Wednesday, 31 July 2019

INTERESTING CYCLE OF STUDYING ; A THOUGHT OF THE DAY

INTERESTING  CYCLE OF STUDYING ; A THOUGHT OF THE DAY

THE MORE YOU STUDY, THE MORE YOU KNOW
THE MORE YOU KNOW,  THE MORE YOU FORGET
THE MORE YOU FORGET,THE LESS YOU KNOW
THE LESS YOU KNOW, THE  LESS YOU FORGET
THE LESS YOU FORGET, THE MORE YOU KNOW

Tuesday, 30 July 2019

KEY OF LEARNING; A THOUGHT OF THE DAY

KEY OF LEARNING; A THOUGHT OF THE DAY

     If one really wants to learn, the whole UNIVERSE becomes a teacher. Each and every thing of it, springs up to bestow knowledge. Just pay attention to that very object and then be all ears to listen the cosmic lyric of learning. Believe it, learning is as easy as blinking of eyes but there is a condition:Never blink !
          
For detail of above read story in Urdu ;https://profwaqarhussain.blogspot.com/2019/07/blog-post_29.html

Monday, 29 July 2019

ایک تصویر؛ ایک کہانی؛ ایک خیال Episode-7

ایک تصویر؛ ایک کہانی؛ ایک خیال
Episode-7
ایک تصویر

ایک کہانی
جونہی گھنٹی بجی ، طلباء سر سندیپ کی آمد کے لئے تیار ہوگئے ۔ چند لمحوں کے بعد ، وہ کلاس میں داخل ہوئے ۔ طلباء اپنی سیٹوں سے کھڑے ہوگئے۔ انہوں نے گڈ مارننگ کہہ کر سب کو ہاتھ کے اشارے سے بیٹھنے کے لیے کہا ۔آج خلاف معمول اُن کے ہاتھ میں ایک جوتوں کا ڈبہ تھا۔ انہوں نے ڈبہ کھولا اور اس میں سے نئے جوتوں کا جوڑا نکال کر روسٹم پر رکھ دیا اور بولے کہ آج کا لیکچر یہ" شوز" لیں گے اور خود اسٹوڈنٹ کی کرسیوں کی جانب بڑھ گئے اور ایک لڑکے کو پیچھے بھیج کر اس کی کرسی پر بیٹھ گئے۔
ساری کلاس پر سکوت طاری تھا ۔ ہر کوئی حیران تھا کہ آج کیا ہونے والا ہے ؟ طلباء کبھی سر سندیپ کو دیکھتے اور کبھی شوز کو۔اچانک سر سندیپ بولے اور خاموشی کا غبارہ پھٹ گیا۔" ان شوز پر غور کرو اور بتاؤ کہ آپ نے ان سے کیا سیکھا ہے ؟ کلاس میں پھر خاموشی چھا گئی۔ سر سندیپ نے گردن کو پیچھے موڑا اور ایک لڑکے کو اشارے سے بولنے کا کہا ۔ لڑکا پہلے تو گھبرایا اور کھڑا ہو کر لڑکھڑاتی آواز میں بولا: سر! شوز میں تسمے ہوتے ہیں۔ جب ہم درڑتے ہیں تو ہم ان کو کَسّ لیتے ہیں اور جب آہستہ چلنا ہو ، تو ہم ان کو ڈھیلا کر لیتے ہیں۔ اسی طرح زندگی میں ہم اپنے ایٹیٹیوڈ کو حالات کے مطابق کبھی ٹائٹ کر کے اور کبھی لُوز کرکے زندگی کو بہتر بنا سکتے ہیں ۔ سر سندیپ نے اس دلچسپ بات   کو بہت سراہا  اور طلباء کی طرف دیکھا ، جیسے کہہ رہے ہوں:" کوئی اور سبق بھی ہے ؟"
دوسرا لڑکا کھڑا ہوگیا  اور بولا کہ سر ! زندگی میں چاہے جتنی بھی کامیابی مل جائے , ہمیں "ڈاؤن ٹو ارتھ" رہنا چاہیے۔ شو چاہے مہنگا ہو یا سستا۔ کبھی سر پر نہیں چڑھتا۔ ہمیشہ زمین پر رہتا ہے۔ ہمیں بھی ڈاؤن ٹو ارتّھ رہنا چاہیے ۔ سر نے اس کے نتیجہ کی  تعریف کی۔
اب کیا تھا ! ساری کلاس شوز کو دیکھ رہی تھی اور دماغ میں تخیّلات کی آندھیاں چل رہی تھیں۔زہنوں میں ہلچل مچ چکی تھی ۔ ہر کوئی بولنے کے لئے ہاتھ کھڑا کر رہا تھا۔ بس ، سر سندیپ کی اجازت کی ضرورت تھی۔ سر نے ایک لڑکی کو ہاتھ کے اشارے سے بولنے کو کہا ۔ وہ کھڑی ہوئی اور کہنے لگی: شوز ہمارے بھاری جسم کو برداشت کرتے ہیں حالانکہ یہ خود ہلکے ہوتے ہیں۔ اس کے باوجود یہ سو کلو، ڈیڑھ سو کلو کے انسان کا وزن اٹھا لیتے ہیں۔ ہماری زندگی چاہیے کتنی ہی بھاری کیوں نہ ہوجائے ، ہمیں اس کو اٹھانا ہے۔ سر سندیپ نے تعریفی کلمات کہہ کر چوتھے سٹوڈنٹ کو بولنے کی دعوت دی۔
لڑکا بولا: سر !  جس طرح شوز کو روزانہ صاف کرنا ہوتا ہے، روزانہ کھانا کھانا ہوتا ہے، پانی پینا ہوتا ہے۔ اسی طرح اپنے مائنڈ کے لئے بھی کچھ نہ کچھ روزانہ کرنا ضروری ہے تاکہ شوز کی طرح دماغ بھی روزانہ چمکے ۔ جس طرح شوز چمکانے سے چمکتے ہیں، اسی طرح دماغ بھی چمکانے سے چمکے گا۔ سر نے اس کے خیال کو  بہت تحسین کی نظر سے دیکھا۔
