ایک تصویر، ایک کہانی ، ایک خیال Episode-4
Episode-4
ایک تصویر
ایک کہانی
برگد کے اونچے درخت پر بزرگ کوٌا بیٹھا، اپنے بچوں کو کہانی سنا رہا تھا کہ گرمیوں کے دن تھے اور مجھے سخت پیاس لگی۔ میں نے پانی کی تلاش میں اڑنا شروع کردیا ۔ ایک گھر کی چھت پر مجھے ایک گھڑا نظر آیا ،میری خوشی کی انتہا نہ رہی ۔ میں نے فورا نیچے کی طرف ُاڑان بھری اور اس گھڑے کے اوپر بیٹھ گیا ۔جو نہی میری نظر گھڑے کے اندر پڑی تو میرے اوسان خطا ہو گئے کیونکہ کہ پانی کی سطح بہت نیچے تھی اور میری چونچ وہاں تک نہیں پہنچ سکتی تھی۔ میں مایوس نہیں ہوا اور حل سوچنے لگا۔ اچانک میری نظر کنکروں پر پڑی جو چھت پر بکھرے ہوئے تھے۔ میرے ذہن میں ایک خیال آیا کہ ان کو گھڑے میں ڈال کر پانی کی سطح اوپر کرلوں۔ میں نے ایک ایک کر کے چند کنکر یاں ڈالیں حتی کہ پانی کی سطح اتنی بلند ہوگی کہ میری چونچ اس تک پہنچ سکتی تھی۔ میں نے خوب پانی پیا اور اپنی پیاس بجھائی۔ دونون نوجوان کووں اور ان کی بہن ( مادہ کوا ) کوی نے غور سے والد کی بات سنی۔ کچھ سالوں کے بعد تینوں کوے بڑے ہوگئے۔ ایک دن گرمی اپنے جوبن پر تھی اور سورج آگ برسا رہا تھا۔ ایک کوے کو پیاس لگی ،اُس کو باپ کی بات یاد آگئی۔ وہ پانی کی تلاش میں اڑنے لگا۔ اسے ایک چھت پر پانی کا گھڑا نظر آیا ۔ وہ اس پر جا کر بیٹھا تو پانی کی سطح بہت نیچی تھی۔ اُس نے اِدھر اُدھر دیکھا تو اسے مٹی کے ڈھیلے نظر آئے ۔اس نے بڑی مشقت سے ڈھیلے اٹھا کر گھڑے میں ڈالے ۔تھکان سے اس کا برا حال ہوگیا۔ جب سارے ڈھیلے ڈال دیے تو خوشی سے پانی پینے کے لئے گھڑے کے منہ پر بیٹھا اور اندر جھانکا، اس کو دیکھ کر بہت پریشانی ہوئی کیونکہ کہ ڈیھلوں نے پانی چوس لیا تھا اور گھڑے میں پانی کی جگہ اب کیچڑ تھا ۔
اُسی دن ، اس کے چھوٹے بھائی کو پیاس لگی ۔ اس نے بھی پانی کی تلاش میں اڑنا شروع کر دیا ۔ اسے ایک مکان کی چھت پر ایک شیشے کا جگ نظر آیا جس میں پانی تو تھا مگر کم ۔اسے والد کی بات یاد آگئی، اس نے چھت پر نظر دوڑائ تو اسے پتھر نظر آئے ۔ وہ خوش ہو گیا کہ ان کو جگ میں ڈال کر پانی کی سطح کو بلند کر لوں گا۔ اس نے ایک بھاری پتھر اٹھایا اور اندر پھینکا۔ پتھر جگ کو لگا اور وہ ٹوٹ گیا اور سارا پانی چھت پر بہہ گیا۔ شام کو دونوں کوٌے دیر سے گھر آئے ۔ تھکاوٹ سے برا حال تھا۔ اُن کی بڑی آپا ان کا انتظار کر رہی تھی۔ اس نے ان کو دیکھ کر ان سے پوچھا کہ آج دیر سے گھر کیوں اے اور اتنی بری حالت ؟ دونوں نے اپنی رُوداد سنائی۔ وہ ہنسنے لگ پڑی اور بولی: بڑے بھائی! آپ کو چاہیے تھا کہ کہ کسی بوتلوں کی دکان کے باہر کوڑے دان سے “سٹرا” لے آتے اور اس کو اندر ڈال کر پانی پیتے جیسے انسان بوتلیں پیتے ہیں ۔ پھر وہ چھوٹے بھائی کی طرف مڑی اور بولی: تمہیں چاہیے تھا کہ جس پتھر کو جگ کے اوپر پھینکا ہے، اس پتھر کو جگ کی ایک طرف رکھ کر جگ کو دوسری طرف سے دھکا مارتے ، جگ لڑھکتا اور پانی نیچے آ جاتا، اس کے منہ پر اپنا منہ رکھ کر پانی پی لیتے ۔
