ایک تصویر ،ایک کہانی، ایک خیال Episode-5
ایک تصویر ،ایک کہانی، ایک خیال
Episode-5
ایک تصویر
ایک کہانی
بادشاہ سو کر اٹھا تو بہت گھبرایا ہوا تھا- ملکہ اسے دیکھ کر پریشان ہوگی اور پوچھا: کیا ہوا ؟ بادشاہ بولا: عجیب خواب دیکھا ہے ! ملکہ بولی: کیسا خواب ؟بادشاہ بولا: خواب میں دیکھا ہے کہ میرے سارے دانت گر گئے ہیں -ملکہ بولی گھبرائیے مت ،تعبیر بتانے والے سے پوچھ لیتے ہیں- تعبیر کرنے والے کو بلایا گیا - بادشاہ نے پوچھا کہ میں نے خواب دیکھا ہے کہ میرے سارے دانت گر گئے ہیں - اس کی تعبیر بتاؤ ؟ وہ بولا: بڑا بُرا خواب ہے - بادشاہ پریشان ہو گیا- پوچھا کیسے؟ وہ بولا: آپ کے بھائی فوت ہو جائیں گے- باد شاہ اور پریشان ہوگیا -وہ بولا : آپ کی بہنیں بھی فوت ہو جائیں گیں- بادشاہ مزید پریشان اور مضطرب ہو گیا - وہ بولا: کہ یہی نہیں ! آپ کے سارے بیٹے بھی فوت ہو جائیں گے -باد شاہ کے پاؤں کے نیچے سے زمین نکل گئی-وہ بو لتا ہی جا رہا تھا -اس نے کہا :آپ کی بیٹیاں بھی فوت ہو جائیں گیں- بادشاہ کی بے چینی اور پریشانی بڑھتی ہی جا رہی تھی- وہ بولا :کہ آپ کے سارے رشتہ دار فوت ہو جائیں گے - بادشاہ کی پریشانی غصہ میں بدل گئی , وہ گرجا: اس کو سو کوڑے لگائے جائیں، اس نے اتنی وحشتناک تعبیر کی ہے - جب بہن بھائی نہ رہے, بیٹے بیٹیاں نہ رہیں ٫عزیز و اقارب نہ رہے تو جینے کا کیا فائدہ ؟ وزیر نے بادشاہ کا اضطراب اور غصہ دیکھ کر کہا: بادشاہ سلامت کسی اور کو بلاتے ہیں، یہ تو پاگل ہے -دوسرا تعبیر خواب کے ماہر کو دربار میں بلایا گیا- بادشاہ اسے دیکھتے ہی سیدھا ہو کر بیٹھ گیا اور جھٹ سے بولا : میں نے رات خواب دیکھا ہے کہ میرے سارے دانت گر گئے ہیں، جلدی سے اس کی تعبیر بتاؤ؟ وہ بولا : سبحان اللہ! کتنا اچھا خواب ہے- آپ کے بہن بھائی لمبی عمر پائیں گے اور گزر جائیں گے مگر آپ سلامت ہونگے، آپ کے بیٹے بیٹیاں بھی طویل عمر کے مزے لوٹ کر چل بسیں گے مگر آپ ابھی بھی زندہ ہوں گے ، اِسی طرح تمام اقرباء سے زیادہ طویل عمر پائیں گے- اس خواب کی تعبیر ہے کہ آپ کی عمر بہت طویل ہے،سب کی خوشیاں دیکھ کر آپ اس دنیا سے رخصت ہونگے- باد شاہ اپنی اور اپنے عزیز و اقارب کی طویل العمری کی خبر سن کر خوش ہو گیا اور اپنی صحت اور درازی عمر کاجان کر اس کا دل باغ باغ ہوگیا ،اس کا چہرہ بشاشت سے دمکنے لگا اور بولا : اس کو سو دینار دے دو ،اس کے وزن کے برابر سونا چاندی دے دو اور اسے ایک گھوڑے کی ایک دن کی مسافت جتنی زمین دے دو- بادشاہ کی خوشی کی انتہا نہ رہی -
ایک خیال