پانچواں طالبعلم اٹھا اور بولا: شوز ہمیشہ ساتھ ساتھ رہتے ہیں۔ ایک جوتا کسی کام کا نہیں۔ اسی طرح زندگی میں ہم اکیلے کچھ نہیں کر سکتے، دوسروں کو ساتھ ملانا ہوگا ۔ سر سندیپ بہت خوش  ہوئے اور اس کی بات آگے بڑھاتے ہوئے بولے : زندگی میں جو "میں" "میں" بولتے ہیں، ہمیشہ دکھی ملیں گے اور جو "ہم" "ہم"  بولتے ہیں، ہمیشہ خوش ملیں گے ۔باہمی تعلقات میں " میں" ہو تو کمزور ہوجاتے ہیں اور اگر "ہم" ہو تو مضبوط ۔ جو زندگی میں "میں" "میں" بولتے ہیں؛ سب سے کٹ جاتے ہیں۔ پھر ہنستے ہوئے بولے دیکھو!  بکرا  بڑی "میں" "میں" کرتا ہے تو کٹ جاتا ہے ۔ "ہم" کو کیسے کاٹو گے " "ہم" تو یونٹی ہیں۔ ساری کلاس ہنسنے لگی ۔
چھٹی باری ایک لڑکی تھی۔ وہ اٹھی اور بولی: نئے شوز تکلیف دیتے ہیں ،اسی طرح زندگی میں جب ہم کسی نئی سچوایشن میں جاتے ہیں، تو تکلیف ہوتی ہے ،پھر آہستہ آہستہ ایڈجسٹ  ہو جاتے ہیں۔ نیا تعلق ، نئی جگہ ، نیا کام ، سب شروع میں تکلیف دیتے ہیں مگر وقت کے ساتھ ساتھ بندہ ایڈجسٹ ہو جاتا ہے ۔ جیسے نئے شوز ایڈجسٹ ہو جاتے ہیں۔ ایک کمفرٹ زون  سے نکل کر دوسری جگہ کو کمفرٹ زون بنانے کے لیے وقت درکار ہوتا ہے ۔ سر سندیپ نے اسکے  فلسفے کو سیکنڈ کیا اور تالی بجا کر داد دی۔
ساتویں نمبر پر ایک لڑکی اٹھی اور بولی: سر ! شوز کی ایک بنیاد (بیس)  ہوتی ہے، جس کو مضبوط بنایا جاتا ہے ۔اسی طرح جب ہم کوئی بلڈنگ بناتے ہیں تو اس کی بنیاد مضبوط بناتے ہیں ۔ سر سندیپ نے شاباشی دی اور بات کو آگے بڑھاتے ہوئے بولے:  شوز کا جو سول( بمعنی تلوا)  ہوتا ہے، وہ ہی اس کا سول ( بمعنی روح یعنی اندر کی توانائی) ہوتا ہے۔  شو کا سول(تلوا) بے کار ہے تو شو بیکار ہے ۔ اس طرح ہمارا سول یعنی ہمارا سیلف( اندر کی توانائی) جتنا مضبوط ہوگا تو زندگی کے غیر محدود مسائل کو اٹھا لے گا۔  خود پر کام کرنا ہوگا اور  خود کو اندر سے مضبوط بنانا ہوگا ۔ دنیا کو اپنے اوپر حاوی ہونے دیا تو وہ آپ کی دھجیاں اڑا دے گی۔ اگر خود کو تیار کر لیا تو دنیا آپ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی۔اتنے میں گھنٹی بجی  اور سر سندیپ کھڑے ہو گئے اور روسٹم کے قریب آ کر  اپنا ایک پاؤں اونچا کر دیا ۔ طالب علموں نے دیکھا اس کا تلوا( سول) اُکھڑا ہوا ہے۔ سر بولے: آج آتے وقت راستہ  میں یہ ٹوٹ گیا اور میں سیدھا بازار چلا گیا ۔وہاں سے نیا جوڑا خریدا کیونکہ ایک قدم چلنا بھی مشکل ہو گیا تھا۔ اس وقت مجھے خیال آیا کہ بغیر جوتوں کے انسان کتنا ادھورا ہے۔ میں جوتوں پر غور کرتا رہا اور کئی نئی باتیں ذہن میں آئیں۔  تو میں نے وہیں ارادہ بنا لیا کہ آج کلاس میں ہم ان شوز سے سیکھیں گے۔ یہ کہہ کر انہوں نے شوز کو ڈبے میں  ڈالا اور سٹاف روم کی طرف چلے گئے ۔ ساری کلاس کے چہرے پر خوشی تھی جیسے کوئی نئی چیز ان کے ہاتھ لگ گئی ہو۔
تین سٹوڈنٹ ان کے پیچھے پیچھے اسٹاف روم چلے آئے۔ دیکھا تو سر اپنے نئے جوتے پہن رہے تھے ۔ وہ اجازت لے کر  اندر داخل ہوگئے ۔سر سندیپ نے  سر اٹھایا اور سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگے ۔ ایک طالبعلم بولا :سر ! ہمارے بولنے کی باری نہیں آئی ۔ ہم بھی کچھ کہنا چاہتے ہیں ۔ سر نے کہا "بولو"۔ پہلا لڑکا بولا: سر ! جب  ایک  جوتا دوسرے سے آگے نکل جاتا ہے تو رُک جاتا ہے اور دوسرے کو موقع دیتا ہے کہ اب تم بڑھو  اور آگے نکل جاؤ۔ ہمیں بھی زندگی میں ایک دوسرے کو آگے بڑھنے کا موقع دینا چاہیے۔ کسی کا مسلسل آگے ہی رہنا اور کسی کا ہمیشہ پیچھے رہنا؛  درست نہیں ۔ دوسرا بولا :سر ! دونوں جوتے  دیکھنے میں ایک جیسے لگتے ہیں مگر ہوتے مختلف ہیں ۔اگر دونوں جوتے ایک جیسے ہوں تو آپ انہیں پہن نہی سکتے ۔ دونوں ایک جیسے ہوتے ہوئے بھی ایک دوسرے سے تھوڑا سا مختلف ہوتے۔ اسی  معمولی فرق سے ان سے فائدہے  نکلتے ہیں۔ اسی طرح زندگی میں جانورں میں جوڑے ہیں ،پودوں میں جوڑے ہیں،  آشیاء کے کاؤنٹر پارٹ ہیں۔  جوڑا ہی اصل میں زندگی کو جوڑتا ہے اور اُسی سے زندگی کی بقّا ہے اور زندگی کا حُسن ہے۔ تیسرا بولا : سر! جوتا ہمیشہ پاؤں میں رہتا ہے ، جب کبھی اس میں کوئی نقص پیدا ہو جائے  تو ہم اِسے ہاتھوں میں اٹھا لیتے ہیں۔اِسی طرح  اِس کی اہمیت بڑھ جاتی ہے ۔ بالکل ایسے ہی  جب کوئی چیز خراب ہو جائے تو ہمیں اُسکی ویلیو کا احساس ہوتا ہے اور ہم اس پر  توجہ دیتے ہیں اور ٹھیک کرواتے ہیں۔ سر سندیپ نے ان کے خیالات  سے ہم آہنگی کا اظہار کیا اور کہا: اگر غور کرو  تو تم دنیا کی ہر چیز سے سیکھ سکتے ہو۔ ان کا چہرہ  اطمینان اور کامیابی کے احساس سے چمک رہا تھا !  پھر انہوں  نے جوتوں کے تسمے کو باندھنا شروع کردیا
