ایک تصویر؛ ایک کہانی؛ ایک خیال Episode-7
ایک تصویر؛ ایک کہانی؛ ایک خیال
Episode-7
ایک تصویر
ایک کہانی
جونہی گھنٹی بجی ، طلباء سر سندیپ کی آمد کے لئے تیار ہوگئے ۔ چند لمحوں کے بعد ، وہ کلاس میں داخل ہوئے ۔ طلباء اپنی سیٹوں سے کھڑے ہوگئے۔ انہوں نے گڈ مارننگ کہہ کر سب کو ہاتھ کے اشارے سے بیٹھنے کے لیے کہا ۔آج خلاف معمول اُن کے ہاتھ میں ایک جوتوں کا ڈبہ تھا۔ انہوں نے ڈبہ کھولا اور اس میں سے نئے جوتوں کا جوڑا نکال کر روسٹم پر رکھ دیا اور بولے کہ آج کا لیکچر یہ" شوز" لیں گے اور خود اسٹوڈنٹ کی کرسیوں کی جانب بڑھ گئے اور ایک لڑکے کو پیچھے بھیج کر اس کی کرسی پر بیٹھ گئے۔
ساری کلاس پر سکوت طاری تھا ۔ ہر کوئی حیران تھا کہ آج کیا ہونے والا ہے ؟ طلباء کبھی سر سندیپ کو دیکھتے اور کبھی شوز کو۔اچانک سر سندیپ بولے اور خاموشی کا غبارہ پھٹ گیا۔" ان شوز پر غور کرو اور بتاؤ کہ آپ نے ان سے کیا سیکھا ہے ؟ کلاس میں پھر خاموشی چھا گئی۔ سر سندیپ نے گردن کو پیچھے موڑا اور ایک لڑکے کو اشارے سے بولنے کا کہا ۔ لڑکا پہلے تو گھبرایا اور کھڑا ہو کر لڑکھڑاتی آواز میں بولا: سر! شوز میں تسمے ہوتے ہیں۔ جب ہم درڑتے ہیں تو ہم ان کو کَسّ لیتے ہیں اور جب آہستہ چلنا ہو ، تو ہم ان کو ڈھیلا کر لیتے ہیں۔ اسی طرح زندگی میں ہم اپنے ایٹیٹیوڈ کو حالات کے مطابق کبھی ٹائٹ کر کے اور کبھی لُوز کرکے زندگی کو بہتر بنا سکتے ہیں ۔ سر سندیپ نے اس دلچسپ بات کو بہت سراہا اور طلباء کی طرف دیکھا ، جیسے کہہ رہے ہوں:" کوئی اور سبق بھی ہے ؟"
دوسرا لڑکا کھڑا ہوگیا اور بولا کہ سر ! زندگی میں چاہے جتنی بھی کامیابی مل جائے , ہمیں "ڈاؤن ٹو ارتھ" رہنا چاہیے۔ شو چاہے مہنگا ہو یا سستا۔ کبھی سر پر نہیں چڑھتا۔ ہمیشہ زمین پر رہتا ہے۔ ہمیں بھی ڈاؤن ٹو ارتّھ رہنا چاہیے ۔ سر نے اس کے نتیجہ کی تعریف کی۔
اب کیا تھا ! ساری کلاس شوز کو دیکھ رہی تھی اور دماغ میں تخیّلات کی آندھیاں چل رہی تھیں۔زہنوں میں ہلچل مچ چکی تھی ۔ ہر کوئی بولنے کے لئے ہاتھ کھڑا کر رہا تھا۔ بس ، سر سندیپ کی اجازت کی ضرورت تھی۔ سر نے ایک لڑکی کو ہاتھ کے اشارے سے بولنے کو کہا ۔ وہ کھڑی ہوئی اور کہنے لگی: شوز ہمارے بھاری جسم کو برداشت کرتے ہیں حالانکہ یہ خود ہلکے ہوتے ہیں۔ اس کے باوجود یہ سو کلو، ڈیڑھ سو کلو کے انسان کا وزن اٹھا لیتے ہیں۔ ہماری زندگی چاہیے کتنی ہی بھاری کیوں نہ ہوجائے ، ہمیں اس کو اٹھانا ہے۔ سر سندیپ نے تعریفی کلمات کہہ کر چوتھے سٹوڈنٹ کو بولنے کی دعوت دی۔
لڑکا بولا: سر ! جس طرح شوز کو روزانہ صاف کرنا ہوتا ہے، روزانہ کھانا کھانا ہوتا ہے، پانی پینا ہوتا ہے۔ اسی طرح اپنے مائنڈ کے لئے بھی کچھ نہ کچھ روزانہ کرنا ضروری ہے تاکہ شوز کی طرح دماغ بھی روزانہ چمکے ۔ جس طرح شوز چمکانے سے چمکتے ہیں، اسی طرح دماغ بھی چمکانے سے چمکے گا۔ سر نے اس کے خیال کو بہت تحسین کی نظر سے دیکھا۔
