے۔والد نے کہا: ویل ڈن بواے!
کچھ دنوں کے بعد جیمز نے مائیکل کو ایک اور ٹی شرٹ دی اور پوچھا کہ “یہ کتنے کی ہے؟” ماہیکل بولا:" ایک ڈالر کی" اس نے کہا: " بیٹا جاؤ اور اسے بیس ڈالر کا بیچ کر آؤ". وہ سوچنے لگ پڑا کہ ایک ڈالر کی شرٹ بیس ڈالر میں کس طرح بیچوں؟ اس کے ذہن میں ایک ترکیب آئی. وہ بازار گیا اور وہاں سے مِکًًی ماؤس کا سٹیکر لایا اور اُسے شرٹ کے اوپر چپکا دیا ۔ چھٹی کے وقت وہ امراء کے ایک بہت مشہور سکول کے گیٹ کے سامنے کھڑا ہو گیا ۔جب لڑکے سکول سے نکلنے لگے۔ باہر اُن کے والدین گاڑیوں میں انکو لینے آئے ہوے تھے۔لڑکوں کو دیکھ کر اِس نے آواز لگانی شروع کی: مکی ماؤس کی شرٹ صرف بیس ڈالر میں۔ ایک بچے نے شرٹ کو دیکھا اور اپنے والد سے کہا :مجھے یہ شرٹ چاہیے ! اس کے باپ نے بیس ڈالر کی شرٹ خریدی اور اوپر پانچ ڈالر کی ٹپ بھی دی۔ مائیکل کی خوشی کی انتہا نہ رہی۔ وہ پچیس ڈالر لے کر گھر کی طرف بھاگا اور باپ کو دیکھ کر کہا: آپ نے تو کہا تھا کہ بیس ڈالر کی بیچوں، میں نے اسے پچیس ڈالر میں بیچ دیا ہے. باپ نے مسکراتے ہوئے کہا: ویل ڈن بوائے ! تم ترقی کروگے !
کچھ دنوں کے بعد جیمز نے مائیکل کو ایک اور ٹی شرٹ دی اور پوچھا کہ "یہ کتنے کی ہوگی؟" مائیکل نے کہا:" ایک ڈالر کی " باپ نے کہا :"بیٹا جاؤ اور اسے دو سو ڈالر میں بیچ کر آؤ" ۔ مائیکل نے شرٹ پکڑی اور گہری سوچ میں ڈوب گیا کہ دو سو ڈالر میں کیسے بیچوں؟ ایسا کیا کروں کہ اِس کی ویلیو دو سو ڈالر کی ہو جائے؟ اسے خیال آیا ، اگر اِس شرٹ پر کسی مشہور سنگر ،اداکار یا کھلاڑی کا آٹوگراف مل جائے، تو یہ دو سو ڈالر سے بھی مہنگی بک سکتی ہے۔ اب مسئلہ تھا کہ ایسی سیلبریٹی تک رسائی کیسے ہو؟ وہ سوچ رہا تھا کہ اُس کے دوست نے بتایا کہ کل ہالی ووڈ کی مشہور اور خوبصورت ایکٹریس فرح فاسٹ پریس کانفرنس کرنے آرہی ہے۔ مائیکل اگلے دن وہاں پہنچ گیا اور لوگوں کے ہجوم کو توڑتا ، پولیس والوں سے چُھپتا چھپاتا فرح کے قریب جا پہنچا اور شرٹ اُس کی طرف بڑھاتے ہوئے بولا: مجھے اس شرٹ پر آپ کا آٹوگراف لینا ہے ۔ فرح نے ایک نظر اُس پر ڈالی اور اپنے ساتھیوں سے باتیں کرنے لگی۔ ماہیکل نے پھر آٹوگراف مانگا ۔فرح گفتگو میں مہو تھی۔ وہ مسلسل آٹوگراف مانگتا جا رہا تھا۔ فرح بارہ سال بچے کی مسلسل فرمائش نہ ٹال سکی اور ٹی شرٹ پر دستخط کر دیئے۔ اس نے فرح کا شکریہ ادا کیا۔جس کا جواب فرح نے ایک خفیف مسکراہٹ سے دیا ۔