ایک خیال
اگر کوئی شخص سیکھنا چاہئے تو کائنات کی ہر چیز اس کے لیے استاد بن جاتی ہے۔ بس ایک شرط ہے کہ اس " چیز "پر توجہ دیں  اور علم حاصل کرنے کے پانچوں ذرائع؛  حواسِ خمسہ ، عقل،  استنادیت, وجدان  اور  فطری خیالات کو بروئے کار لائیں۔  تو ہر چیز آپ کے لیے  علم کے دروازے کھول سکتی ہے ۔ یہ کام اتنا ہی آسان ہے جتنا کے پلک جھپکنا۔ روزانہ ایک چیز لیں اور اُس پر غور کریں اور اُس سے سیکھیں۔ جو باتیں سیکھیں ساتھ ساتھ  ان کو لکھتے جائیں۔چند ہی دنوں  میں یہ آپ کی عادت بن جائے گی اور آپ ہر چیز سے سیکھنا شروع کر دیں گے۔اپکا مشاہدہ مثالی ہو جاے گا۔ پوشیدہ راز اگلنے لگیں گے۔
 دنیا کے سارے شاعروں،ا دیبوں، فلاسفروں،سائئنسدانوں نے اِسی فن سے فائدہ اٹھایا ۔ مگر اپنا راز ، راز ہی رکھا ۔ آج راز آپ کے پاس ہے ! علم و دانش اور تخیلق کی چابی  آپ کو مل گئی ہے ۔ آج سے ہی ، اس سے جہالت کے تالے کھول کر ترقی کی راہ پر گامزن ہو جاہیں۔ اللہ آپ کا حامی و ناصر ہو 
چیزوں سے سیکھنے کی بہت سی اور مثالیں ہیں۔  ایک دفعہ  ایک بوڑھا شخص برتن دھو رہا تھا۔ کسی نوجوان نے پوچھا: "بابا جی!  ساری زندگی برتن ہی دھوئے ہیں  یا کچھ سیکھا بھی ہے؟" بابا جی نے آنکھ  اٹھا کر اس کی طرف دیکھا اور کہا:  “بیٹا ! بس یہی سیکھا ہے  کہ برتن کو باہر سے کم  اور اندر سے  زیادہ مانجھنا پڑتا ہے۔" نوجوان اِس صوفیانہ خیال پر دنگ رہ گیا کہ باطنی صفائ، ظاہری سے زیادہ ضروری ہے۔
اِسی طرح کا ایک سوال ایک نوجون نے ایک چرخہ  کاتنے والی عورت سے کیا ۔اماں !ساری زندگی  چرخہ  ہی چلاتی رہی ہو یا کچھ سیکھا بھی ہے ؟  بڑھیا بولی : بیٹا ! چرخہ سے یہ سیکھا ہے  کہ" اللہ موجود ہے"۔ نوجوان کہنے لگا :" وہ کیسے؟"  بڑھیا بولی: "بیٹا!  جب میں چرخہ چلاتی ہوں تو چل جاتا ہے اور  جب ہاتھ روک لیتی ہوں ، تو رُک جاتا ہے ۔ جب یہ چھوٹا سا چرخہ خود نہیں چل سکتا  تو یہ زمین، چاند ،سورج، ستارے اور بڑا چرخ ؛ خود کیسے چل سکتے ہیں؟ ضرور ان  کو چلانے والا کوئی موجود ہے  وگرنہ رُک جاتے۔"  نوجوان بولا:" کوئی اور بات بھی سیکھی؟"  بڑھیا نے کہا: "ہاں! چرخہ سے سیکھا ہے کہ اللہ ایک ہے۔" نوجوان حیران ہو کر بولا: "وہ کیسے؟"  بڑھیا بولی :"اگر کوئی میری ساتھی عورت ہوتی اور وہ چرخہ کو اُسی سمت میں چلاتی ،جس میں، میں چلا رہی ہوں تو چرخہ کی رفتار  تیز ہو جاتی اور دھاگہ پتلا ہو کر ٹوٹ جاتا اور کام ٹھپّ ہو جاتا اور  اگر دوسری عورت میرے مخالف سمت میں زور لگاتی تو یہ جھٹکے لیتا اور آہستہ چلتا۔ اس طرح دھاگہ کی بجائے روئی کے گلوُلے بننے لگتے جو کسی کام کے نہیں۔  تو اگر یہ کائنات یکساں رفتار سے ٹھیک ٹھاک بغیر ہچکولوں کے چل رہی ہے تو  اس کو چلانے والا ایک ہے ۔" نوجوان متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔
سیب تو ہزاروں لوگوں کے سروں پر گرے ہوں گے ۔ مگر ایک سیب  جب ایک "سیکھنے اور توجہ کرنے والے" کے سر پر گرا ۔تو اس نے غور کیا کہ یہ نیچے کیوں آیا اوپر کیوں نہ گیا ؟ اس نے دنیا کو" لا آف گریویٹیشن" دے  دیا۔
سمندر میں جہازوں پر ہزاروں لوگوں نے سفر کیا ہو گا  مگر ایک سیلر نے غور کیا کہ دور سے آنے والے جہاز کی  پہلے دھوئیں والی چمنی نظر آتی ہے اور بعد میں آہستہ آہستہ پورا جہاز نظر آتا ہے ۔تو اس نے اندازہ لگا لیا کہ آگے سے زمین نیچی ہے اور اگر اسی طرح زمین نیچی در نیچی ہوتی رہے تو  اس کا مطلب ہے کہ زمین گول ہے ۔ جبکہ اس سے  پہلے زمین کے بارے میں یہ تصور تھا کہ یہ چپٹی ہے۔
           جنگ میں ہزاروں بندوقوں نے گولیاں برسائیں ہو نگیں۔  مگر  ایک جنگ میں ، جب دشمن  فوجی نے بندوق کا فائر کیا تو دفاع کرنے والے  فوجی نے  بندوق سے شہلہ نکلتے دیکھا اور ایک لمحہ  بعد بندوق چلنے کی آواز سنی۔ تو بول اٹھا کہ روشنی کی رفتار آواز کی رفتار سے زیادہ ہے۔
ان سب لوگوں کے پاس وہی دماغ تھا ،وہی آنکھیں تھیں ،وہی کان تھے، وہی ہاتھ تھے،  وہی جسم تھا ؛ جو آپ اور ہمارے پاس ہے۔ فرق صرف اتنا ہے  کہ انہوں نے اردگرد کی چیزوں سے سے سیکھا اور ان  پر غور کیا اور اس سے نتیجہ نکالا اور دنیا میں کامیاب ہوگئے ۔
یقین کیجیے! سیکھنا، پلک جھپکنے سے زیادہ آسان ہے۔شرط ہے  کہ ایک لمحے کے لئے بھی پلک نہ جھپکیں 