پانچواں طالبعلم اٹھا اور بولا: شوز ہمیشہ ساتھ ساتھ رہتے ہیں۔ ایک جوتا کسی کام کا نہیں۔ اسی طرح زندگی میں ہم اکیلے کچھ نہیں کر سکتے، دوسروں کو ساتھ ملانا ہوگا ۔ سر سندیپ بہت خوش ہوئے اور اس کی بات آگے بڑھاتے ہوئے بولے : زندگی میں جو "میں" "میں" بولتے ہیں، ہمیشہ دکھی ملیں گے اور جو "ہم" "ہم" بولتے ہیں، ہمیشہ خوش ملیں گے ۔باہمی تعلقات میں " میں" ہو تو کمزور ہوجاتے ہیں اور اگر "ہم" ہو تو مضبوط ۔ جو زندگی میں "میں" "میں" بولتے ہیں؛ سب سے کٹ جاتے ہیں۔ پھر ہنستے ہوئے بولے دیکھو! بکرا بڑی "میں" "میں" کرتا ہے تو کٹ جاتا ہے ۔ "ہم" کو کیسے کاٹو گے " "ہم" تو یونٹی ہیں۔ ساری کلاس ہنسنے لگی ۔
چھٹی باری ایک لڑکی تھی۔ وہ اٹھی اور بولی: نئے شوز تکلیف دیتے ہیں ،اسی طرح زندگی میں جب ہم کسی نئی سچوایشن میں جاتے ہیں، تو تکلیف ہوتی ہے ،پھر آہستہ آہستہ ایڈجسٹ ہو جاتے ہیں۔ نیا تعلق ، نئی جگہ ، نیا کام ، سب شروع میں تکلیف دیتے ہیں مگر وقت کے ساتھ ساتھ بندہ ایڈجسٹ ہو جاتا ہے ۔ جیسے نئے شوز ایڈجسٹ ہو جاتے ہیں۔ ایک کمفرٹ زون سے نکل کر دوسری جگہ کو کمفرٹ زون بنانے کے لیے وقت درکار ہوتا ہے ۔ سر سندیپ نے اسکے فلسفے کو سیکنڈ کیا اور تالی بجا کر داد دی۔
ساتویں نمبر پر ایک لڑکی اٹھی اور بولی: سر ! شوز کی ایک بنیاد (بیس) ہوتی ہے، جس کو مضبوط بنایا جاتا ہے ۔اسی طرح جب ہم کوئی بلڈنگ بناتے ہیں تو اس کی بنیاد مضبوط بناتے ہیں ۔ سر سندیپ نے شاباشی دی اور بات کو آگے بڑھاتے ہوئے بولے: شوز کا جو سول( بمعنی تلوا) ہوتا ہے، وہ ہی اس کا سول ( بمعنی روح یعنی اندر کی توانائی) ہوتا ہے۔ شو کا سول(تلوا) بے کار ہے تو شو بیکار ہے ۔ اس طرح ہمارا سول یعنی ہمارا سیلف( اندر کی توانائی) جتنا مضبوط ہوگا تو زندگی کے غیر محدود مسائل کو اٹھا لے گا۔ خود پر کام کرنا ہوگا اور خود کو اندر سے مضبوط بنانا ہوگا ۔ دنیا کو اپنے اوپر حاوی ہونے دیا تو وہ آپ کی دھجیاں اڑا دے گی۔ اگر خود کو تیار کر لیا تو دنیا آپ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی۔اتنے میں گھنٹی بجی اور سر سندیپ کھڑے ہو گئے اور روسٹم کے قریب آ کر اپنا ایک پاؤں اونچا کر دیا ۔ طالب علموں نے دیکھا اس کا تلوا( سول) اُکھڑا ہوا ہے۔ سر بولے: آج آتے وقت راستہ میں یہ ٹوٹ گیا اور میں سیدھا بازار چلا گیا ۔وہاں سے نیا جوڑا خریدا کیونکہ ایک قدم چلنا بھی مشکل ہو گیا تھا۔ اس وقت مجھے خیال آیا کہ بغیر جوتوں کے انسان کتنا ادھورا ہے۔ میں جوتوں پر غور کرتا رہا اور کئی نئی باتیں ذہن میں آئیں۔ تو میں نے وہیں ارادہ بنا لیا کہ آج کلاس میں ہم ان شوز سے سیکھیں گے۔ یہ کہہ کر انہوں نے شوز کو ڈبے میں ڈالا اور سٹاف روم کی طرف چلے گئے ۔ ساری کلاس کے چہرے پر خوشی تھی جیسے کوئی نئی چیز ان کے ہاتھ لگ گئی ہو۔