عمدہ گفتگو وہ ہے جس کے الفاظ سے دوسرے کی روح تازہ ہوجائے جبکہ وہی بات دوسرے الفاظ میں اس طرح کی جاۓ کہ روح پارہ پارہ ہو جائے-خواب کی تعبیر ایک تھی مگر ایک کے الفاظ اور بیان سے بادشاہ کو خوشی ہوئی جبکہ دوسرے کے بیان نے اسے آزردہ کردیا- یہاں بانو قدسیہ کی ایک بات یار آ رہی ہے کہ سچ کڑوا نہیں ہوتا، اکثر ہمارا “ بیان کرنے کا انداز “اسے کڑوا بنا دیتا ہے-دوسرے تعبیر کرنے والے کے بیان نے اس "سچ" کو میٹھا جب کہ پہلے نے
- کڑوا بنا دیا
الفاظ کا چناؤ اور انداز بیان بہت اہمیت کا حامل ہے: یہ ایک ایسا سکّہ ہے جو دنیا کے ہر ملک
میں چل سکتا ہے ؛دنیا کے ہر شعبے میں کامیابی دلا سکتا ہے؛ دنیا کے ہر رشتے کو خوبصورت بنا سکتا ہے؛ دنیا کے ہر مسئلے کو حل کر سکتا ہے اور ہر دعا کو قبولیت تک پہنچا سکتا ہے
ایک دفعہ کا ذکر ہے -ایک آدمی بہت غریب تھا ، نہ کھانے کو روٹی، نہ پہننے کو کپڑا، گزر بسر بہت مشکل ہو گیا تھا- اس کی شادی کو دس سال ہو گئے تھے اور کوئی اولاد نہ تھی - لوگوں کی باتیں، رشتہ داروں کے طعنے جلتی پر تیل کا کام کر رہے تھے -اوپر سے والدہ آندھی تھی- اس کی دیکھ بھال کی وجہ سے وہ کسی دوسرے گاؤں بہتر کام کے لئے نہیں جا سکتا تھا- ہر طرف سے مسائل نے اژدہا کی طرح جکڑ رکھا تھا- ایک دن دوست کو حالِ دل سنا رہا تھا- اس نے مشورہ دیا کہ فلاں گاؤں میں ایک بزرگ رہتے ہیں، سنا ہے کہ ان کی دعا قبول ہوتی ہے- دور دور سے لوگ آتے ہیں اور اپنی کوئی ایک دعا کی قبولیت کے لیے درخواست کرتے ہیں- دوست کی بات سنتے ہی، اس نے رختِ سفر باندھا اور اگلے ہی دن بزرگ کے گاؤں کی طرف نکل گیا ہے - راستے میں سوچتا رہا کہ کیا دعا کرواں؟ دل نے کہا دولت مانگ لیتا ہوں ،پھر خیال آیا کہ پیسے تو آ جائیں گے مگر ماں کی تکلیف اور اولاد کی خواہش کا کیا ہو گا ؟ دونوں ماں اور بیوی کا علاج تو ہر جگہ سے کرا چکا ہوں- پھر سوچا کہ اولاد کی دعا کروا لیتا ہوں خیال آیا کہ پہلے ہی کھانا پینا مشکل ہے، بچے پیدا ہوگئے تو انکو کیا کھلاوں گا ؟ پھر سوچا ماں کی بینائی کے لیے دعا کرواتا ہوں- خیال آیا کہ ماں کی آنکھیں ٹھیک ہوگئیں تو وہ میری بدحالی دیکھ کر پریشان ہو جائے گی اور پوتے پوتیوں کو دیکھنے کی خواہش مزید جاگ اٹھے گی- انہی سوچوں میں گم سفر کرتے کرتے بزرگ کے گاؤں پہنچ گیا- پوچھتے پچھاتے ڈیرہ تک چلا گیا- لوگوں کا جمِ غفیر دیکھ کر اس کو یقین ہو گیا کہ کوئی بات تو ہے جو اتنے لوگ آئے ہیں- اپنی باری کا انتظار کرنے لگا- جب باری آئی تو بزرگ کی کٹیا میں داخل ہوا -سادہ کپڑے پہنے ،نورانی چادر اوڑھے ایک بزرگ صف پر بیٹھے تھے -اُسے دیکھ کر بزرگ نے کہا :تو کیا چاہتا ہے؟ اس نے کہا بس ایک دعا کر دیجیے کہ میری اندھی ماں اپنے پوتوں کو سونے کے کٹوروں میں دودھ پیتے دیکھے- بزرگ کے چہرے پر خفیف سی مسکراہٹ آ گئی - بولے قلیل الافاظ اور کثیر المطالب دعا میں ایک فقرہ بول کر تینوں چیزیں مانگ لیں- اس کی ذہانت اور گفتگو کے فن کی تعریف کی- اس کے محض ایک جملے میں دولت، پوتے اور ماں کی بینائی سب کچھ آ گئے