Thursday, 25 July 2019

Episode-6 ایک تصویر، ایک کہانی، ایک خیال

ایک تصویر، ایک کہانی، ایک خیال
Episode-6
ایک تصویر



ایک کہانی

امریکہ کی ریاست نیو کارلینا میں ایک سیاہ فام جیمز رہتا تھا ۔وہ الیکٹرک پلانٹ میں سپروائزر تھا ۔اُس کی بیوی ڈ یلارس بینک میں ملازمت کرتی تھی۔ ان کے پانچ بچے تھے۔ دونوں میاں بیوی مل کر بھی گھر کا خرچہ چلانے میں قاصر تھے۔وہ جھونپڑی نما مکان میں رہتے تھے، جس کے دروازے ٹوٹے ہوئے اور چھت بوسیدہ تھی۔ غربت اور بدحالی نے ڈیرے ڈال رکھے تھے۔ جیمز اس صورت حال سے تنگ تھا مگر بے بس تھا  ۔اب صرف یہ خواہش تھی کہ اس کے بچے زندگی میں ترقی کریں ۔
ایک دن جیمز  نے اپنے بارہ سالہ ہونہار بیٹے مائیکل کو ایک پرانی ٹی شرٹ دکھاتے ہوئے کہا : "بتاؤ یہ کتنے کی ہو گی ؟" مائیکل جھٹ سے بولا:" ایک ڈالر کی"۔جیمز نے کہا: "بیٹا جاؤ اور اس کو دو ڈالر میں بیچ کر آؤ"۔ مائیکل نے شرٹ کو پکڑا، کچھ دیر سوچنے کے بعد اُس شرٹ  کو اچھی طرح دھویا اور سوکھنے کے لئے دیوار پر ڈال دیا۔جب تقریبا خشک ہوگی تو اُس نے اُسے پریس کرنے کا سوچا۔ مگر گھر میں استری نہ تھی۔ اس نے شرٹ کو تہہ کیا اور دوسرے تہہ شدہ کپڑوں کے ڈھیر کے نیچے رکھ دیا۔ اگلے دن دیکھا تو وہ کپڑوں کے بوجھ سے پریس ہوگئی تھی۔ اُس نے اُسے اٹھایا اور سوچنے لگا کہ ایک ڈالر کی چیز کو دو ڈالر میں کیسے بیچا جائے؟ اس نے ارادہ کیا کہ بازار جاؤں مگر خیال آیا کہ وہاں تو ایک ڈالر کی نئ شرٹ مل جاتی ہے، دو ڈالر کی پرانی شرٹ کوئی کیوں خریدے گا ؟ وہ سوچنے لگا کہ کس جگہ پر اِس کی ویلیو بڑھ سکتی ہے؟  اچانک اُسے خیال آیا  کہ اسٹیشن پر مسافروں کو جلدی ہوتی ہے اور وہ مہنگی چیز خرید لیتے ہیں ۔اس لیے وہاں یہ دو ڈالر میں بِک سکتی ہے  چناچہ وہ اسٹیشن پر چلا گیا اور سات گھنٹے تک اُسے بیچنے کی کوشش کرتا رہا۔ اچانک ایک مسافر تیزی سے آیا اور اسٹیشن کے اندر داخل ہونے لگا ۔اس کی نظر شرٹ پر پڑی تو وہ رُک گیا اور بولا کہ کتنے کی دو گے؟ ماہیکل نے کہا:" دو ڈالر کی"۔اس نے دو ڈالر جیب سے نکالے اور دے دیۓ ۔مائیکل نے دو ڈالر لاکر والد کے ہاتھ پر رکھ
دیے۔والد نے کہا: ویل ڈن بواے!
           کچھ دنوں کے بعد جیمز نے مائیکل کو ایک اور ٹی شرٹ دی اور پوچھا کہ “یہ کتنے کی ہے؟” ماہیکل بولا:" ایک ڈالر کی" اس نے کہا: " بیٹا جاؤ اور اسے بیس ڈالر کا بیچ کر آؤ". وہ سوچنے لگ پڑا کہ ایک ڈالر کی شرٹ بیس ڈالر میں  کس طرح بیچوں؟ اس کے ذہن میں ایک ترکیب آئی. وہ بازار گیا اور وہاں سے مِکًًی ماؤس کا سٹیکر لایا اور اُسے شرٹ کے اوپر چپکا دیا ۔ چھٹی کے وقت وہ امراء کے ایک بہت مشہور سکول کے گیٹ کے سامنے کھڑا ہو گیا ۔جب لڑکے سکول سے نکلنے لگے۔ باہر اُن کے والدین گاڑیوں میں انکو لینے آئے ہوے تھے۔لڑکوں کو دیکھ کر اِس نے آواز لگانی شروع کی: مکی ماؤس کی شرٹ صرف بیس ڈالر میں۔ ایک بچے نے شرٹ کو دیکھا اور اپنے والد سے کہا :مجھے یہ شرٹ چاہیے ! اس کے باپ نے  بیس ڈالر کی شرٹ خریدی اور اوپر پانچ ڈالر کی ٹپ بھی دی۔ مائیکل کی خوشی کی انتہا نہ رہی۔  وہ پچیس ڈالر لے کر گھر کی طرف بھاگا اور باپ کو دیکھ کر کہا: آپ نے تو کہا تھا کہ بیس ڈالر کی بیچوں، میں نے اسے پچیس ڈالر میں بیچ دیا  ہے. باپ نے مسکراتے ہوئے کہا: ویل ڈن بوائے ! تم ترقی کروگے !
            کچھ دنوں کے بعد جیمز نے مائیکل کو ایک اور ٹی شرٹ دی اور پوچھا کہ "یہ کتنے کی ہوگی؟" مائیکل نے کہا:" ایک ڈالر کی " باپ نے کہا :"بیٹا جاؤ اور اسے دو سو ڈالر میں بیچ کر آؤ" ۔ مائیکل نے شرٹ پکڑی اور گہری سوچ میں ڈوب گیا کہ دو سو ڈالر میں کیسے بیچوں؟ ایسا کیا کروں کہ اِس کی ویلیو دو سو ڈالر کی ہو جائے؟  اسے خیال آیا ، اگر اِس شرٹ پر کسی مشہور سنگر ،اداکار یا کھلاڑی کا آٹوگراف مل جائے، تو یہ دو سو ڈالر سے بھی مہنگی بک سکتی ہے۔ اب مسئلہ تھا کہ ایسی سیلبریٹی تک رسائی کیسے ہو؟ وہ سوچ رہا تھا کہ اُس کے دوست نے بتایا کہ کل  ہالی ووڈ کی مشہور اور خوبصورت ایکٹریس فرح فاسٹ پریس کانفرنس کرنے آرہی ہے۔ مائیکل اگلے دن وہاں پہنچ گیا اور لوگوں کے ہجوم کو توڑتا ، پولیس والوں سے چُھپتا چھپاتا فرح کے قریب جا پہنچا اور شرٹ اُس کی طرف بڑھاتے ہوئے بولا: مجھے اس شرٹ پر آپ کا آٹوگراف لینا ہے ۔ فرح نے ایک نظر اُس پر ڈالی اور اپنے ساتھیوں سے باتیں کرنے لگی۔ ماہیکل نے پھر آٹوگراف مانگا ۔فرح گفتگو میں مہو تھی۔ وہ مسلسل آٹوگراف مانگتا جا رہا تھا۔  فرح بارہ سال بچے کی مسلسل فرمائش نہ ٹال سکی اور ٹی شرٹ پر دستخط کر دیئے۔ اس نے فرح کا شکریہ ادا کیا۔جس کا جواب فرح نے ایک خفیف مسکراہٹ سے دیا ۔مائیکل یہ شرٹ لے کر بازار کی طرف نکل گیا۔ وہاں پہنچ کر ایک بینچ پر چڑھ گیا اور کہنے لگا ؛ فرح کے آٹوگراف والی شرٹ صرف دو سو ڈالر میں ! تھوڑی دیر میں لوگوں کی بھیڑ لگ گئی ۔ایک طرف سے آواز آئی: "سو ڈالر" . دوسری طرف سے آفر ائی: دو سو ڈالر؛ تین سو ڈالر؛  پانچ سو ڈالر ؛ ایک ہزار ڈالر۔ مائیکل ایک ہزار ڈالر کہنے والے شخص کی طرف مڑا کہ  پیچھے سے آواز آئی: دو ہزار ڈالر اور اب یہ ٹی شرٹ میری ہے !  مائیکل نے اسے ٹی شرٹ دی اور دو ہزار ڈالر لے کر گھر آیا اور بڑے فخر سے والد کو دو ہزار ڈالر دیے۔ والد نے کہا: ویل ڈن بوائے!  تم مستقبل میں بڑے آدمی بنو گے! مائیکل نے باپ کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا۔ باپ نے اُس کی آنکھوں سے سوال پڑھ لیا اور بولا جب تم ایک ڈالر کے کپڑے کی قیمت بڑھا سکتے ہو تو اپنی قیمت کیوں نہ بڑھاؤ گے۔ مائیکل خوش ہوگیا اور پھر کچھ سوچنے لگا !
ایک خیال