مائیکل یہ شرٹ لے کر بازار کی طرف نکل گیا۔ وہاں پہنچ کر ایک بینچ پر چڑھ گیا اور کہنے لگا ؛ فرح کے آٹوگراف والی شرٹ صرف دو سو ڈالر میں ! تھوڑی دیر میں لوگوں کی بھیڑ لگ گئی ۔ایک طرف سے آواز آئی: "سو ڈالر" . دوسری طرف سے آفر ائی: دو سو ڈالر؛ تین سو ڈالر؛ پانچ سو ڈالر ؛ ایک ہزار ڈالر۔ مائیکل ایک ہزار ڈالر کہنے والے شخص کی طرف مڑا کہ پیچھے سے آواز آئی: دو ہزار ڈالر اور اب یہ ٹی شرٹ میری ہے ! مائیکل نے اسے ٹی شرٹ دی اور دو ہزار ڈالر لے کر گھر آیا اور بڑے فخر سے والد کو دو ہزار ڈالر دیے۔ والد نے کہا: ویل ڈن بوائے! تم مستقبل میں بڑے آدمی بنو گے! مائیکل نے باپ کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا۔ باپ نے اُس کی آنکھوں سے سوال پڑھ لیا اور بولا جب تم ایک ڈالر کے کپڑے کی قیمت بڑھا سکتے ہو تو اپنی قیمت کیوں نہ بڑھاؤ گے۔ مائیکل خوش ہوگیا اور پھر کچھ سوچنے لگا !
ایک خیال
اس کہانی میں مائیکل کے سامنے جب کوئی چیلنج آتا ہے تو وہ یہ نہیں کہتا : “یہ نہیں ہو سکتا" بلکہ اسے قبول کرلیتا ہے ۔اس کے اندر ناکام ہونے کا خوف نہیں۔ وہ کام کے نتیجہ پر توجہ نہیں رکھتا بلکہ اپنی کوشش پر فوکس کرتا ہے۔ پھر اس چیلنج کے ساتھ گھُتم گُھتًا ہو کر اپنی ذہنی اور جسمانی صلاحیتوں کا بھرپور استعمال کرتا ہے ، یہی اس کہانی کا سبق ہے!
کہانی شرٹ کے بکنے پر ختم نہیں ہوتی بلکہ آگے چلتی ہے۔ مائیکل کے والدین اسے لینی سکول میں داخل کروا دیتے ہیں۔ وہاں اسے باسکٹ بال کھیلنے کا شوق پیدا ہو جاتا ہے ۔ جب سکول کی ٹیم کی سلیکشن کے لیے ٹرائل ہوتے ہیں تو وہ بھی ان میں شامل ہو جاتا ہے۔ مگر بدقسمتی سے ٹیم میں منتخب نہیں ہو سکتا کیوں کہ اس کا قد پانچ فٹ گیارہ انچ ہے، جو کسی بھی لحاظ سے اس کھیل کے لیے مناسب نہیں ۔ مائیکل مایوس نہیں ہوتا اور اسی سکول کی جونیئر ٹیم میں شامل ہو جاتا ہے جس کا مقصد میچ جیتنا نہیں بلکہ اسکول کے طلبہ کو صرف ورزش کے مواقعے دینا ہے ۔وہ ایک سمر میں اپنا قد پانچ انچ بڑھا لیتا ہے اور اسی طرح اپنی گیم کی صلاحیت بھی ۔وہ اپنے کھیل سے لوگوں اور سلیکٹرز کو اتنا متاثر کرتا ہے کہ جلد ہی میکڈونلڈز اسکول ،جسکی ٹیم تمام سکولوں میں سب سے بہتر ٹیم ہے ، اس میں جگہ مل جاتی ہے اور ساتھ وظیفہ بھی۔ اب وہ اپنی تعلیم اور شوق دونوں کو باآسانی پورا کر سکتا ہے ۔بات یہاں نہیں ٹھہرتی ۔ماہیکل اپنے ماہرانا کھیل؛ جس میں اس کا غیر معمولی جمپ اور باسکٹ میں کامیابی سے بال ڈالنے کے متعدد نئے طریقے شامل ہیں؛ لوگوں کا ہیرو بن جاتا ہے. اس طرح ایک ڈالر کی شرٹ دو ڈالر میں بکنے لگتی ہے۔