جب حالات بدل جائیں تو اس کے مطابق طریقہ بدل لیتے ہیں اور خود کو اپ گریڈ کر لیتے ہیں۔
پھر بتانے لگی کہ آج مجھے بھی پیاس لگی تھی ۔میں پانی کی تلاش میں اڑنے لگی۔ ایک چھت پر گھڑا نظر آیا، میں خوش ہوگی ۔ جو نہی ، اس کے منہ پر بیٹھی تو دیکھا کہ پانی کی سطح کم ہے۔ چھت پر اِدھر اُدھر دیکھا تو مجھے تین طرح کی چیزیں: مٹی کے ڈھیلے ، بڑے پتھر اور ایک رسی نظر آئی ۔ میں نے سوچا کہ ڈیھلے ڈالتی ہوں تو خیال آیا کہ خشک مٹی تو سارا پانی چوس لے گی۔ اب سوچا کہ پتھر اٹھا کر ڈالتی ہوں تو فوراً خیال آیا کہ پتھر گرنے سے کہیں گھڑا نہ ٹوٹ جائے ۔ میں نے رسی اٹھائی اور اس کا ایک سرا منہ میں رکھا اور دوسرا پانی میں ڈبو دیا۔جب وہ سرا گیلا ہو گیا تو میں نے رسی کو کھینچ لیا اور گیلے سرے کو چوس لیا ۔ میں یہ سب اُس وقت تک کرتی رہی جب تک کہ میری پیاس نہ بجھی۔ بھائیو! اپنے آپ کو تبدیل کرو اور نئے طریقے سیکھو ؛ لکیر کے فقیر نہ بنو! اپنے آپ کو "اپ گریڈ" کرو وگرنہ یونہی ناکام ہوتے رہو گے !
ایک خیال
زندگی ایک مسلسل تبدیلی کا نام ہے ۔ بقول اقبال
"ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں "
تبدیلی زندگی کا لازمی حصہ ہے۔ وہ شخص کامیاب ہے جو بدلتے حالات کے ساتھ اپنے طور طریقے بدل لیتا ہے ۔ جس طرح کوے کی کہانی میں کوی نے کنکریوں کی جگہ (جو اس بزرگ کوے کو ملی تھی). ڈیھلے، پتھر اور رسی ملیں تو نئ چیزوں کو دیکھ کر اس نے نیا طریقہ اپنایا اور کامیاب ہو گئی۔جبکہ اس کے دونوں بھائیوں نے رٹا رٹایا ابا جان کے طریقے پر عمل کیا آور ناکام ہو گئے۔ انہوں نے بدلی ہوئی اشیا کے ساتھ بدلا ہوا طریقہ نہ اپنایا اور پیاسے رہے۔ اسی طرح وہ لوگ جو پرانے راگ الاپتے رہتے ہیں۔ وہ بھی زندگی کے مزوں کی پیاس لے کر گزر جاتے ہیں۔ اس لیے اپ گریڈ کرنے کے علاوہ انسان کے پاس کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک شخص ٹو پیاں بناتا تھا اور پھر گاؤں گاؤں پھر کر ، ان کو بیچثا تھا اور روزی روٹی کماتا تھا۔ ایک دن وہ جنگل سے گزر رہا تھا۔ دوپہر کا وقت تھا۔ اسے بھوک لگی۔ اس نے پوٹلی کھولی ،کھانا کھایا ، اسے نیند آ گئی اور وہ سو گیا ۔ جب اٹھا تو دیکھا کہ ٹوپیوں والا تھیلا خالی تھا۔ وہ پریشان ہوگیا کہ اس کا سارا اسباب لٹ گیا۔ وہ کمائے گا کیسے؟ اچانک اس کی نظر اوپر درختوں پر پڑی تو دیکھا کہ بندروں نے اس کی ٹوپیاں پہن رکھی ہیں۔ وہ سوچ میں پڑگیا کہ اب کیا کرے؟ اسے خیال آیا کہ بندر نقال ہوتے ہیں۔ اس نے کھڑے ہوکر اپنے سر سے ٹوپی اتار کر نیچے پھینک دی ،اس کو دیکھتے ہی نقال بندروں نے بھی ٹوپیاں پھینک دیں۔ اس نے ان کو اکٹھا کیا ،تھیلے میں ڈالا اور اپنے سفر پر روانہ ہو گیا۔ گھر واپسی پر اس نے سارا واقعہ اپنے بیٹے اور بیٹی کو سنایا۔