اس کہانی میں مائیکل کے سامنے  جب کوئی چیلنج آتا ہے تو وہ یہ نہیں کہتا : “یہ نہیں ہو سکتا" بلکہ اسے  قبول کرلیتا ہے ۔اس کے اندر ناکام ہونے کا خوف نہیں۔ وہ کام کے نتیجہ پر توجہ نہیں رکھتا بلکہ اپنی کوشش پر فوکس کرتا ہے۔ پھر اس چیلنج کے ساتھ گھُتم گُھتًا ہو کر اپنی ذہنی اور جسمانی صلاحیتوں کا بھرپور استعمال کرتا ہے ، یہی اس کہانی کا سبق ہے!
         کہانی شرٹ کے بکنے پر ختم نہیں ہوتی بلکہ آگے چلتی ہے۔ مائیکل کے والدین  اسے لینی سکول میں داخل کروا دیتے ہیں۔ وہاں اسے  باسکٹ بال کھیلنے کا شوق پیدا ہو جاتا ہے ۔ جب سکول کی ٹیم کی سلیکشن کے لیے ٹرائل ہوتے ہیں تو وہ بھی ان میں شامل ہو جاتا ہے۔ مگر بدقسمتی سے ٹیم میں  منتخب نہیں ہو سکتا کیوں کہ اس کا قد پانچ فٹ گیارہ انچ ہے، جو کسی بھی لحاظ سے اس کھیل کے لیے مناسب نہیں ۔ مائیکل مایوس نہیں ہوتا  اور اسی سکول کی جونیئر ٹیم میں شامل ہو جاتا ہے جس کا مقصد میچ جیتنا  نہیں بلکہ اسکول کے طلبہ کو صرف ورزش کے مواقعے دینا ہے ۔وہ ایک سمر میں اپنا قد پانچ انچ بڑھا لیتا ہے  اور اسی طرح اپنی گیم کی صلاحیت بھی ۔وہ اپنے کھیل سے لوگوں اور سلیکٹرز کو اتنا متاثر کرتا ہے  کہ جلد ہی میکڈونلڈز اسکول ،جسکی ٹیم  تمام سکولوں میں سب سے بہتر ٹیم ہے ، اس میں جگہ مل جاتی ہے اور ساتھ وظیفہ بھی۔ اب وہ اپنی تعلیم اور شوق  دونوں کو باآسانی پورا کر سکتا ہے ۔بات یہاں نہیں ٹھہرتی ۔ماہیکل اپنے ماہرانا کھیل؛ جس میں اس کا غیر معمولی جمپ اور باسکٹ میں کامیابی سے بال ڈالنے کے متعدد نئے طریقے شامل ہیں؛ لوگوں کا ہیرو بن جاتا ہے. اس طرح ایک ڈالر کی شرٹ دو ڈالر میں بکنے لگتی ہے۔
وہ اپنی کوشش جاری رکھتا ہے ۔اس کا قد بڑھ کر چھ فٹ چھ انچ ہو جاتا ہے۔ اس کا جمپ دیکھنے کے لئے لوگ دور دور سے آنے لگتے ہیں۔ اب اسے شکاگو بلز کی ٹیم  میں سلیکٹ کر لیا جاتا ہے۔ اور وہ 23 نمبر کی شرٹ پہن کر کھیلنے لگتا ہے،  یعنی دو سے بڑھ کر تین  جیسے ایک ڈالر کی شرٹ دو ڈالر میں ۔شرٹ بیچنے کا واقعہ اس کے لاشعور میں بیٹھا ہوا ہے۔بعد میں وہ مختلف ٹیموں کی طرف سے کھیلا اور اسکی شرٹ کے نمبر کبھی 12، کبھی 45. یعنی وہی پیٹرن کار فرما رہا۔
تھوڑے ہی عرصہ میں اس کی شہرت پورے امریکہ میں پھیل جاتی ہے ۔ مخالف ٹیمیں مائیکل کے نام سے گھبراتی ہیں۔ اس کا جمپ اتنا اونچا کہ اسے باقی کھلاڑی گراؤنڈ میں ایسے نظر آتے جیسے پہاڑ پر چڑھے آدمی کو نیچے پھرتے لوگ ۔اس کے پاؤں زمین پر کم ہوتے اور ہوا میں  زیادہ ۔ اس پر لوگوں نے اس کا نام "ہوائی" رکھ دیا اور اس پر ایک گانا بنایا : آئی بلییو، آئی کین فلائ" جو پورے امریکہ میں مشہور ہو گیا۔
بات آگے بڑھتی ہے اور بڑھتی ہی چلی جاتی ہے! باسکٹ بال کے ریکارڈ ڈومینو کے کارڈز  کی طرح گرنے لگتے ہیں۔ اس نے نیشنل باسکٹ بال ایسوسیشن" این بی اے" کی تاریخ  میں سب سے زیادہ سکور کرنے کاورلڈ ریکارڈ  تیس عشاریہ چودہ اوسط کے ساتھ قائم کیا جو آج تک نہیں ٹوٹا؛ انیس سو چوراسی اور انیس سو بانوے کے اولمپکس میں اپنے ملک امریکہ کو فتح دلوائی؛ امریکہ کا سب سے بڑا سول ایوارڈ "میڈل آف فریڈم" حاصل کیا؛ چھ بار  این بی اے چیمپئن شپ جیتی؛ چھ دفعہ سب سے قیمتی کھلاڑی "ایم وی پی"کا آعزاز جیتا: دس دفعہ این بی اے میں سب سے زیادہ سکورر رہا؛ چودہ دفعہ این بی اے کا  "آل سٹار" ایوارڈ جیتا؛ کسی بھی میچ میں سب سے زیادہ  اوسط سکور اکتالیس پوائنٹ کرنے کا ریکارڈقائم کیا؛ سب سے زیادہ عمر (چونتیس سال) میں سب سے زیادہ پوائنٹ سکور کرنے کا ریکارڈ بنایا؛ امریکہ میں انیس سو ننانوے میں اُسے بیسویں صدی کا بہترین ایتھلیٹ قرار دیا گیا ۔مختصراً  ریکارڈ در ریکارڈ بناۓ. اسی لیے مائیکل کو باسکٹ بال کا “دیوتا”  مانا جانے لگا ۔ اس کے دیوتا ہونے کی وجہ پچاس ایسے رکارڈ ہیں جو آج تک کوئی اور کھلاڑی  قائم نہ کر سکا۔ یہی مائیکل دراصل باسکٹ بال کا شہرہ آفاق کھلاڑی  "مائیکل جارڈن" ہے. ایک ڈالر کی شرٹ دو سو ڈالر میں بیچنے والا !
مائیکل جارڈن دنیا کا مہنگا ترین باسکٹ بالر ہے ۔سٹار نیوز کے مطابق اس کے پاس دو ارب ڈالر کے اثاثے ہیں اور وہ امریکہ کا چار سو پچپن واں امیر ترین شخص ہے ۔ اس کے پاس اسی ملین ڈالر کی ایک کشتی ہے جس میں آٹھ بیڈ روم ہیں، ایک جًِم ہے، اوپن کھانے کی جگہ ہے اور تو اور اس میں باسکٹ بال کورٹ بھی ہے۔ اس کے پاس تیس ملین ڈالر کا نًجی طیارہ ہے جس کی آرائش پر جارڈن نے بیس ملین ڈالر لگائے اور اس کی ورتھ پچاس ملین ڈالر ہوگی۔ اس طیارہ میں نوے مسافر سفر کر سکتے ہیں۔ اس کے پاس پندرہ ملین ڈالر کا ذاتی تیئس ایکڑ پر مشتمل گالف کورس ہے، جس میں رہائش ،ہوٹل اور کلب کی سہولتیں موجود ہیں۔ اس کے علاوہ اس کورس  میں پہاڑ بھی ہے اور ایک دریا بھی بہتا ہے۔
جارڈن کے پاس دس ملین ڈالر کی کی تقریبا دس گاڑیاں ہیں، ایک ملین ڈالر کے زیورات ہیں ، پچاس ملین ڈالر کے تین مکان ؛ شکاگو، کیرولینا اور فلوریڈا میں ہیں ۔ جن میں دنیا کی ہر سہولت جس کی انسان خواہش کرسکتاہے ،موجود ہیں ۔اس کی دو سو پجھتر ملین  ڈالر کی سپورٹ ٹیمیں ہیں۔ بلاشبہ دہ دنیا کا امیر ترین باسکٹ بالر ہے  کیونکہ وہ ایک ڈالر کی شرٹ دو ہزار ڈالر میں بیچنے کا فن جانتا ہے۔
      وہ کیا اصول ہیں جس سے ایک جھگی میں  رہنے والا سیاہ فام ساری دنیا کو جھکانے میں کامیاب ہوگیا۔ وہ اصول اس کی بچپن کی  شرٹ والی کہانی میں موجود ہیں۔ جو اس نے ایک ٹی وی انٹرویو میں سنائی تھی۔
 پہلا اصول: چیلنج کو قبول کرنا.جارڈن کہتا ہے؛ "چیلنج کو قبول کرو اور کبھی نہ کہو:" یہ نہیں ہو سکتا." وہ کہتا ہے : "اگر آپ نے ایک دفعہ چیلنج سے منہ موڑا تو یہ آپ کی عادت بن جائے گی اور پھر ساری زندگی کُوِٹً(چھوڑتے) کرتے رہو گے."
 دوسرا اصول: ہے کہ "ناکامی سے کبھی نہ ڈرو" جارڈن کہتا ہے:" ناکامی کامیابی کی چابی ہے". ایک انٹرویو میں اس نے کہا:  "میں زندگی میں،  نو ہزار شارٹ باسکٹ میں  نہ ڈال سکا ، تین سو مقابلوں میں ہار گیا اور چھبیس دفعہ میچ جیتنے اور ہارنے کے لیے وننگ شاٹ مجھے دی گئی اور میں نے باہر پھینک دی۔ میں زندگی میں بار بار  اور متعدد بار ناکام ہوا ،اسی لیے میں زندگی میں کامیاب ہوگیا".
تیسرااصول: "اور جب چیلنج کو قبول کرو تو اپنی ذہنی اور جسمانی صلاحیتوں کا بھرپور استعمال کرو ۔ بس نتائج کو ایک طرف رکھ کر صرف اپنی کوشش پر توجہ مرکوز کرو"۔
 جارڈن کے تین اصول اپنا کر آپ بھی زندگی میں کامیابیاں اور کامرانیاں حاصل کر سکتے ہیں!


