Breaking News

HAZARAT ALI RA KA QAWAT E MADAFIAT BARHANAY KA FORMULA

          حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کا قوت  مدافعت بڑھانے کا فارمولا 
(سائنس کے آئینہ میں )
پروفیسر وقار حسین


حضرت علی ر ضی اللہ عنہ کی خدمت میں ایک شخص آیا اور پوچھنے لگا: قوت مدافعت کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا: اللہ نے انسان کے جسم میں ایک قوت کو وجود بخشا ہے۔ جو آنے والی بیماریوں کو انسان کے جسم پر حاوی نہیں ہونے دیتی، اس طاقت کو مدافعت کہتے ہیں۔ وہ آگے پوچھنے لگا : اس قوت مدافعت کو کیسے بڑھائیں ؟ آپ نے فرمایا 
                                                              اول: غذا سے 
                                                        دوئم : سکون سے
                                                         سوئم : سوچ سے 
پھر بات کو آ گے بڑھاتے فرمایا کہ غذا میں لہسن ، ادرک ، ہلدی اور سبز سبزیاں کھاؤ۔ جو کوئ یہ غذا روازانہ کھاۓ، نید کو پورا رکھے اور سوچ کو اچھا رکھے ، تو اللہ کے فضل اور کرم سے اس کی قوت مدافعت اتنی بڑھ جاۓ گی کہ بیماریاں   اس کے جسم میں کبھی اختیار نہیں رکھیں گی۔
( مہربان علی)

                                                                                   اول:  غذا
غذا میں لہسن، ادرک ، ہلدی اور سبزیاں کھانے کے بارے سائنس کیا کہتی ہے ؟ 
لہسن: جس کو انگلش میں " گارلک" اور سائنس میں "ایلیم سیٹیوم" کہتے ہیں ، ہزاروں سال سے یونانی، مصری، چینی ، رومن ، ہندوستانی تہذیبوں میں خوراک اور دوای کے طور پر استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ طب کا بانی ہیپو کریٹس؛ لہسن سے بہت سی بیماریوں کا علاج کرتا رہا ہے۔ رومن دور کے پلینی  نے لہسن کے فوائد کی لسٹ تیار کی  ۔ بو علی سینا  نے لہسن سے بہت سی بیماریوں کا علاج کیا اور کہا کہ یہ متعدی امراض کا علاج ہے۔ پہلی اور دوسری جنگ عظیم میں لہسن کو  گیینگرین کے علاج کے طور پر کامیابی سے استعمال کیا گیا۔
 لہسن میں وٹامن بی، وٹامن سی کے ساتھ اٹھ نمکیات  ہیں ، جن میں زنک  بھی شامل ہے۔ وٹامن سی اور زنک مدافعتی نظام کو تقویت بخشتے ہیں ۔ لہسن سفید خلییات کی تعداد بڑھاتا ہے جو جراثیم کو مارتے ہیں ۔ اس  میں ایک امینو ایسڈ , ایلن ہوتا ہے جو سفید خلیوں کی جراثیم کے خلاف جنگ لڑنے کی صلاحیت کو بڑھاتا ہے اور سوزش کو کم کرتا ہے اور اینٹی اکسیڈینٹ بھی ہے۔ 
ایک ریسرچ میں ایک سو چونسٹھ  لوگوں کو دو گروپ میں تقسیم کیا گیا۔ ایک گروپ کے افراد کو تین ماہ لہسن دیا گیا اور دوسرے گروپ کے لوگوں کو پلیسبو ( بظاہر دیکھنے میں  دوای اور حقیقت میں کچھ اور چیز۔ یعنی نفسیاتی دوائ) دیا گیا۔بعد میں جن لوگوں کو حقیقت میں لہسن دیا گیا تھا ، انکو تریسٹھ فیصد کم نزلہ ہوا اور جن کو ہوا ،انکا نزلہ  ستر فیصد جلدی ٹھیک ہو گیا،  نسبتاً دوسرے گروپ کے لوگوں کے۔
 ادرک : جسکو انگلش میں " جنجر" اور سائنس میں "زنجیبار افیسینیٹ "کہا جاتا ہے، ہزاروں سالوں سے انسانوں کے زیر استعمال ہے۔ ادرک سوزش کو ختم کرتا ہے ، اینٹی اکسیڈینٹ ہے اور واہرس کو مارتا ہے۔ اس میں وٹامن بی، سی اور ڈی کے ساتھ ساتھ ،  اٹھ نمکیات ہیں جن میں زنک بھی شامل ہے۔ اس میں اینزاہم ؛ زنجیروں ،  شاو گاؤ ل، جینیرول بھی موجود ہیں۔