گفتگو کے فن پر حکایت کا سلسلہ کوہ ہمالیہ کے سلسلے سے زیادہ طویل ہے-چناچہ اختصار کے لے ایک اور حکایث درج ہے تاکہ گفتگو کے فن کی افادیت کھل کر سامنے آ جاے! چوری کی وارداتیں جب معمول بن گئیں- تو بادشاہ نے حکم نامہ جاری کیا کہ رات عشاء کے بعد اگر کوئی شخص پھرتا ہوا ملا تو قتل کر دیا جائے گا- کوتوال کو حکم دیا کہ رات کو شہر میں گشّت کرے اور آوارہ گردی کرنے والے کو قتل کردے- کوتوال نے پہلی ہی رات کو تین لڑکوں کو جھومتے ڈولتے پایا- اس نے اُن کو پکڑ لیا - ایک سے پوچھا: تم کون ہو جو بادشاہ کے حکم کی خلاف ورزی کر رہے ہو؟ وہ بولا میں اس شخص کا بیٹا ہوں جس کے سامنے خادم مخدوم سب کی گردنیں جھک جاتی ہیں وہ خنجر کو داہیں باہیں، آگے پیچھے اس طرح چلاتا ہے کہ ان کا خون تک نکال لیتا ہے اور الٹا ان سے مال بٹورتا ہے - کوتوال اس کے قتل سے رک گیا اور دل میں سوچا: اس کا باپ بادشاہ کے خاص لوگوں میں سے نہ ہو-
دوسرے سے پوچھا: تم کون ہو ؟ اس نے کہا میں اس کا بیٹا ہوں، جس کی دیگ کبھی آتش دان( چولے ) سے نہیں اترتی جب اترتی ہے تو دوسری چڑھ جاتی ہے - ایک خلقت ہے جو ان دیگوں سے پیٹ کی آگ بجھاتی ہے- کوتوال نے اس کے قتل کا ارادہ ترک کر دیا کہ یہ کسی امیر کا بیٹا ہے جو بادشاہ کا خاص الخاص ہے -
تیسرے سے پوچھا تم کون ہو ؟ وہ بولا :میں اس کا بیٹا ہوں ہو جو ننگی تلوار لے کر دشمن کی صفوں میں گھس جاتا ہے اور چیر پھاڑ دیتا ہے , ٹکڑے ٹکڑے کر دیتا ہے بعد میں ان کے زخموں کو سوئی سے سی دیتا ہے- کوتوال اس کے قتل سے باز رہا کہ یہ بادشاہ کے کسی قریبی جرنیل کا بیٹا ہے- صبح کوتوال نے رات کا واقعہ بادشاہ کو سنایا- بادشاہ نے ان تینوں کو بلا کر ان کے متعلق تفتیش کی تو معلوم ہوا کہ پہلا لڑکا نائی کا بیٹا ہے؛ دوسرا حجام کا اور تیسرا لڑکا جولاہے کا- بادشاہ کو ان کی فصاحت کلامی پر حیرت ہوئی کہ انہوں نے( بظاہر) ذلیل پیشوں کو کتنے بہتر انداز میں پیش کیا اور آپنے صحیح احوال کو کس خوبی اور دانشمندانہ طرز سے ظاہر کیا یے-ان کا یہ طرز بیان قابل داد ہے- بادشاہ بولا: ان کے کلام میں فصاحت نہ ہوتی تو بخدا میں ان کی گردن کٹوا دیتا- باد شاہ نے ہم نشینوں کو نصیحت کی کہ اپنی اولاد کو ادب کی تعلیم دو تاکہ ان میں خوش گفتاری پیدا ہو
جدید ریسرچ کے مطابق دنیا کے کسی شعبے میں گفتگو کے فن کا حصہ 70 فیصد ہے- اس کا مطلب ہے کہ کسی کام میں کامیابی کا دو تہائی سے زاہد حصہ فن گفتاری میں پوشیدہ ہے-یہ ادراک آج کا نہیں بلکہ دو ہزار سال پرانا ہے