Monday, 8 July 2019

ایک تصویر ،ایک کہانی، ایک خیال Episode-5

ایک تصویر ،ایک کہانی، ایک خیال

Episode-5

ایک تصویر



                                                                                      ایک کہانی
بادشاہ سو کر اٹھا تو بہت گھبرایا ہوا تھا- ملکہ اسے دیکھ کر پریشان ہوگی اور پوچھا:  کیا ہوا ؟  بادشاہ بولا: عجیب خواب دیکھا ہے ! ملکہ بولی: کیسا خواب ؟بادشاہ بولا: خواب میں دیکھا ہے کہ میرے سارے دانت گر گئے ہیں -ملکہ بولی  گھبرائیے مت ،تعبیر بتانے والے سے پوچھ لیتے ہیں- تعبیر کرنے والے کو بلایا گیا - بادشاہ نے پوچھا کہ میں نے خواب دیکھا ہے کہ میرے سارے دانت گر گئے ہیں - اس کی تعبیر بتاؤ ؟ وہ بولا: بڑا بُرا خواب ہے - بادشاہ پریشان ہو گیا- پوچھا کیسے؟ وہ بولا: آپ کے بھائی فوت ہو جائیں گے- باد شاہ اور پریشان ہوگیا -وہ بولا : آپ کی بہنیں بھی فوت ہو جائیں گیں-  بادشاہ مزید پریشان اور مضطرب ہو گیا - وہ بولا: کہ یہی نہیں !  آپ کے سارے بیٹے بھی فوت ہو جائیں گے -باد شاہ کے پاؤں کے نیچے سے زمین نکل گئی-وہ بو لتا ہی جا رہا تھا -اس نے کہا :آپ کی بیٹیاں بھی فوت ہو جائیں گیں- بادشاہ کی بے چینی اور پریشانی بڑھتی ہی جا رہی تھی- وہ بولا :کہ آپ کے سارے رشتہ دار فوت ہو جائیں گے - بادشاہ کی پریشانی غصہ میں بدل گئی , وہ گرجا: اس کو سو کوڑے لگائے جائیں، اس نے اتنی وحشتناک تعبیر کی ہے - جب بہن بھائی نہ رہے, بیٹے بیٹیاں نہ رہیں ٫عزیز و اقارب نہ رہے تو جینے کا کیا فائدہ ؟ وزیر نے بادشاہ کا اضطراب اور غصہ دیکھ کر کہا: بادشاہ سلامت کسی اور کو بلاتے ہیں، یہ تو پاگل ہے -دوسرا تعبیر خواب کے ماہر کو دربار میں بلایا گیا- بادشاہ اسے دیکھتے ہی سیدھا ہو کر بیٹھ گیا اور جھٹ سے بولا : میں نے رات خواب دیکھا ہے کہ میرے سارے دانت گر گئے ہیں، جلدی سے اس کی تعبیر بتاؤ؟  وہ بولا : سبحان اللہ!   کتنا اچھا خواب ہے- آپ کے بہن بھائی لمبی عمر پائیں گے اور گزر جائیں گے مگر آپ سلامت ہونگے، آپ کے بیٹے بیٹیاں بھی طویل عمر کے مزے لوٹ کر چل بسیں گے مگر آپ ابھی بھی زندہ ہوں گے ، اِسی طرح تمام اقرباء  سے زیادہ طویل عمر پائیں گے- اس خواب کی تعبیر ہے کہ آپ کی عمر بہت طویل ہے،سب کی خوشیاں دیکھ کر آپ اس دنیا سے رخصت ہونگے- باد شاہ اپنی اور اپنے عزیز و اقارب کی طویل العمری کی خبر سن کر خوش ہو گیا اور اپنی صحت اور درازی عمر کاجان کر اس کا دل باغ باغ ہوگیا ،اس کا چہرہ  بشاشت سے دمکنے لگا اور بولا : اس کو سو دینار دے دو ،اس کے وزن کے برابر سونا چاندی دے دو اور اسے ایک گھوڑے کی ایک دن کی مسافت جتنی زمین دے دو- بادشاہ کی خوشی کی انتہا نہ رہی -                                           
                                                                                          ایک خیال   
عمدہ گفتگو وہ ہے جس کے الفاظ سے دوسرے کی روح تازہ ہوجائے جبکہ وہی بات دوسرے الفاظ میں اس طرح کی جاۓ  کہ روح پارہ پارہ ہو جائے-خواب کی تعبیر ایک تھی  مگر ایک کے  الفاظ اور بیان سے بادشاہ کو خوشی ہوئی جبکہ دوسرے کے بیان نے اسے آزردہ کردیا- یہاں بانو قدسیہ کی ایک بات یار آ رہی ہے  کہ  سچ کڑوا نہیں ہوتا، اکثر ہمارا “ بیان کرنے کا انداز “اسے کڑوا بنا دیتا ہے-دوسرے تعبیر کرنے والے کے بیان  نے اس "سچ" کو میٹھا  جب کہ پہلے نے      
                                                                       -   کڑوا بنا دیا
الفاظ کا چناؤ اور انداز بیان بہت اہمیت کا حامل ہے: یہ   ایک  ایسا سکّہ ہے جو دنیا                                                                                      کے ہر ملک 
 میں چل سکتا ہے ؛دنیا کے ہر شعبے میں کامیابی دلا سکتا ہے؛ دنیا کے ہر رشتے کو خوبصورت بنا سکتا ہے؛  دنیا کے ہر مسئلے کو حل کر سکتا ہے اور ہر دعا کو قبولیت تک پہنچا سکتا ہے