تین سٹوڈنٹ ان کے پیچھے پیچھے اسٹاف روم چلے آئے۔ دیکھا تو سر اپنے نئے جوتے پہن رہے تھے ۔ وہ اجازت لے کر اندر داخل ہوگئے ۔سر سندیپ نے سر اٹھایا اور سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگے ۔ ایک طالبعلم بولا :سر ! ہمارے بولنے کی باری نہیں آئی ۔ ہم بھی کچھ کہنا چاہتے ہیں ۔ سر نے کہا "بولو"۔ پہلا لڑکا بولا: سر ! جب ایک جوتا دوسرے سے آگے نکل جاتا ہے تو رُک جاتا ہے اور دوسرے کو موقع دیتا ہے کہ اب تم بڑھو اور آگے نکل جاؤ۔ ہمیں بھی زندگی میں ایک دوسرے کو آگے بڑھنے کا موقع دینا چاہیے۔ کسی کا مسلسل آگے ہی رہنا اور کسی کا ہمیشہ پیچھے رہنا؛ درست نہیں ۔ دوسرا بولا :سر ! دونوں جوتے دیکھنے میں ایک جیسے لگتے ہیں مگر ہوتے مختلف ہیں ۔اگر دونوں جوتے ایک جیسے ہوں تو آپ انہیں پہن نہی سکتے ۔ دونوں ایک جیسے ہوتے ہوئے بھی ایک دوسرے سے تھوڑا سا مختلف ہوتے۔ اسی معمولی فرق سے ان سے فائدہے نکلتے ہیں۔ اسی طرح زندگی میں جانورں میں جوڑے ہیں ،پودوں میں جوڑے ہیں، آشیاء کے کاؤنٹر پارٹ ہیں۔ جوڑا ہی اصل میں زندگی کو جوڑتا ہے اور اُسی سے زندگی کی بقّا ہے اور زندگی کا حُسن ہے۔ تیسرا بولا : سر! جوتا ہمیشہ پاؤں میں رہتا ہے ، جب کبھی اس میں کوئی نقص پیدا ہو جائے تو ہم اِسے ہاتھوں میں اٹھا لیتے ہیں۔اِسی طرح اِس کی اہمیت بڑھ جاتی ہے ۔ بالکل ایسے ہی جب کوئی چیز خراب ہو جائے تو ہمیں اُسکی ویلیو کا احساس ہوتا ہے اور ہم اس پر توجہ دیتے ہیں اور ٹھیک کرواتے ہیں۔ سر سندیپ نے ان کے خیالات سے ہم آہنگی کا اظہار کیا اور کہا: اگر غور کرو تو تم دنیا کی ہر چیز سے سیکھ سکتے ہو۔ ان کا چہرہ اطمینان اور کامیابی کے احساس سے چمک رہا تھا ! پھر انہوں نے جوتوں کے تسمے کو باندھنا شروع کردیا
ایک خیال
اگر کوئی شخص سیکھنا چاہئے تو کائنات کی ہر چیز اس کے لیے استاد بن جاتی ہے۔ بس ایک شرط ہے کہ اس " چیز "پر توجہ دیں اور علم حاصل کرنے کے پانچوں ذرائع؛ حواسِ خمسہ ، عقل، استنادیت, وجدان اور فطری خیالات کو بروئے کار لائیں۔ تو ہر چیز آپ کے لیے علم کے دروازے کھول سکتی ہے ۔ یہ کام اتنا ہی آسان ہے جتنا کے پلک جھپکنا۔ روزانہ ایک چیز لیں اور اُس پر غور کریں اور اُس سے سیکھیں۔ جو باتیں سیکھیں ساتھ ساتھ ان کو لکھتے جائیں۔چند ہی دنوں میں یہ آپ کی عادت بن جائے گی اور آپ ہر چیز سے سیکھنا شروع کر دیں گے۔اپکا مشاہدہ مثالی ہو جاے گا۔ پوشیدہ راز اگلنے لگیں گے۔
دنیا کے سارے شاعروں،ا دیبوں، فلاسفروں،سائئنسدانوں نے اِسی فن سے فائدہ اٹھایا ۔ مگر اپنا راز ، راز ہی رکھا ۔ آج راز آپ کے پاس ہے ! علم و دانش اور تخیلق کی چابی آپ کو مل گئی ہے ۔ آج سے ہی ، اس سے جہالت کے تالے کھول کر ترقی کی راہ پر گامزن ہو جاہیں۔ اللہ آپ کا حامی و ناصر ہو
چیزوں سے سیکھنے کی بہت سی اور مثالیں ہیں۔ ایک دفعہ ایک بوڑھا شخص برتن دھو رہا تھا۔ کسی نوجوان نے پوچھا: "بابا جی! ساری زندگی برتن ہی دھوئے ہیں یا کچھ سیکھا بھی ہے؟" بابا جی نے آنکھ اٹھا کر اس کی طرف دیکھا اور کہا: “بیٹا ! بس یہی سیکھا ہے کہ برتن کو باہر سے کم اور اندر سے زیادہ مانجھنا پڑتا ہے۔" نوجوان اِس صوفیانہ خیال پر دنگ رہ گیا کہ باطنی صفائ، ظاہری سے زیادہ ضروری ہے۔