گفتگو کا فن بہت قدیم علم ہے جسے دو ہزار سال سے پہلے یونانیوں نے شروع کیا- ارسطو پہلا باقاعدہ استاد ہے جس نے گفتگو کا فن سکھانے کے لیے اصول مرتب کیے اور کئی ماڈل پیش کیے- اس نے اس موضوع پر تیں جلدوں پر مشتمل ایک کتاب بھی لکھی- اسی طرح سقراط اور افلاطون نے بھی اصول مرتب کیے- اس دور میں عمومآ بارہ سال کی عمر کے لڑکوں کو یہ علم سکھایا جاتا -اسے “پروجی مینیز میٹا” کہتے تھے- سوفسطائی بھی یہ علم پیسے لے کر سکھاتے- رومن کے دور میں اس علم کو عروج ملا اور آج تو یہ علم بڑھ کر ایک سائنس "کمیونیکیشن سِکل" بن گیا یے اور اس علم میں مسلسل ارتقاء ہوتا رہا ہے- ایک ریسرچ کے مطابق گفتگو کی چھے بڑی اقسام ہیں ،جنہیں "سپیچ ایکٹ" کہتے ہیں مثلاً: درخواست، وعدہ،افر ، یقین دہانی، قیاس اور اعلان- اس تحقیق کے مطابق ہم جب بھی بولتے ہیں تو ہماری گفتگو ان چھ سپیچ ایکٹ میں سے ایک ہوتی ہے - یونانی مفکروں کے بعد، رومن مقرر سسیرو سے لے کر آج کے لاس ویل تک ہزاروں لوگوں نے اس علم کو سکھایا اور اس میں اپ گریڈیشن کی
ارسطو کا بویا ہوا بیج آج ایک مکمل درخت بن چکا ہے جسے کمیونیکیشن سِکل کہتے ہیں اس کی چھ اقسام ہیں جن میں سے گفتگو ایک ہے -یعنی وربل، نان وربل، تحریری، فارمل، انفارمل،ویزویل- آج کے دور میں اس میں بہت اضافہ ہوگیا ہے اور یہ علم با قاعدہ ایک ِسکل بن گیا ہے کیونکہ اس کی افادیت پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ گئی ہے- یہ علم زندگی بدل کر رکھ دیتا ہے- ہر قدم پر کامیابی آپکی منتظر ہوتی ہے؛ استاد ہیں تو ماہر؛ وکیل ہیں تو بے مثال؛سیلز مین ہیں تو پیسہ بنانے کی مشین؛ کمپیر ہیں تو رینکنگ میں نمبر ون؛ سیاستدان ہیں تو کامیاب؛ لیڈر ہیں تو شہرہ آفاق؛ مقرر ہیں تو پر تاثیر؛مزہبی رہنما تو دل میں اترنے والے؛ الغرض ہر شعبہ میں کامیابی،کامیابی،کامیابی!
دنیا کے امیر ترین شخص وارن بفٹ کے مطابق کوئی انسان کسی بھی فیلڈ میں اپنی افادیت کو کمونیکیشن سِکل کے ذریعہ پچاس فی صد تک بڑھا سکتا ہے- بقول رابرٹ ٹروجیلو کمیونیکیشن کے ذریعے دنیا کا ہر مسئلہ حل ہو سکتا ہے- جویل اسٹین نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ آپ اپنے ورڈ (الفاظ) کو بدل کر ورلڈ (دنیا) کو بدل سکتے ہیں- تو ایسے میں وہ علم جو ہزاروں سال پہلے مؤثر سمجھا جاتا تھا، آج اس کی افادیت کئی گنا بڑھ گئی ہے-تو اس کو سیکھنے میں دیر کیسی؟ کسی بھی فیلڈ میں کامیابی کے لئے اس کی مہارت حاصل کرنا ضروری نہیں بلکہ لازمی ہے- اس لیے آج سے ہی اس کو سیکھنے کی ابتدا کریں- بقول برائن ٹریسی( مشہور موٹیویشنل سپیکر) کمیونیکیشن سِکل کو سیکھنا ایسے ہی ہے جیسے سائیکل چلانا سیکھنا یا ٹائپنگ کرنا سیکھنا-گویا آج ہی کمیونیکیشن سِکل کی سائیکل پر چڑھ جاہیں؛ گریں ،اٹھیں اور پھر سوار ہو جاہیں_ وہ دن دور نہیں کہ آپ سائیکل کو دوڑا رہے ہونگے_ارادہ کوشش اور مشق: سیکھنے کی چابی کے تین دندانے ہیں