ایک دفعہ کا ذکر ہے -ایک آدمی بہت غریب تھا ، نہ کھانے کو روٹی، نہ پہننے کو کپڑا،  گزر بسر  بہت مشکل ہو گیا تھا- اس کی شادی کو دس سال ہو گئے تھے  اور کوئی اولاد نہ تھی - لوگوں کی باتیں، رشتہ داروں کے طعنے جلتی پر تیل کا کام کر رہے تھے -اوپر  سے والدہ آندھی تھی- اس کی دیکھ بھال کی وجہ سے وہ کسی دوسرے گاؤں بہتر کام کے لئے نہیں جا سکتا تھا- ہر طرف سے مسائل نے اژدہا کی طرح جکڑ رکھا تھا- ایک دن دوست کو حالِ دل سنا رہا تھا- اس نے مشورہ دیا کہ فلاں گاؤں میں ایک بزرگ رہتے ہیں، سنا ہے کہ ان کی دعا قبول ہوتی ہے- دور دور سے لوگ آتے ہیں اور اپنی کوئی ایک دعا کی قبولیت کے لیے درخواست کرتے ہیں-  دوست کی بات سنتے ہی، اس نے رختِ سفر باندھا اور اگلے ہی دن بزرگ کے گاؤں کی طرف نکل گیا ہے - راستے میں سوچتا رہا کہ کیا دعا کرواں؟  دل نے کہا دولت مانگ لیتا ہوں ،پھر خیال آیا کہ پیسے تو آ جائیں گے مگر ماں کی تکلیف  اور اولاد کی خواہش کا کیا ہو گا ؟  دونوں ماں اور بیوی کا علاج تو ہر جگہ سے کرا چکا ہوں- پھر سوچا کہ اولاد کی دعا کروا لیتا ہوں خیال آیا کہ پہلے ہی کھانا پینا مشکل ہے، بچے پیدا ہوگئے تو انکو کیا کھلاوں گا ؟ پھر  سوچا ماں کی بینائی کے لیے دعا کرواتا ہوں-  خیال آیا کہ ماں کی آنکھیں ٹھیک ہوگئیں تو وہ میری بدحالی دیکھ کر  پریشان ہو جائے گی اور پوتے پوتیوں کو دیکھنے کی خواہش مزید جاگ اٹھے گی- انہی سوچوں میں گم سفر کرتے کرتے بزرگ کے گاؤں پہنچ گیا- پوچھتے پچھاتے ڈیرہ تک چلا گیا- لوگوں کا جمِ غفیر دیکھ کر اس کو یقین ہو گیا کہ کوئی بات تو ہے جو اتنے لوگ آئے ہیں- اپنی باری کا انتظار کرنے لگا- جب باری آئی تو بزرگ کی کٹیا میں داخل ہوا -سادہ کپڑے پہنے ،نورانی چادر اوڑھے ایک بزرگ صف پر بیٹھے تھے -اُسے دیکھ  کر بزرگ نے کہا :تو کیا چاہتا ہے؟ اس نے کہا بس ایک دعا کر دیجیے کہ میری اندھی ماں اپنے پوتوں کو  سونے کے کٹوروں میں دودھ پیتے دیکھے-  بزرگ کے چہرے پر خفیف سی مسکراہٹ آ گئی - بولے قلیل الافاظ اور کثیر المطالب دعا میں ایک فقرہ بول کر تینوں چیزیں مانگ لیں- اس کی ذہانت اور گفتگو کے فن کی تعریف کی- اس کے   محض ایک جملے میں  دولت، پوتے اور ماں کی بینائی سب کچھ آ گئے 
  