ذرعی یونیورسٹی ہوبے  میں چھ سو مرغیوں پر ریسرچ کی گئ۔ مرغیوں کو دو گروپ میں تقسیم کر کے ایک گروپ کو خوراک میں ادرک ڈال کر دیا گیا اور دوسرے گروپ کو بغیر ادرک کے خوراک دی گئ۔ ریسرچ کے نتائج میں ادرک کھانے والی مرغیوں نے زیادہ اور بڑے سائز کے انڈے دیے۔ دوسرا ادرک کی وجہ سے" لائسو زائم" اینزائم کی مقدار بڑھ گئ، یہ اینزائم جراثیم مارتا ہے۔ یہ لعاب دہن ، گلے، منہ، سانس کی نالی اور پھیپھڑوں وغیرہ  کی جھلی "میوکس" میں ہوتا ہے اور جراثیم کو مار کر جسم کو محفوظ رکھتا ہے۔ اس طرع مدافعتی نظام کا معاون ہے۔
 ہلدی: جس کو انگلش میں  " ٹر میرک" اور سائنس میں " کر کوما لونگا" کہتے ہیں ، صدیوں سے بنی نوح انسان میں غذا اور دوائ کے طور پر زیر استعمال ہے۔ اس میں وٹامن اور نمکیات کے ساتھ چھتیس ایشینشل تیل اور     "ٹر میرک"  اور " کرکو مین "موجود ہیں۔ ہلدی امونو مودولیٹنگ  صلاحیت کو بڑھا کر مدافعتی نظام کو مظبوط کرتی ہے۔ اس کے علاوہ سوزش کو ختم کرتی ہے اور ڈپریشن کو کم کرتی ہے۔ اسکا “ گولڈن پیسٹ” دنیا بھر میں مشہور ہے۔ ریسرچ سے پتہ چلا ہے کہ ہلدی کے اجزاء ؛ ٹر میرک اور کرکومین دونوں سوزش کو ختم کرتے ہیں، اینٹی اکسیڈینٹ ہیں اور بیکٹیریا اور واہرس کو مارتے ہیں۔
یونیورسٹی آف نیو کیسل کے پروفیسر منوہر گا رگ کہتے ہیں کہ کرکومین ایک بہت طاقتور سوزش ختم کرنے والا ایجنٹ ہے۔ مختصراً ہلدی مدافعتی نظام کو مظبوط بنانے میں کار آمد ہے۔
 سبزیاں: جنہیں ویجیٹیبل کہتے ہیں وٹامن، نمکیات کے علاوہ کئ کیمیکل رکھتی ہیں جو دفاعی نظام کو مظبوط بناتے ہیں۔ یہ سفید خلیات کے کام کرنے کی صلاحیت بڑھا کر جراثیم کا کو مارنے میں مدد دیتی ہیں۔
ریسرچ سے پتہ چلا ہے کہ سبزیوں میں کیروٹین بی ہوتا ہے جو ایک طاقتور اینٹی اکسیڈینٹ ہے اور سوزش کو ختم کر کے دفاعی نظام کو مظبوط بناتا ہے۔ اس کے علاوہ وٹامن سی، وٹامن ای اور نمکیات زنک، سیلینیم وغیرہ دفاعی نظام کو مظبوط بناتے ہیں ۔  ریسرچ سے پتہ چلا ہے کہ وٹامن ڈی واہرس کی نظام تنفس کی انفکشن کے خطرہ کو کم کرتا ہے۔ یہ سفید خلیوں اور دفاعی ٹی سیل کو سپورٹ کرتا ہے۔
سبزیوں میں موجود زنک ،  دو سو اینزائم کا اہم جز ہے اور کئ اینزائم  اور ٹی سیل کا محرک ہے۔  ریسرچ کے مطابق زنک نزلہ کو چالیس فیصد کم کرتا ہے۔  اسی طرع سیلینیم دس اینزائم کا معاون ہے۔ یہ دونوں دفاعی نظام کو مظبوط بناتے ہیں۔شاید یہی وجہ ہے سبزیاں کھانے والے لمبی عمر پاتے ہیں اور صحت مند رہتے ہیں ۔
                                                                             دوئم : سکون  
سکون میں نیند کو پورا کرنا  اور جاگتے وقت دماغ میں پریشانی کا نہ ہونا شامل ہیں۔ پوری نیند کرنے سے مدافعتی نظام بہت بہتر ہو جاتا ہے۔ جرمنی میں کی گئی ایک ریسرچ سے پتہ چلا ہے کہ پوری نیند لینے سے "ٹی سیل" بہتر کام کرتے ہیں۔ ٹی سیل دفاعی خلیے ہیں جو وائرس کے خلاف لڑتے ہیں۔ ڈاکٹر ڈیمی ٹراف کے مطابق اسٹریس ہارمون  ایڈرینالین،  نارایڈرینالین اور  پروسٹا گلینڈین ؛  ایک چپچپی پروٹین" آنٹی گرین "کے چپکنے کی صلاحیت کو کم کرتے ہیں ۔ ڈاکٹر ڈیمی ٹراف  کے مطابق  ایڈرینالین، نار ایڈرینا لین اور  پروسٹا گلینڈین سوتے وقت جسم میں کم ہوجاتے  ہیں اور اینٹی گرین پروٹین  کے چپکنے کی صلاحیت زیادہ ہوتی ہے ۔ اس چپچپاہٹ کی بدولت  ٹی سیل باآسانی وائرس اور بیمار خلیوں کو مار سکتے ہیں ۔ ریسرچ کے مطابق ٹی سیل جسم کے مدافعتی نظام میں  اہم کردار ادا کرتے ہیں ۔  جب جسم کو پتہ چلتا ہے کہ کسی خلیہ میں  وائرس     دا خل ہو گیا ہے تو ٹی سیل انٹیگرین پروٹین کو  شہ دیتے ہیں کہ بیمار خلیوں پر حملہ کرے اور ان کو مار دے ۔