Episode-5
ایک تصویر
ایک کہانی
بادشاہ سو کر اٹھا تو بہت گھبرایا ہوا تھا- ملکہ اسے دیکھ کر پریشان ہوگی اور پوچھا: کیا ہوا ؟ بادشاہ بولا: عجیب خواب دیکھا ہے ! ملکہ بولی: کیسا خواب ؟بادشاہ بولا: خواب میں دیکھا ہے کہ میرے سارے دانت گر گئے ہیں -ملکہ بولی گھبرائیے مت ،تعبیر بتانے والے سے پوچھ لیتے ہیں- تعبیر کرنے والے کو بلایا گیا - بادشاہ نے پوچھا کہ میں نے خواب دیکھا ہے کہ میرے سارے دانت گر گئے ہیں - اس کی تعبیر بتاؤ ؟ وہ بولا: بڑا بُرا خواب ہے - بادشاہ پریشان ہو گیا- پوچھا کیسے؟ وہ بولا: آپ کے بھائی فوت ہو جائیں گے- باد شاہ اور پریشان ہوگیا -وہ بولا : آپ کی بہنیں بھی فوت ہو جائیں گیں- بادشاہ مزید پریشان اور مضطرب ہو گیا - وہ بولا: کہ یہی نہیں ! آپ کے سارے بیٹے بھی فوت ہو جائیں گے -باد شاہ کے پاؤں کے نیچے سے زمین نکل گئی-وہ بو لتا ہی جا رہا تھا -اس نے کہا :آپ کی بیٹیاں بھی فوت ہو جائیں گیں- بادشاہ کی بے چینی اور پریشانی بڑھتی ہی جا رہی تھی- وہ بولا :کہ آپ کے سارے رشتہ دار فوت ہو جائیں گے - بادشاہ کی پریشانی غصہ میں بدل گئی , وہ گرجا: اس کو سو کوڑے لگائے جائیں، اس نے اتنی وحشتناک تعبیر کی ہے - جب بہن بھائی نہ رہے, بیٹے بیٹیاں نہ رہیں ٫عزیز و اقارب نہ رہے تو جینے کا کیا فائدہ ؟ وزیر نے بادشاہ کا اضطراب اور غصہ دیکھ کر کہا: بادشاہ سلامت کسی اور کو بلاتے ہیں، یہ تو پاگل ہے -دوسرا تعبیر خواب کے ماہر کو دربار میں بلایا گیا- بادشاہ اسے دیکھتے ہی سیدھا ہو کر بیٹھ گیا اور جھٹ سے بولا : میں نے رات خواب دیکھا ہے کہ میرے سارے دانت گر گئے ہیں، جلدی سے اس کی تعبیر بتاؤ؟ وہ بولا : سبحان اللہ! کتنا اچھا خواب ہے- آپ کے بہن بھائی لمبی عمر پائیں گے اور گزر جائیں گے مگر آپ سلامت ہونگے، آپ کے بیٹے بیٹیاں بھی طویل عمر کے مزے لوٹ کر چل بسیں گے مگر آپ ابھی بھی زندہ ہوں گے ، اِسی طرح تمام اقرباء سے زیادہ طویل عمر پائیں گے- اس خواب کی تعبیر ہے کہ آپ کی عمر بہت طویل ہے،سب کی خوشیاں دیکھ کر آپ اس دنیا سے رخصت ہونگے- باد شاہ اپنی اور اپنے عزیز و اقارب کی طویل العمری کی خبر سن کر خوش ہو گیا اور اپنی صحت اور درازی عمر کاجان کر اس کا دل باغ باغ ہوگیا ،اس کا چہرہ بشاشت سے دمکنے لگا اور بولا : اس کو سو دینار دے دو ،اس کے وزن کے برابر سونا چاندی دے دو اور اسے ایک گھوڑے کی ایک دن کی مسافت جتنی زمین دے دو- بادشاہ کی خوشی کی انتہا نہ رہی -
ایک خیال
عمدہ گفتگو وہ ہے جس کے الفاظ سے دوسرے کی روح تازہ ہوجائے جبکہ وہی بات دوسرے الفاظ میں اس طرح کی جاۓ کہ روح پارہ پارہ ہو جائے-خواب کی تعبیر ایک تھی مگر ایک کے الفاظ اور بیان سے بادشاہ کو خوشی ہوئی جبکہ دوسرے کے بیان نے اسے آزردہ کردیا- یہاں بانو قدسیہ کی ایک بات یار آ رہی ہے کہ سچ کڑوا نہیں ہوتا، اکثر ہمارا “ بیان کرنے کا انداز “اسے کڑوا بنا دیتا ہے-دوسرے تعبیر کرنے والے کے بیان نے اس "سچ" کو میٹھا جب کہ پہلے نے