اِسی طرح کا ایک سوال ایک نوجون نے ایک چرخہ کاتنے والی عورت سے کیا ۔اماں !ساری زندگی چرخہ ہی چلاتی رہی ہو یا کچھ سیکھا بھی ہے ؟ بڑھیا بولی : بیٹا ! چرخہ سے یہ سیکھا ہے کہ" اللہ موجود ہے"۔ نوجوان کہنے لگا :" وہ کیسے؟" بڑھیا بولی: "بیٹا! جب میں چرخہ چلاتی ہوں تو چل جاتا ہے اور جب ہاتھ روک لیتی ہوں ، تو رُک جاتا ہے ۔ جب یہ چھوٹا سا چرخہ خود نہیں چل سکتا تو یہ زمین، چاند ،سورج، ستارے اور بڑا چرخ ؛ خود کیسے چل سکتے ہیں؟ ضرور ان کو چلانے والا کوئی موجود ہے وگرنہ رُک جاتے۔" نوجوان بولا:" کوئی اور بات بھی سیکھی؟" بڑھیا نے کہا: "ہاں! چرخہ سے سیکھا ہے کہ اللہ ایک ہے۔" نوجوان حیران ہو کر بولا: "وہ کیسے؟" بڑھیا بولی :"اگر کوئی میری ساتھی عورت ہوتی اور وہ چرخہ کو اُسی سمت میں چلاتی ،جس میں، میں چلا رہی ہوں تو چرخہ کی رفتار تیز ہو جاتی اور دھاگہ پتلا ہو کر ٹوٹ جاتا اور کام ٹھپّ ہو جاتا اور اگر دوسری عورت میرے مخالف سمت میں زور لگاتی تو یہ جھٹکے لیتا اور آہستہ چلتا۔ اس طرح دھاگہ کی بجائے روئی کے گلوُلے بننے لگتے جو کسی کام کے نہیں۔ تو اگر یہ کائنات یکساں رفتار سے ٹھیک ٹھاک بغیر ہچکولوں کے چل رہی ہے تو اس کو چلانے والا ایک ہے ۔" نوجوان متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔
سیب تو ہزاروں لوگوں کے سروں پر گرے ہوں گے ۔ مگر ایک سیب جب ایک "سیکھنے اور توجہ کرنے والے" کے سر پر گرا ۔تو اس نے غور کیا کہ یہ نیچے کیوں آیا اوپر کیوں نہ گیا ؟ اس نے دنیا کو" لا آف گریویٹیشن" دے دیا۔
سمندر میں جہازوں پر ہزاروں لوگوں نے سفر کیا ہو گا مگر ایک سیلر نے غور کیا کہ دور سے آنے والے جہاز کی پہلے دھوئیں والی چمنی نظر آتی ہے اور بعد میں آہستہ آہستہ پورا جہاز نظر آتا ہے ۔تو اس نے اندازہ لگا لیا کہ آگے سے زمین نیچی ہے اور اگر اسی طرح زمین نیچی در نیچی ہوتی رہے تو اس کا مطلب ہے کہ زمین گول ہے ۔ جبکہ اس سے پہلے زمین کے بارے میں یہ تصور تھا کہ یہ چپٹی ہے۔
جنگ میں ہزاروں بندوقوں نے گولیاں برسائیں ہو نگیں۔ مگر ایک جنگ میں ، جب دشمن فوجی نے بندوق کا فائر کیا تو دفاع کرنے والے فوجی نے بندوق سے شہلہ نکلتے دیکھا اور ایک لمحہ بعد بندوق چلنے کی آواز سنی۔ تو بول اٹھا کہ روشنی کی رفتار آواز کی رفتار سے زیادہ ہے۔
ان سب لوگوں کے پاس وہی دماغ تھا ،وہی آنکھیں تھیں ،وہی کان تھے، وہی ہاتھ تھے، وہی جسم تھا ؛ جو آپ اور ہمارے پاس ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ انہوں نے اردگرد کی چیزوں سے سے سیکھا اور ان پر غور کیا اور اس سے نتیجہ نکالا اور دنیا میں کامیاب ہوگئے ۔
یقین کیجیے! سیکھنا، پلک جھپکنے سے زیادہ آسان ہے۔شرط ہے کہ ایک لمحے کے لئے بھی پلک نہ جھپکیں
Episode-7
ایک تصویر
ایک کہانی