گفتگو کے فن پر حکایت کا سلسلہ کوہ ہمالیہ کے سلسلے سے زیادہ طویل ہے-چناچہ اختصار کے لے ایک اور حکایث درج ہے تاکہ گفتگو کے فن کی افادیت کھل کر سامنے آ جاے! چوری کی وارداتیں جب معمول بن گئیں-  تو بادشاہ نے حکم نامہ جاری کیا  کہ رات عشاء کے بعد اگر کوئی شخص پھرتا ہوا ملا تو قتل کر دیا جائے گا- کوتوال کو حکم دیا کہ رات کو شہر میں گشّت کرے  اور آوارہ گردی کرنے والے کو قتل کردے- کوتوال نے پہلی ہی رات کو تین لڑکوں کو  جھومتے ڈولتے پایا- اس نے اُن کو پکڑ لیا - ایک سے پوچھا: تم کون ہو جو بادشاہ کے حکم کی خلاف ورزی کر رہے ہو؟  وہ بولا میں اس شخص کا بیٹا ہوں جس کے سامنے خادم مخدوم سب کی گردنیں جھک جاتی ہیں وہ خنجر کو داہیں باہیں، آگے پیچھے اس طرح چلاتا ہے کہ ان کا خون تک نکال لیتا ہے اور الٹا ان سے مال بٹورتا ہے - کوتوال اس کے قتل سے رک گیا اور دل میں سوچا: اس کا باپ بادشاہ کے خاص لوگوں میں سے نہ ہو-
 دوسرے سے پوچھا: تم کون ہو ؟ اس نے کہا میں اس کا بیٹا ہوں، جس کی دیگ کبھی آتش دان( چولے ) سے نہیں اترتی جب اترتی ہے تو دوسری چڑھ جاتی ہے - ایک خلقت ہے جو ان دیگوں سے پیٹ کی آگ بجھاتی ہے- کوتوال نے اس کے قتل کا ارادہ ترک کر دیا کہ یہ کسی امیر کا بیٹا ہے جو بادشاہ کا خاص الخاص ہے -
 تیسرے سے پوچھا تم کون ہو ؟ وہ بولا :میں اس کا بیٹا ہوں ہو جو ننگی تلوار لے  کر دشمن کی صفوں میں گھس جاتا ہے اور چیر پھاڑ دیتا ہے , ٹکڑے ٹکڑے کر دیتا ہے  بعد میں ان کے زخموں کو سوئی سے سی دیتا ہے- کوتوال اس کے قتل سے باز رہا کہ یہ بادشاہ کے کسی قریبی جرنیل کا بیٹا ہے- صبح کوتوال نے رات کا واقعہ بادشاہ کو سنایا- بادشاہ نے ان تینوں کو بلا کر  ان کے متعلق تفتیش کی تو معلوم ہوا کہ پہلا لڑکا نائی کا بیٹا ہے؛ دوسرا حجام کا اور تیسرا لڑکا جولاہے کا-  بادشاہ کو ان کی فصاحت کلامی پر حیرت ہوئی کہ انہوں نے( بظاہر) ذلیل پیشوں کو کتنے بہتر انداز میں پیش کیا اور آپنے صحیح احوال کو کس خوبی اور دانشمندانہ طرز سے ظاہر کیا یے-ان کا یہ طرز بیان قابل داد ہے- بادشاہ بولا: ان کے کلام میں فصاحت نہ ہوتی تو بخدا میں ان کی گردن کٹوا دیتا- باد شاہ نے ہم نشینوں کو نصیحت کی کہ اپنی اولاد کو ادب کی تعلیم دو تاکہ ان میں خوش گفتاری  پیدا ہو

جدید ریسرچ کے مطابق دنیا کے کسی شعبے میں گفتگو کے فن کا حصہ 70 فیصد     ہے- اس کا مطلب ہے کہ کسی کام میں کامیابی کا دو تہائی سے زاہد حصہ فن گفتاری میں پوشیدہ ہے-یہ ادراک آج کا نہیں بلکہ دو ہزار سال پرانا ہے
گفتگو کا فن بہت قدیم علم ہے جسے دو ہزار سال سے پہلے یونانیوں نے شروع کیا- ارسطو پہلا باقاعدہ استاد ہے  جس نے گفتگو کا فن سکھانے کے لیے اصول مرتب کیے اور کئی ماڈل پیش کیے- اس نے اس موضوع پر تیں جلدوں پر مشتمل ایک کتاب بھی لکھی-  اسی طرح سقراط اور افلاطون نے بھی اصول مرتب کیے- اس دور میں عمومآ بارہ سال کی عمر کے لڑکوں کو یہ علم سکھایا جاتا -اسے “پروجی مینیز میٹا” کہتے تھے- سوفسطائی  بھی یہ علم  پیسے لے کر سکھاتے- رومن کے دور میں اس علم  کو عروج ملا اور آج تو یہ علم بڑھ کر ایک سائنس "کمیونیکیشن سِکل" بن گیا یے اور اس علم میں  مسلسل ارتقاء ہوتا رہا ہے- ایک ریسرچ کے مطابق  گفتگو کی چھے بڑی اقسام ہیں ،جنہیں "سپیچ ایکٹ" کہتے ہیں مثلاً: درخواست، وعدہ،افر ، یقین دہانی، قیاس اور اعلان-  اس تحقیق کے مطابق ہم جب بھی بولتے ہیں تو ہماری گفتگو ان چھ سپیچ ایکٹ میں سے ایک ہوتی ہے - یونانی مفکروں کے بعد، رومن مقرر سسیرو سے لے کر آج کے لاس ویل تک ہزاروں لوگوں نے اس علم کو سکھایا اور اس میں اپ گریڈیشن کی
ارسطو کا بویا ہوا بیج آج ایک مکمل درخت بن چکا ہے جسے کمیونیکیشن  سِکل کہتے ہیں اس کی چھ اقسام ہیں جن میں سے گفتگو ایک ہے -یعنی وربل، نان وربل،  تحریری، فارمل، انفارمل،ویزویل- آج کے دور میں اس میں بہت اضافہ ہوگیا ہے اور یہ علم  با قاعدہ ایک ِسکل بن گیا ہے کیونکہ اس کی افادیت  پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ گئی ہے- یہ علم زندگی بدل کر رکھ دیتا ہے- ہر قدم پر کامیابی آپکی منتظر ہوتی ہے؛ استاد ہیں تو ماہر؛ وکیل ہیں تو بے مثال؛سیلز مین ہیں تو پیسہ بنانے کی مشین؛  کمپیر ہیں تو رینکنگ میں نمبر ون؛ سیاستدان ہیں تو کامیاب؛ لیڈر ہیں تو شہرہ آفاق؛ مقرر ہیں تو پر تاثیر؛مزہبی رہنما تو دل میں اترنے والے؛ الغرض ہر شعبہ میں کامیابی،کامیابی،کامیابی!
  دنیا کے امیر ترین شخص وارن بفٹ کے مطابق کوئی انسان کسی بھی فیلڈ میں اپنی افادیت کو کمونیکیشن سِکل کے ذریعہ پچاس فی صد تک بڑھا سکتا ہے- بقول رابرٹ ٹروجیلو  کمیونیکیشن کے ذریعے دنیا کا ہر مسئلہ حل ہو سکتا ہے- جویل   اسٹین نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ  آپ اپنے ورڈ (الفاظ) کو بدل کر ورلڈ (دنیا) کو بدل سکتے ہیں- تو ایسے میں وہ علم جو ہزاروں سال پہلے مؤثر سمجھا جاتا تھا، آج اس کی افادیت کئی گنا بڑھ گئی ہے-تو اس کو سیکھنے میں دیر کیسی؟  کسی بھی فیلڈ میں کامیابی کے لئے اس کی مہارت حاصل کرنا ضروری نہیں بلکہ لازمی ہے- اس لیے آج سے ہی اس کو سیکھنے کی ابتدا کریں- بقول برائن ٹریسی( مشہور موٹیویشنل سپیکر) کمیونیکیشن سِکل کو سیکھنا ایسے ہی ہے جیسے سائیکل چلانا سیکھنا یا ٹائپنگ کرنا سیکھنا-گویا آج ہی کمیونیکیشن سِکل کی سائیکل پر چڑھ جاہیں؛ گریں ،اٹھیں اور پھر سوار ہو جاہیں_ وہ دن دور نہیں کہ آپ سائیکل کو دوڑا رہے ہونگے_ارادہ کوشش اور مشق:  سیکھنے کی چابی کے تین دندانے ہیں 

Who is a man?

  کمال انسان وہ ہے جسے دیکھیں تو پہلے آنکھ کو اچھا لگے اور پھر دل کو اچھا لگے ۔