- کڑوا بنا دیا
الفاظ کا چناؤ اور انداز بیان بہت اہمیت کا حامل ہے: یہ ایک ایسا سکّہ ہے جو دنیا کے ہر ملک
میں چل سکتا ہے ؛دنیا کے ہر شعبے میں کامیابی دلا سکتا ہے؛ دنیا کے ہر رشتے کو خوبصورت بنا سکتا ہے؛ دنیا کے ہر مسئلے کو حل کر سکتا ہے اور ہر دعا کو قبولیت تک پہنچا سکتا ہے
ایک دفعہ کا ذکر ہے -ایک آدمی بہت غریب تھا ، نہ کھانے کو روٹی، نہ پہننے کو کپڑا، گزر بسر بہت مشکل ہو گیا تھا- اس کی شادی کو دس سال ہو گئے تھے اور کوئی اولاد نہ تھی - لوگوں کی باتیں، رشتہ داروں کے طعنے جلتی پر تیل کا کام کر رہے تھے -اوپر سے والدہ آندھی تھی- اس کی دیکھ بھال کی وجہ سے وہ کسی دوسرے گاؤں بہتر کام کے لئے نہیں جا سکتا تھا- ہر طرف سے مسائل نے اژدہا کی طرح جکڑ رکھا تھا- ایک دن دوست کو حالِ دل سنا رہا تھا- اس نے مشورہ دیا کہ فلاں گاؤں میں ایک بزرگ رہتے ہیں، سنا ہے کہ ان کی دعا قبول ہوتی ہے- دور دور سے لوگ آتے ہیں اور اپنی کوئی ایک دعا کی قبولیت کے لیے درخواست کرتے ہیں- دوست کی بات سنتے ہی، اس نے رختِ سفر باندھا اور اگلے ہی دن بزرگ کے گاؤں کی طرف نکل گیا ہے - راستے میں سوچتا رہا کہ کیا دعا کرواں؟ دل نے کہا دولت مانگ لیتا ہوں ،پھر خیال آیا کہ پیسے تو آ جائیں گے مگر ماں کی تکلیف اور اولاد کی خواہش کا کیا ہو گا ؟ دونوں ماں اور بیوی کا علاج تو ہر جگہ سے کرا چکا ہوں- پھر سوچا کہ اولاد کی دعا کروا لیتا ہوں خیال آیا کہ پہلے ہی کھانا پینا مشکل ہے، بچے پیدا ہوگئے تو انکو کیا کھلاوں گا ؟ پھر سوچا ماں کی بینائی کے لیے دعا کرواتا ہوں- خیال آیا کہ ماں کی آنکھیں ٹھیک ہوگئیں تو وہ میری بدحالی دیکھ کر پریشان ہو جائے گی اور پوتے پوتیوں کو دیکھنے کی خواہش مزید جاگ اٹھے گی- انہی سوچوں میں گم سفر کرتے کرتے بزرگ کے گاؤں پہنچ گیا- پوچھتے پچھاتے ڈیرہ تک چلا گیا- لوگوں کا جمِ غفیر دیکھ کر اس کو یقین ہو گیا کہ کوئی بات تو ہے جو اتنے لوگ آئے ہیں- اپنی باری کا انتظار کرنے لگا- جب باری آئی تو بزرگ کی کٹیا میں داخل ہوا -سادہ کپڑے پہنے ،نورانی چادر اوڑھے ایک بزرگ صف پر بیٹھے تھے -اُسے دیکھ کر بزرگ نے کہا :تو کیا چاہتا ہے؟ اس نے کہا بس ایک دعا کر دیجیے کہ میری اندھی ماں اپنے پوتوں کو سونے کے کٹوروں میں دودھ پیتے دیکھے- بزرگ کے چہرے پر خفیف سی مسکراہٹ آ گئی - بولے قلیل الافاظ اور کثیر المطالب دعا میں ایک فقرہ بول کر تینوں چیزیں مانگ لیں- اس کی ذہانت اور گفتگو کے فن کی تعریف کی- اس کے محض ایک جملے میں دولت، پوتے اور ماں کی بینائی سب کچھ آ گئے