وہ اپنی کوشش جاری رکھتا ہے ۔اس کا قد بڑھ کر چھ فٹ چھ انچ ہو جاتا ہے۔ اس کا جمپ دیکھنے کے لئے لوگ دور دور سے آنے لگتے ہیں۔ اب اسے شکاگو بلز کی ٹیم میں سلیکٹ کر لیا جاتا ہے۔ اور وہ 23 نمبر کی شرٹ پہن کر کھیلنے لگتا ہے، یعنی دو سے بڑھ کر تین جیسے ایک ڈالر کی شرٹ دو ڈالر میں ۔شرٹ بیچنے کا واقعہ اس کے لاشعور میں بیٹھا ہوا ہے۔بعد میں وہ مختلف ٹیموں کی طرف سے کھیلا اور اسکی شرٹ کے نمبر کبھی 12، کبھی 45. یعنی وہی پیٹرن کار فرما رہا۔
تھوڑے ہی عرصہ میں اس کی شہرت پورے امریکہ میں پھیل جاتی ہے ۔ مخالف ٹیمیں مائیکل کے نام سے گھبراتی ہیں۔ اس کا جمپ اتنا اونچا کہ اسے باقی کھلاڑی گراؤنڈ میں ایسے نظر آتے جیسے پہاڑ پر چڑھے آدمی کو نیچے پھرتے لوگ ۔اس کے پاؤں زمین پر کم ہوتے اور ہوا میں زیادہ ۔ اس پر لوگوں نے اس کا نام "ہوائی" رکھ دیا اور اس پر ایک گانا بنایا : آئی بلییو، آئی کین فلائ" جو پورے امریکہ میں مشہور ہو گیا۔
بات آگے بڑھتی ہے اور بڑھتی ہی چلی جاتی ہے! باسکٹ بال کے ریکارڈ ڈومینو کے کارڈز کی طرح گرنے لگتے ہیں۔ اس نے نیشنل باسکٹ بال ایسوسیشن" این بی اے" کی تاریخ میں سب سے زیادہ سکور کرنے کاورلڈ ریکارڈ تیس عشاریہ چودہ اوسط کے ساتھ قائم کیا جو آج تک نہیں ٹوٹا؛ انیس سو چوراسی اور انیس سو بانوے کے اولمپکس میں اپنے ملک امریکہ کو فتح دلوائی؛ امریکہ کا سب سے بڑا سول ایوارڈ "میڈل آف فریڈم" حاصل کیا؛ چھ بار این بی اے چیمپئن شپ جیتی؛ چھ دفعہ سب سے قیمتی کھلاڑی "ایم وی پی"کا آعزاز جیتا: دس دفعہ این بی اے میں سب سے زیادہ سکورر رہا؛ چودہ دفعہ این بی اے کا "آل سٹار" ایوارڈ جیتا؛ کسی بھی میچ میں سب سے زیادہ اوسط سکور اکتالیس پوائنٹ کرنے کا ریکارڈقائم کیا؛ سب سے زیادہ عمر (چونتیس سال) میں سب سے زیادہ پوائنٹ سکور کرنے کا ریکارڈ بنایا؛ امریکہ میں انیس سو ننانوے میں اُسے بیسویں صدی کا بہترین ایتھلیٹ قرار دیا گیا ۔مختصراً ریکارڈ در ریکارڈ بناۓ. اسی لیے مائیکل کو باسکٹ بال کا “دیوتا” مانا جانے لگا ۔ اس کے دیوتا ہونے کی وجہ پچاس ایسے رکارڈ ہیں جو آج تک کوئی اور کھلاڑی قائم نہ کر سکا۔ یہی مائیکل دراصل باسکٹ بال کا شہرہ آفاق کھلاڑی "مائیکل جارڈن" ہے. ایک ڈالر کی شرٹ دو سو ڈالر میں بیچنے والا !