جونہی گھنٹی بجی ، طلباء سر سندیپ کی آمد کے لئے تیار ہوگئے ۔ چند لمحوں کے بعد ، وہ کلاس میں داخل ہوئے ۔ طلباء اپنی سیٹوں سے کھڑے ہوگئے۔ انہوں نے گڈ مارننگ کہہ کر سب کو ہاتھ کے اشارے سے بیٹھنے کے لیے کہا ۔آج خلاف معمول اُن کے ہاتھ میں ایک جوتوں کا ڈبہ تھا۔ انہوں نے ڈبہ کھولا اور اس میں سے نئے جوتوں کا جوڑا نکال کر روسٹم پر رکھ دیا اور بولے کہ آج کا لیکچر یہ" شوز" لیں گے اور خود اسٹوڈنٹ کی کرسیوں کی جانب بڑھ گئے اور ایک لڑکے کو پیچھے بھیج کر اس کی کرسی پر بیٹھ گئے۔
ساری کلاس پر سکوت طاری تھا ۔ ہر کوئی حیران تھا کہ آج کیا ہونے والا ہے ؟ طلباء کبھی سر سندیپ کو دیکھتے اور کبھی شوز کو۔اچانک سر سندیپ بولے اور خاموشی کا غبارہ پھٹ گیا۔" ان شوز پر غور کرو اور بتاؤ کہ آپ نے ان سے کیا سیکھا ہے ؟ کلاس میں پھر خاموشی چھا گئی۔ سر سندیپ نے گردن کو پیچھے موڑا اور ایک لڑکے کو اشارے سے بولنے کا کہا ۔ لڑکا پہلے تو گھبرایا اور کھڑا ہو کر لڑکھڑاتی آواز میں بولا: سر! شوز میں تسمے ہوتے ہیں۔ جب ہم درڑتے ہیں تو ہم ان کو کَسّ لیتے ہیں اور جب آہستہ چلنا ہو ، تو ہم ان کو ڈھیلا کر لیتے ہیں۔ اسی طرح زندگی میں ہم اپنے ایٹیٹیوڈ کو حالات کے مطابق کبھی ٹائٹ کر کے اور کبھی لُوز کرکے زندگی کو بہتر بنا سکتے ہیں ۔ سر سندیپ نے اس دلچسپ بات کو بہت سراہا اور طلباء کی طرف دیکھا ، جیسے کہہ رہے ہوں:" کوئی اور سبق بھی ہے ؟"
دوسرا لڑکا کھڑا ہوگیا اور بولا کہ سر ! زندگی میں چاہے جتنی بھی کامیابی مل جائے , ہمیں "ڈاؤن ٹو ارتھ" رہنا چاہیے۔ شو چاہے مہنگا ہو یا سستا۔ کبھی سر پر نہیں چڑھتا۔ ہمیشہ زمین پر رہتا ہے۔ ہمیں بھی ڈاؤن ٹو ارتّھ رہنا چاہیے ۔ سر نے اس کے نتیجہ کی تعریف کی۔
اب کیا تھا ! ساری کلاس شوز کو دیکھ رہی تھی اور دماغ میں تخیّلات کی آندھیاں چل رہی تھیں۔زہنوں میں ہلچل مچ چکی تھی ۔ ہر کوئی بولنے کے لئے ہاتھ کھڑا کر رہا تھا۔ بس ، سر سندیپ کی اجازت کی ضرورت تھی۔ سر نے ایک لڑکی کو ہاتھ کے اشارے سے بولنے کو کہا ۔ وہ کھڑی ہوئی اور کہنے لگی: شوز ہمارے بھاری جسم کو برداشت کرتے ہیں حالانکہ یہ خود ہلکے ہوتے ہیں۔ اس کے باوجود یہ سو کلو، ڈیڑھ سو کلو کے انسان کا وزن اٹھا لیتے ہیں۔ ہماری زندگی چاہیے کتنی ہی بھاری کیوں نہ ہوجائے ، ہمیں اس کو اٹھانا ہے۔ سر سندیپ نے تعریفی کلمات کہہ کر چوتھے سٹوڈنٹ کو بولنے کی دعوت دی۔
لڑکا بولا: سر ! جس طرح شوز کو روزانہ صاف کرنا ہوتا ہے، روزانہ کھانا کھانا ہوتا ہے، پانی پینا ہوتا ہے۔ اسی طرح اپنے مائنڈ کے لئے بھی کچھ نہ کچھ روزانہ کرنا ضروری ہے تاکہ شوز کی طرح دماغ بھی روزانہ چمکے ۔ جس طرح شوز چمکانے سے چمکتے ہیں، اسی طرح دماغ بھی چمکانے سے چمکے گا۔ سر نے اس کے خیال کو بہت تحسین کی نظر سے دیکھا۔