کچھ سالوں کے بعد وہ بہت بوڑھا ہو کر مر گیا ۔اب اس کے بیٹے نے باپ کا کام شروع کردیا۔ ایک دن جب بیٹا جنگل سے گزر رہا تھا اور دوپہر کا کھانا کھا کر سو گیا تو بندروں نے اس کی ٹوپیاں چوری کرلیں۔ جب سو کر اٹھا تو اس کا تھیلا خالی تھا اور درختوں پر بندروں نے ٹوپیاں پہن رکھی ثھیں۔اس کو والد کا واقعہ یاد آیا ۔وہ دل میں ہنسا کہ نقال بندرو ! تمہارا علاج میرے پاس ہے ؟ وہ کھڑا ہوا اور اپنی ٹوپی اتار کر نیچے پھینک دی۔ اس کو حیرانی ہوئی کہ کسی بندر نے ٹوپی نہیں اتاری ۔ایک بندر بولا : جناب! اب ہم نے طریقہ بدل دیا ہے ، ہم نے خود کو اپ گریڈ کر لیا ہے۔ اب ہم اس چال میں پھنسنے والے نہیں۔
وہ خالی ہاتھ گھر لوٹ آیا ۔ گھر بہن کو سارا واقعہ سنایا۔ اس نے کہا مجھے جنگل میں اسی جگہ لے جاؤ ۔جب وہ دونوں وہاں پہنچے تو دونوں نے ٹوپیاں پہن رکھی تھیں۔ تھوڑی دیر بیٹھنے کے بعد، دونوں اٹھے اور اچھلنا شروع کر دیا اور قہقہے لگانے لگے جیسے کہ بچے کھیل رہے ہوں۔ بندر تھوڑی دیر ان کا اچھلنا کودنا دیکھتے رہے پھر انہوں نے بھی اچھلنا شروع کردیا ۔اچھلنے سے ان کی ٹوپیاں نیچے گر گئیں۔ دونوں بہن بھائ نے ٹوپیاں اکھٹی کیں اور گھر لوٹ آئے ۔ واپسی پر راستے میں بھائی نے بڑی بہن سے پوچھا: تمہیں یہ طریقہ کس نے بتایا ہے؟ بہن بولی کے بندر اچھلنے کو دنے کے شوقین ہوتے ہیں ۔ایک شاخ سے دوسری شاخ پر اچھلتے رہتے ہیں ۔ میں نے سوچا کہ جب ہم اچھلیں گے تو ان کے اندر کی ا چھلنے کی فطرت جاگ جائے گی، وہ جب اچھلیں گے تو ان کے سر چھوٹے ہیں اور ٹوپیاں بڑی ،اس طرح ان کی ٹوپیاں گر جائیں گی۔میں نے نئے طریقہ سے ان کو پھنسا لیا۔
دنیا بھر میں ہر ایک کی زبان پرتھا:
نوکیا, نوکیا، نوکیا ! مگر اب نوکیا مارکیٹ سے ایسا غائب ہوا جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔ نوکیا کے زوال کی وجہ اپ گریڈ ہونے سے انکار ہے۔
یہ کمپنی اٹھارہ سو پینسٹھ میں فن لینڈ میں ایک کاغذ کے کارخانے میں قائم ہوئی۔ یہ ایک ملٹی نیشنل کمپنی تھی جو کئ طرح کے کاروبار کرتی تھی : کمیو نیکیشن ، انفارمیشن ٹیکنالوجی اور الیکٹرانکس آلات ۔ دیکھتے ہی دیکھتے یہ دنیا کی سب سے بڑی کمپنی بن گئی۔ اس نے " موبیرا" نام کی ٹیلی فونک کمپنی کو خریدا ,جس نے ہینڈ سیٹ بنائے۔ انیس سو اکاسی میں پہلی دفعہ دس کلو گرام کا کار فون بنایا۔ انیس سو چوراسی میں پہلا پانچ کلو گرام کا ٹرانسپورٹیبل فون بنایا۔ انیس سو ستاسی میں آٹھ سو گرام کا "موبیرا سٹی مین" فون بنایا جس کی سیل ایک دم آسمان کو چھونے لگی۔ انیس سو اکانوے میں فن لینڈ کے وزیر اعظم ہاری ہرکیرا، دنیا کا پہلے شخص تھا جس نے پہلی "جی ایس ایم" کال نوکیا کے فون سے کی۔ انیس سو بانوے میں ایک ہزار گیارہ موبائل بنایا ، جو سارے یورپ اور امریکہ میں پھیل گیا ۔ انیس سو چورانوے میں اکیس سیر یز نکالی تو بہت پھیلی۔ کمپنی کا خیال تھا کہ چار لاکھ فون بکیں گے مگر دو سو لاکھ فون بک گئے ۔انیس سو بانوے میں نوکیا نے گول سیٹ کیا کہ اگلے سات سال میں چارسو لاکھ فون بیچیں گے مگر مارکیٹ اتنی پھیل چکی تھی کہ نوکیا نے پچیس سو لاکھ فون بیچ ڈالے۔ دنیا کے پچاس سب سے زیادہ بکنے والے فون میں ، ٹاپ بیس فون نوکیا کے تھے۔ دو ہزار آٹھ میں نوکیا نے پنچتالیس سو لاکھ فون بیچے ۔نوکیا مکمل طو پر موبائل مارکیٹ پر چھایا ہوا تھا- دو ہزار تین سے دو ہزار پانچ تک نوکیا نے ' گیارہ سو" اور 'گیارہ سو دس" بنائے جن کی شہرت آج بھی ہے۔ یورپ میں ساٹھ فیصد اور ایشیا میں ستر فی صد مارکیٹ شیئر نوکیا کا تھا۔ جو آج بھی ایک ریکارڈ ہے۔نوکیا کا فن لینڈ کے "جی ڈی پی" میں حصہ چار فیصد؛ درآمد میں اکیس فیصد اور سٹاک ایکسچینج میں ستر فیصد تھا۔اسکی سیل ایک سو پچاس ملکوں میں تھی اور آمدن بارہ ارب یورو تھی۔
مگر دو ہزار سات میں سٹیو جاب کے آئی فون اور دو ہزار آٹھ میں گوگل کے اینڈرائیڈ کی انٹری ہوئی تو نوکیا منہ کے بل گر گیا، اس کی فروخت میں تیس فیصد کمی ہوگئی۔ اس طرح نہ صرف یورپ اور امریکہ کی مارکیٹ اس کے ہاتھوں سے نکلنے لگی بلکہ ایشیا میں موٹرولا اور سام سنگ نے "فلپ فون" متعارف کرایا ۔"کھولو، بند کرو" لوگوں کو یہ بات نیو لگی اور دھڑا دھڑ فلپ فون خریدنے لگے ۔یہاں بھی نوکیا کو منہ کی کھانی پڑی۔
نوکیا کو یہ بات سمجھ نہ آئی کہ اب مارکیٹ 'ہارڈویئر" کی نہیں , "سافٹ ویئر'کی ہوچکی ہے۔ نوکیا اب بھی اپنی ہارڈ ویئر کی مضبوطی پر چل رہا تھا۔ اس کا نعرہ تھا کہ ہمارا موبائل زمین پر پھینک دو تو ٹوٹتا نہیں ہے ۔ نوکیا اب بھی گھڑے میں پتھر پھینکنے پر بضد تھا۔جب کہ دنیا سافٹ ویئر میں داخل ہو چکی تھی۔ ایپل کے پاس تین لاکھ ایپ تھے اور گوگل کے اینڈرائیڈ کے پاس سوا لاکھ۔ نوکیا کے پاس صرف بیس ہزار ایپ تھے۔ نوکیا "سمبئین " کے ساتھ چپکا ہوا تھا اور اس کے انجینئر آج بھی ہارڈ ویئر پر کام کر رہے تھے ۔اینڈرائیڈ نے دنیا کو ایسا پلیٹ فارم دیا؛ جہاں سب آ کر اپنے موبائل ایپ بنا سکتے تھے چنانچہ سارے ہینڈ سیٹ والے ، اینڈرائیڈ پر شفٹ ہو گئے۔ اینڈرائیڈ نے ایک باہمی مدد کی کمیونٹی بنا لی ،جسے ایکوسسٹم کہتے ہیں۔ نوکیا جس کے ملازمین لاکھوں میں؛ سیل کروڑوں میں اور آمدن اربوں میں تھی ؛ آج اپنے ملازمین کو ہزاروں کی تعداد میں نکال رہا تھا اور اپنی فیکٹریاں بند کر رہا تھا ۔