گفتگو کے فن پر حکایت کا سلسلہ کوہ ہمالیہ کے سلسلے سے زیادہ طویل ہے-چناچہ اختصار کے لے ایک اور حکایث درج ہے تاکہ گفتگو کے فن کی افادیت کھل کر سامنے آ جاے! چوری کی وارداتیں جب معمول بن گئیں- تو بادشاہ نے حکم نامہ جاری کیا کہ رات عشاء کے بعد اگر کوئی شخص پھرتا ہوا ملا تو قتل کر دیا جائے گا- کوتوال کو حکم دیا کہ رات کو شہر میں گشّت کرے اور آوارہ گردی کرنے والے کو قتل کردے- کوتوال نے پہلی ہی رات کو تین لڑکوں کو جھومتے ڈولتے پایا- اس نے اُن کو پکڑ لیا - ایک سے پوچھا: تم کون ہو جو بادشاہ کے حکم کی خلاف ورزی کر رہے ہو؟ وہ بولا میں اس شخص کا بیٹا ہوں جس کے سامنے خادم مخدوم سب کی گردنیں جھک جاتی ہیں وہ خنجر کو داہیں باہیں، آگے پیچھے اس طرح چلاتا ہے کہ ان کا خون تک نکال لیتا ہے اور الٹا ان سے مال بٹورتا ہے - کوتوال اس کے قتل سے رک گیا اور دل میں سوچا: اس کا باپ بادشاہ کے خاص لوگوں میں سے نہ ہو-
دوسرے سے پوچھا: تم کون ہو ؟ اس نے کہا میں اس کا بیٹا ہوں، جس کی دیگ کبھی آتش دان( چولے ) سے نہیں اترتی جب اترتی ہے تو دوسری چڑھ جاتی ہے - ایک خلقت ہے جو ان دیگوں سے پیٹ کی آگ بجھاتی ہے- کوتوال نے اس کے قتل کا ارادہ ترک کر دیا کہ یہ کسی امیر کا بیٹا ہے جو بادشاہ کا خاص الخاص ہے -
تیسرے سے پوچھا تم کون ہو ؟ وہ بولا :میں اس کا بیٹا ہوں ہو جو ننگی تلوار لے کر دشمن کی صفوں میں گھس جاتا ہے اور چیر پھاڑ دیتا ہے , ٹکڑے ٹکڑے کر دیتا ہے بعد میں ان کے زخموں کو سوئی سے سی دیتا ہے- کوتوال اس کے قتل سے باز رہا کہ یہ بادشاہ کے کسی قریبی جرنیل کا بیٹا ہے- صبح کوتوال نے رات کا واقعہ بادشاہ کو سنایا- بادشاہ نے ان تینوں کو بلا کر ان کے متعلق تفتیش کی تو معلوم ہوا کہ پہلا لڑکا نائی کا بیٹا ہے؛ دوسرا حجام کا اور تیسرا لڑکا جولاہے کا- بادشاہ کو ان کی فصاحت کلامی پر حیرت ہوئی کہ انہوں نے( بظاہر) ذلیل پیشوں کو کتنے بہتر انداز میں پیش کیا اور آپنے صحیح احوال کو کس خوبی اور دانشمندانہ طرز سے ظاہر کیا یے-ان کا یہ طرز بیان قابل داد ہے- بادشاہ بولا: ان کے کلام میں فصاحت نہ ہوتی تو بخدا میں ان کی گردن کٹوا دیتا- باد شاہ نے ہم نشینوں کو نصیحت کی کہ اپنی اولاد کو ادب کی تعلیم دو تاکہ ان میں خوش گفتاری پیدا ہو
جدید ریسرچ کے مطابق دنیا کے کسی شعبے میں گفتگو کے فن کا حصہ 70 فیصد ہے- اس کا مطلب ہے کہ کسی کام میں کامیابی کا دو تہائی سے زاہد حصہ فن گفتاری میں پوشیدہ ہے-یہ ادراک آج کا نہیں بلکہ دو ہزار سال پرانا ہے