پانچواں طالبعلم اٹھا اور بولا: شوز ہمیشہ ساتھ ساتھ رہتے ہیں۔ ایک جوتا کسی کام کا نہیں۔ اسی طرح زندگی میں ہم اکیلے کچھ نہیں کر سکتے، دوسروں کو ساتھ ملانا ہوگا ۔ سر سندیپ بہت خوش ہوئے اور اس کی بات آگے بڑھاتے ہوئے بولے : زندگی میں جو "میں" "میں" بولتے ہیں، ہمیشہ دکھی ملیں گے اور جو "ہم" "ہم" بولتے ہیں، ہمیشہ خوش ملیں گے ۔باہمی تعلقات میں " میں" ہو تو کمزور ہوجاتے ہیں اور اگر "ہم" ہو تو مضبوط ۔ جو زندگی میں "میں" "میں" بولتے ہیں؛ سب سے کٹ جاتے ہیں۔ پھر ہنستے ہوئے بولے دیکھو! بکرا بڑی "میں" "میں" کرتا ہے تو کٹ جاتا ہے ۔ "ہم" کو کیسے کاٹو گے " "ہم" تو یونٹی ہیں۔ ساری کلاس ہنسنے لگی ۔
چھٹی باری ایک لڑکی تھی۔ وہ اٹھی اور بولی: نئے شوز تکلیف دیتے ہیں ،اسی طرح زندگی میں جب ہم کسی نئی سچوایشن میں جاتے ہیں، تو تکلیف ہوتی ہے ،پھر آہستہ آہستہ ایڈجسٹ ہو جاتے ہیں۔ نیا تعلق ، نئی جگہ ، نیا کام ، سب شروع میں تکلیف دیتے ہیں مگر وقت کے ساتھ ساتھ بندہ ایڈجسٹ ہو جاتا ہے ۔ جیسے نئے شوز ایڈجسٹ ہو جاتے ہیں۔ ایک کمفرٹ زون سے نکل کر دوسری جگہ کو کمفرٹ زون بنانے کے لیے وقت درکار ہوتا ہے ۔ سر سندیپ نے اسکے فلسفے کو سیکنڈ کیا اور تالی بجا کر داد دی۔
ساتویں نمبر پر ایک لڑکی اٹھی اور بولی: سر ! شوز کی ایک بنیاد (بیس) ہوتی ہے، جس کو مضبوط بنایا جاتا ہے ۔اسی طرح جب ہم کوئی بلڈنگ بناتے ہیں تو اس کی بنیاد مضبوط بناتے ہیں ۔ سر سندیپ نے شاباشی دی اور بات کو آگے بڑھاتے ہوئے بولے: شوز کا جو سول( بمعنی تلوا) ہوتا ہے، وہ ہی اس کا سول ( بمعنی روح یعنی اندر کی توانائی) ہوتا ہے۔ شو کا سول(تلوا) بے کار ہے تو شو بیکار ہے ۔ اس طرح ہمارا سول یعنی ہمارا سیلف( اندر کی توانائی) جتنا مضبوط ہوگا تو زندگی کے غیر محدود مسائل کو اٹھا لے گا۔ خود پر کام کرنا ہوگا اور خود کو اندر سے مضبوط بنانا ہوگا ۔ دنیا کو اپنے اوپر حاوی ہونے دیا تو وہ آپ کی دھجیاں اڑا دے گی۔ اگر خود کو تیار کر لیا تو دنیا آپ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی۔اتنے میں گھنٹی بجی اور سر سندیپ کھڑے ہو گئے اور روسٹم کے قریب آ کر اپنا ایک پاؤں اونچا کر دیا ۔ طالب علموں نے دیکھا اس کا تلوا( سول) اُکھڑا ہوا ہے۔ سر بولے: آج آتے وقت راستہ میں یہ ٹوٹ گیا اور میں سیدھا بازار چلا گیا ۔وہاں سے نیا جوڑا خریدا کیونکہ ایک قدم چلنا بھی مشکل ہو گیا تھا۔ اس وقت مجھے خیال آیا کہ بغیر جوتوں کے انسان کتنا ادھورا ہے۔ میں جوتوں پر غور کرتا رہا اور کئی نئی باتیں ذہن میں آئیں۔ تو میں نے وہیں ارادہ بنا لیا کہ آج کلاس میں ہم ان شوز سے سیکھیں گے۔ یہ کہہ کر انہوں نے شوز کو ڈبے میں ڈالا اور سٹاف روم کی طرف چلے گئے ۔ ساری کلاس کے چہرے پر خوشی تھی جیسے کوئی نئی چیز ان کے ہاتھ لگ گئی ہو۔