نوکیا کی سالانہ کانفرنس جس میں دنیا بھر سے گیارہ سو ٹاپ ملازمین شرکت کی۔ ان کو سی ای او نے خطاب کرنا تھا ۔ جب وہ اسٹیج پر آیا تو رونے لگ پڑا۔ روثے روتے اس نے ایک بات کہی کہ ہمیں اب کمپنی کو بیچنا ہوگا اور ختم کرنا ہوگا ۔ اس کی بڑی وجہ ہے کہ ہم سے صرف ایک غلطی ہوگئی کہ ہم نے وقت کے تقاضوں کے ساتھ اپنے پراڈکٹ کو اپ گریڈ نہیں کیا (یعنی گرو کرو یا گورکن کے پاس جاؤ۔) اپ گریڈ کرو یا تاریخ کے اوراق پر اپلوڈ ہو جاؤ ۔
نوکیا نے سٹیفن ایلوپ کو نیا سی ای او بنا لیا ۔اس نے کہا : ہم ایک جلتی ہوئی بلڈنگ میں کھڑے ہیں اور نیچے پانی ہے! یا تو آگ بجھانے میں لگے رہو یا پانی میں کود جاؤ. ہمیں تبدیلی لانی ہوگی، ہمیں پانی میں کودنا ہو گا ! وہ گوگل کے سی ای او کو ملنے گیا کہ اینڈرائڈ لے لیتے ہیں۔ پھر خیال آیا کہ سمبئین کو چھوڑ کر اینڈ رائیڈ لیا تو ہم بھیڑ میں آجائیں گے۔ کیا فائدہ ہوگا ۔ اس نے " بلیو اوشن پالیسی " کے تحت مائیکروسافٹ کے نیلے سمندر میں چھلانگ لگا دی. وہ مائیکروسافٹ کے سی ای او کے پاس گیا اور کہا: “ آپ کے پاس سافٹ ویئر ونڈو ہے اور ہمارے پاس ہارڈویئر ۔ دونوں مل جائیں تو دنیا میں نمبر ایک پر آجائیں گے۔” پتھر پھینکنے کا کیڑا ابھی بھی دماغ میں تھا ۔وہ بھول گیا کہ ونڈو موبائل سے مطابقت نہیں رکھتی اور مائیکروسافٹ موبائل کے لئے کوئی ایپ نہیں بنا رہا۔ پتھر پھینکا مگر جگ ٹوٹ گیا ۔ پھر پیاسے کے پیاسے ہی رہے۔
دو ہزار سولہ میں "بڑی بہن" نے مشورہ دیا کہ اینڈرائڈ کی رسی کو پکڑو چنانچہ نوکیا کے ایکس ملازمین نے مل کر "ایچ ڈی ایم" بنائی اور اینڈرائیڈ کو اپنا لیا اور نئے ایکو سسٹم کا حصہ بن گئے۔ اب فاکسکان فون بنا رہا ہے ؛ برا نڈ کا نام نوکیا ہے؛ دنیا میں سب سے زیادہ بکنے والے موبائل کی قیمت کی رینج دس سے بیس ہزار ہے ۔اب نوکیا اِسی رینج کے موبائل بنا رہا ہے ؛ ڈسٹریبیوٹر اور ریٹیلر کو پہلے کم منافع دیتا تھا, اب زیادہ دے رہا ہے؛ نوکیا نے چھ سمارٹ فون اور پانچ فیچر فون بنا دیے ہیں۔ چار سو ڈسٹریبیوٹر بنا لیے ہیں اور اسی ہزار ریٹیلرز ، تین سو شہروں میں مفت " آفٹر سیل سروس "بنا دی ہے۔ جو کام عام کمپنی تین سال میں کرتی ہے ، نوکیا نے پہلے تین ماہ میں کر دیا ہے۔ اپ گریڈیشن کام دکھا رہی ہے۔ نوکیا کا عروج و زوال اور پھر اٹھنے میں, یہی سبق چھپا ہے کہ اپنے آپ کو حالات کے مطابق ڈھال لو، تبدیلی کو قبول کرو اور اپنے آپ کو اپ گریڈ کرو۔ اگر نوکیا نے چودہ سو سال پہلے کہی ہوئی بات پر عمل کیا ہوتا تو زوال سے لازمی طور پر بچ جاتا ۔ اُس بات کا مفہوم ہے:
ہلاک ہوا وہ شخص جس کا آج ؛"
" ! کل سے بہتر نہیں
No comments
Thanks for your comments.