گفتگو کا فن بہت قدیم علم ہے جسے دو ہزار سال سے پہلے یونانیوں نے شروع کیا- ارسطو پہلا باقاعدہ استاد ہے جس نے گفتگو کا فن سکھانے کے لیے اصول مرتب کیے اور کئی ماڈل پیش کیے- اس نے اس موضوع پر تیں جلدوں پر مشتمل ایک کتاب بھی لکھی- اسی طرح سقراط اور افلاطون نے بھی اصول مرتب کیے- اس دور میں عمومآ بارہ سال کی عمر کے لڑکوں کو یہ علم سکھایا جاتا -اسے “پروجی مینیز میٹا” کہتے تھے- سوفسطائی بھی یہ علم پیسے لے کر سکھاتے- رومن کے دور میں اس علم کو عروج ملا اور آج تو یہ علم بڑھ کر ایک سائنس "کمیونیکیشن سِکل" بن گیا یے اور اس علم میں مسلسل ارتقاء ہوتا رہا ہے- ایک ریسرچ کے مطابق گفتگو کی چھے بڑی اقسام ہیں ،جنہیں "سپیچ ایکٹ" کہتے ہیں مثلاً: درخواست، وعدہ،افر ، یقین دہانی، قیاس اور اعلان- اس تحقیق کے مطابق ہم جب بھی بولتے ہیں تو ہماری گفتگو ان چھ سپیچ ایکٹ میں سے ایک ہوتی ہے - یونانی مفکروں کے بعد، رومن مقرر سسیرو سے لے کر آج کے لاس ویل تک ہزاروں لوگوں نے اس علم کو سکھایا اور اس میں اپ گریڈیشن کی
ارسطو کا بویا ہوا بیج آج ایک مکمل درخت بن چکا ہے جسے کمیونیکیشن سِکل کہتے ہیں اس کی چھ اقسام ہیں جن میں سے گفتگو ایک ہے -یعنی وربل، نان وربل، تحریری، فارمل، انفارمل،ویزویل- آج کے دور میں اس میں بہت اضافہ ہوگیا ہے اور یہ علم با قاعدہ ایک ِسکل بن گیا ہے کیونکہ اس کی افادیت پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ گئی ہے- یہ علم زندگی بدل کر رکھ دیتا ہے- ہر قدم پر کامیابی آپکی منتظر ہوتی ہے؛ استاد ہیں تو ماہر؛ وکیل ہیں تو بے مثال؛سیلز مین ہیں تو پیسہ بنانے کی مشین؛ کمپیر ہیں تو رینکنگ میں نمبر ون؛ سیاستدان ہیں تو کامیاب؛ لیڈر ہیں تو شہرہ آفاق؛ مقرر ہیں تو پر تاثیر؛مزہبی رہنما تو دل میں اترنے والے؛ الغرض ہر شعبہ میں کامیابی،کامیابی،کامیابی!
دنیا کے امیر ترین شخص وارن بفٹ کے مطابق کوئی انسان کسی بھی فیلڈ میں اپنی افادیت کو کمونیکیشن سِکل کے ذریعہ پچاس فی صد تک بڑھا سکتا ہے- بقول رابرٹ ٹروجیلو کمیونیکیشن کے ذریعے دنیا کا ہر مسئلہ حل ہو سکتا ہے- جویل اسٹین نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ آپ اپنے ورڈ (الفاظ) کو بدل کر ورلڈ (دنیا) کو بدل سکتے ہیں- تو ایسے میں وہ علم جو ہزاروں سال پہلے مؤثر سمجھا جاتا تھا، آج اس کی افادیت کئی گنا بڑھ گئی ہے-تو اس کو سیکھنے میں دیر کیسی؟ کسی بھی فیلڈ میں کامیابی کے لئے اس کی مہارت حاصل کرنا ضروری نہیں بلکہ لازمی ہے- اس لیے آج سے ہی اس کو سیکھنے کی ابتدا کریں- بقول برائن ٹریسی( مشہور موٹیویشنل سپیکر) کمیونیکیشن سِکل کو سیکھنا ایسے ہی ہے جیسے سائیکل چلانا سیکھنا یا ٹائپنگ کرنا سیکھنا-گویا آج ہی کمیونیکیشن سِکل کی سائیکل پر چڑھ جاہیں؛ گریں ،اٹھیں اور پھر سوار ہو جاہیں_ وہ دن دور نہیں کہ آپ سائیکل کو دوڑا رہے ہونگے_ارادہ کوشش اور مشق: سیکھنے کی چابی کے تین دندانے ہیں
No comments
Thanks for your comments.