تین سٹوڈنٹ ان کے پیچھے پیچھے اسٹاف روم چلے آئے۔ دیکھا تو سر اپنے نئے جوتے پہن رہے تھے ۔ وہ اجازت لے کر اندر داخل ہوگئے ۔سر سندیپ نے سر اٹھایا اور سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگے ۔ ایک طالبعلم بولا :سر ! ہمارے بولنے کی باری نہیں آئی ۔ ہم بھی کچھ کہنا چاہتے ہیں ۔ سر نے کہا "بولو"۔ پہلا لڑکا بولا: سر ! جب ایک جوتا دوسرے سے آگے نکل جاتا ہے تو رُک جاتا ہے اور دوسرے کو موقع دیتا ہے کہ اب تم بڑھو اور آگے نکل جاؤ۔ ہمیں بھی زندگی میں ایک دوسرے کو آگے بڑھنے کا موقع دینا چاہیے۔ کسی کا مسلسل آگے ہی رہنا اور کسی کا ہمیشہ پیچھے رہنا؛ درست نہیں ۔ دوسرا بولا :سر ! دونوں جوتے دیکھنے میں ایک جیسے لگتے ہیں مگر ہوتے مختلف ہیں ۔اگر دونوں جوتے ایک جیسے ہوں تو آپ انہیں پہن نہی سکتے ۔ دونوں ایک جیسے ہوتے ہوئے بھی ایک دوسرے سے تھوڑا سا مختلف ہوتے۔ اسی معمولی فرق سے ان سے فائدہے نکلتے ہیں۔ اسی طرح زندگی میں جانورں میں جوڑے ہیں ،پودوں میں جوڑے ہیں، آشیاء کے کاؤنٹر پارٹ ہیں۔ جوڑا ہی اصل میں زندگی کو جوڑتا ہے اور اُسی سے زندگی کی بقّا ہے اور زندگی کا حُسن ہے۔ تیسرا بولا : سر! جوتا ہمیشہ پاؤں میں رہتا ہے ، جب کبھی اس میں کوئی نقص پیدا ہو جائے تو ہم اِسے ہاتھوں میں اٹھا لیتے ہیں۔اِسی طرح اِس کی اہمیت بڑھ جاتی ہے ۔ بالکل ایسے ہی جب کوئی چیز خراب ہو جائے تو ہمیں اُسکی ویلیو کا احساس ہوتا ہے اور ہم اس پر توجہ دیتے ہیں اور ٹھیک کرواتے ہیں۔ سر سندیپ نے ان کے خیالات سے ہم آہنگی کا اظہار کیا اور کہا: اگر غور کرو تو تم دنیا کی ہر چیز سے سیکھ سکتے ہو۔ ان کا چہرہ اطمینان اور کامیابی کے احساس سے چمک رہا تھا ! پھر انہوں نے جوتوں کے تسمے کو باندھنا شروع کردیا
ایک خیال
اگر کوئی شخص سیکھنا چاہئے تو کائنات کی ہر چیز اس کے لیے استاد بن جاتی ہے۔ بس ایک شرط ہے کہ اس " چیز "پر توجہ دیں اور علم حاصل کرنے کے پانچوں ذرائع؛ حواسِ خمسہ ، عقل، استنادیت, وجدان اور فطری خیالات کو بروئے کار لائیں۔ تو ہر چیز آپ کے لیے علم کے دروازے کھول سکتی ہے ۔ یہ کام اتنا ہی آسان ہے جتنا کے پلک جھپکنا۔ روزانہ ایک چیز لیں اور اُس پر غور کریں اور اُس سے سیکھیں۔ جو باتیں سیکھیں ساتھ ساتھ ان کو لکھتے جائیں۔چند ہی دنوں میں یہ آپ کی عادت بن جائے گی اور آپ ہر چیز سے سیکھنا شروع کر دیں گے۔اپکا مشاہدہ مثالی ہو جاے گا۔ پوشیدہ راز اگلنے لگیں گے۔
دنیا کے سارے شاعروں،ا دیبوں، فلاسفروں،سائئنسدانوں نے اِسی فن سے فائدہ اٹھایا ۔ مگر اپنا راز ، راز ہی رکھا ۔ آج راز آپ کے پاس ہے ! علم و دانش اور تخیلق کی چابی آپ کو مل گئی ہے ۔ آج سے ہی ، اس سے جہالت کے تالے کھول کر ترقی کی راہ پر گامزن ہو جاہیں۔ اللہ آپ کا حامی و ناصر ہو
چیزوں سے سیکھنے کی بہت سی اور مثالیں ہیں۔ ایک دفعہ ایک بوڑھا شخص برتن دھو رہا تھا۔ کسی نوجوان نے پوچھا: "بابا جی! ساری زندگی برتن ہی دھوئے ہیں یا کچھ سیکھا بھی ہے؟" بابا جی نے آنکھ اٹھا کر اس کی طرف دیکھا اور کہا: “بیٹا ! بس یہی سیکھا ہے کہ برتن کو باہر سے کم اور اندر سے زیادہ مانجھنا پڑتا ہے۔" نوجوان اِس صوفیانہ خیال پر دنگ رہ گیا کہ باطنی صفائ، ظاہری سے زیادہ ضروری ہے۔