مائیکل جارڈن دنیا کا مہنگا ترین باسکٹ بالر ہے ۔سٹار نیوز کے مطابق اس کے پاس دو ارب ڈالر کے اثاثے ہیں اور وہ امریکہ کا چار سو پچپن واں امیر ترین شخص ہے ۔ اس کے پاس اسی ملین ڈالر کی ایک کشتی ہے جس میں آٹھ بیڈ روم ہیں، ایک جًِم ہے، اوپن کھانے کی جگہ ہے اور تو اور اس میں باسکٹ بال کورٹ بھی ہے۔ اس کے پاس تیس ملین ڈالر کا نًجی طیارہ ہے جس کی آرائش پر جارڈن نے بیس ملین ڈالر لگائے اور اس کی ورتھ پچاس ملین ڈالر ہوگی۔ اس طیارہ میں نوے مسافر سفر کر سکتے ہیں۔ اس کے پاس پندرہ ملین ڈالر کا ذاتی تیئس ایکڑ پر مشتمل گالف کورس ہے، جس میں رہائش ،ہوٹل اور کلب کی سہولتیں موجود ہیں۔ اس کے علاوہ اس کورس میں پہاڑ بھی ہے اور ایک دریا بھی بہتا ہے۔
جارڈن کے پاس دس ملین ڈالر کی کی تقریبا دس گاڑیاں ہیں، ایک ملین ڈالر کے زیورات ہیں ، پچاس ملین ڈالر کے تین مکان ؛ شکاگو، کیرولینا اور فلوریڈا میں ہیں ۔ جن میں دنیا کی ہر سہولت جس کی انسان خواہش کرسکتاہے ،موجود ہیں ۔اس کی دو سو پجھتر ملین ڈالر کی سپورٹ ٹیمیں ہیں۔ بلاشبہ دہ دنیا کا امیر ترین باسکٹ بالر ہے کیونکہ وہ ایک ڈالر کی شرٹ دو ہزار ڈالر میں بیچنے کا فن جانتا ہے۔
وہ کیا اصول ہیں جس سے ایک جھگی میں رہنے والا سیاہ فام ساری دنیا کو جھکانے میں کامیاب ہوگیا۔ وہ اصول اس کی بچپن کی شرٹ والی کہانی میں موجود ہیں۔ جو اس نے ایک ٹی وی انٹرویو میں سنائی تھی۔
پہلا اصول: چیلنج کو قبول کرنا.جارڈن کہتا ہے؛ "چیلنج کو قبول کرو اور کبھی نہ کہو:" یہ نہیں ہو سکتا." وہ کہتا ہے : "اگر آپ نے ایک دفعہ چیلنج سے منہ موڑا تو یہ آپ کی عادت بن جائے گی اور پھر ساری زندگی کُوِٹً(چھوڑتے) کرتے رہو گے."
دوسرا اصول: ہے کہ "ناکامی سے کبھی نہ ڈرو" جارڈن کہتا ہے:" ناکامی کامیابی کی چابی ہے". ایک انٹرویو میں اس نے کہا: "میں زندگی میں، نو ہزار شارٹ باسکٹ میں نہ ڈال سکا ، تین سو مقابلوں میں ہار گیا اور چھبیس دفعہ میچ جیتنے اور ہارنے کے لیے وننگ شاٹ مجھے دی گئی اور میں نے باہر پھینک دی۔ میں زندگی میں بار بار اور متعدد بار ناکام ہوا ،اسی لیے میں زندگی میں کامیاب ہوگیا".
تیسرااصول: "اور جب چیلنج کو قبول کرو تو اپنی ذہنی اور جسمانی صلاحیتوں کا بھرپور استعمال کرو ۔ بس نتائج کو ایک طرف رکھ کر صرف اپنی کوشش پر توجہ مرکوز کرو"۔
جارڈن کے تین اصول اپنا کر آپ بھی زندگی میں کامیابیاں اور کامرانیاں حاصل کر سکتے ہیں!
No comments
Thanks for your comments.