اِسی طرح کا ایک سوال ایک نوجون نے ایک چرخہ کاتنے والی عورت سے کیا ۔اماں !ساری زندگی چرخہ ہی چلاتی رہی ہو یا کچھ سیکھا بھی ہے ؟ بڑھیا بولی : بیٹا ! چرخہ سے یہ سیکھا ہے کہ" اللہ موجود ہے"۔ نوجوان کہنے لگا :" وہ کیسے؟" بڑھیا بولی: "بیٹا! جب میں چرخہ چلاتی ہوں تو چل جاتا ہے اور جب ہاتھ روک لیتی ہوں ، تو رُک جاتا ہے ۔ جب یہ چھوٹا سا چرخہ خود نہیں چل سکتا تو یہ زمین، چاند ،سورج، ستارے اور بڑا چرخ ؛ خود کیسے چل سکتے ہیں؟ ضرور ان کو چلانے والا کوئی موجود ہے وگرنہ رُک جاتے۔" نوجوان بولا:" کوئی اور بات بھی سیکھی؟" بڑھیا نے کہا: "ہاں! چرخہ سے سیکھا ہے کہ اللہ ایک ہے۔" نوجوان حیران ہو کر بولا: "وہ کیسے؟" بڑھیا بولی :"اگر کوئی میری ساتھی عورت ہوتی اور وہ چرخہ کو اُسی سمت میں چلاتی ،جس میں، میں چلا رہی ہوں تو چرخہ کی رفتار تیز ہو جاتی اور دھاگہ پتلا ہو کر ٹوٹ جاتا اور کام ٹھپّ ہو جاتا اور اگر دوسری عورت میرے مخالف سمت میں زور لگاتی تو یہ جھٹکے لیتا اور آہستہ چلتا۔ اس طرح دھاگہ کی بجائے روئی کے گلوُلے بننے لگتے جو کسی کام کے نہیں۔ تو اگر یہ کائنات یکساں رفتار سے ٹھیک ٹھاک بغیر ہچکولوں کے چل رہی ہے تو اس کو چلانے والا ایک ہے ۔" نوجوان متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔
سیب تو ہزاروں لوگوں کے سروں پر گرے ہوں گے ۔ مگر ایک سیب جب ایک "سیکھنے اور توجہ کرنے والے" کے سر پر گرا ۔تو اس نے غور کیا کہ یہ نیچے کیوں آیا اوپر کیوں نہ گیا ؟ اس نے دنیا کو" لا آف گریویٹیشن" دے دیا۔
سمندر میں جہازوں پر ہزاروں لوگوں نے سفر کیا ہو گا مگر ایک سیلر نے غور کیا کہ دور سے آنے والے جہاز کی پہلے دھوئیں والی چمنی نظر آتی ہے اور بعد میں آہستہ آہستہ پورا جہاز نظر آتا ہے ۔تو اس نے اندازہ لگا لیا کہ آگے سے زمین نیچی ہے اور اگر اسی طرح زمین نیچی در نیچی ہوتی رہے تو اس کا مطلب ہے کہ زمین گول ہے ۔ جبکہ اس سے پہلے زمین کے بارے میں یہ تصور تھا کہ یہ چپٹی ہے۔
جنگ میں ہزاروں بندوقوں نے گولیاں برسائیں ہو نگیں۔ مگر ایک جنگ میں ، جب دشمن فوجی نے بندوق کا فائر کیا تو دفاع کرنے والے فوجی نے بندوق سے شہلہ نکلتے دیکھا اور ایک لمحہ بعد بندوق چلنے کی آواز سنی۔ تو بول اٹھا کہ روشنی کی رفتار آواز کی رفتار سے زیادہ ہے۔
ان سب لوگوں کے پاس وہی دماغ تھا ،وہی آنکھیں تھیں ،وہی کان تھے، وہی ہاتھ تھے، وہی جسم تھا ؛ جو آپ اور ہمارے پاس ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ انہوں نے اردگرد کی چیزوں سے سے سیکھا اور ان پر غور کیا اور اس سے نتیجہ نکالا اور دنیا میں کامیاب ہوگئے ۔
یقین کیجیے! سیکھنا، پلک جھپکنے سے زیادہ آسان ہے۔شرط ہے کہ ایک لمحے کے لئے بھی پلک نہ جھپکیں
Wao sir
ReplyDeletesir it's really great ......wording is attractive as well as story has great curiosity 👌👍
ReplyDeletewao great👍
ReplyDeletethanks , stay blessed.
Deletethanks a lot
ReplyDelete