 ایک اور ریسرچ کی گئی ، جس میں لوگوں کو دو گروپ میں تقسیم کیا گیا ۔ایک گروپ نے  بھرپور نیند لی  جبکہ دوسرا گروپ رات بھر جاگتا رہا ۔ جن لوگوں نے پوری نیند کی ان کے جسم  میں ٹی سیل  نے انٹیگرین پروٹین کو  بہت زیادہ ایکٹیویٹ کیا اور جاگنے والوں میں بہت کم ۔ اس سے ثابت ہوا کہ پوری نیند کرنے سے ٹی سیل کے کام کرنے کی صلاحیت بڑھ جاتی ہے ۔ نیند کا دوسرا فائدہ  ہے کہ جب انسان سوتا ہے تو اس کے  سٹریس کرنے والے ہارمون کم ہوجاتے ہیں ۔ان ہارمون کی زیادتی ٹی سیل کے کام کرنے کی صلاحیت کو متاثر کرتی ہے ۔
                                                                             سوئم : اچھی سوچ
اچھی سوچ ; مثبت  اور پر امید " اپٹیمسٹک"  سوچ تصور کی جاتی ہے۔ 
                                                                              مثبت سوچ 
بڑے بزرگ ہمیشہ سے سمجھاتے آئے ہیں کہ سوچ کو مثبت رکھو ، گلاس  کو دیکھ کر کہنا: آدھا بھرا ہوا ہے؛ مثبت سوچ ہے اور یہ کہنا کہ آدھا خالی ہے,  منفی سوچ ہے۔ بیمار شخص صرف اپنی بیماری کو دیکھے تو  آدھے خالی گلاس کو دیکھ رہا ہے جبکہ صحت مند حصوں کو دیکھے اور صحت یابی کا تصور کرے تو آدھے بھرے ہوئے گلاس کو دیکھ رہا ہے ۔
ایک ریسرچ میں بن شانان جسکا  پچاس سالہ  کلینک کا تجربہ  ہے ،کہتا ہے کہ مثبت سوچ کے جسم پر مثبت اثرات ہوتے ہیں ۔  دماغ کا ایک حصہ وی ٹی اے  "وینٹرل ٹیگمینٹل ایریا " ہے جو " پیغام کا انعام" یعنی "ریوارڈ "دیتا ہے ۔ انہوں نے چوہوں پر تجربہ کیا جن چوہوں کی سوچ مثبت تھی، ان کا مدافعتی نظام منفی سوچ والے چوہوں کی نسبت بہت زیادہ تھا ۔  جب دماغ کے وی ٹی اے حصہ کو ایک دوائی" سی این او "سے ایکٹیویٹ کیا گیا تو دفاعی نظام بہتر ہوگیا۔  جب دوائی "اکسی ڈوپامین " کو چوہوں کو دیا گیا کہ وہ خوشی کی مثبت سوچ کا سگنل نہ بیجھ  سکیں تو ان کا مدافعتی نظام ماند پڑ گیا۔  مختصرا ان تجربات کا نچوڑ ہے  کہ ریسرچرز  نے معلوم کیا کہ مثبت سوچ رکھنے والے چوہوں میں دفاعی نظام  مضبوط تھا۔
                                                                                  پر امید سوچ
انسان جو سوچتا ہے وہی ہوتا ہے ! جو سوچتا ہے کہ وہ صحت مند ہے تو وہ صحت مند ہو جاتا ہے ۔ انسان جو سوچتا ہے،  وہی بولتا ہے، اسی کے مطابق عمل کرتا ہے  ، اسی طرح کا نتیجہ نکلتا ہے اور وہی سوچ ریئلٹی بن جاتی ہے ۔  مثلا  ایک کلرک اسلم دفتر لیٹ پہنچتا ہے ۔  لوگوں کے پوچھنے پر جھوٹ بولتا ہے کہ موٹر سائیکل پنکچر ہو گی۔ دفتر کے لوگ سوچتے ہیں کہ اسلم کی موٹر سائیکل پنکچر ہوگی ۔ وہ ایک دوسرے کو بتاتے ہیں کہ  اسلم کی موٹر سائیکل پنکچر ہوگئی۔ ہوتا کیا ہے کہ کچھ ہی عرصے میں  اسلم کی موٹرسائیکل واقعی پنکچر ہو جاتی ہے۔ اس طرح کے واقعات ہماری زندگیوں میں عام آتے رہتے ہیں اور اسی لے ہمارے بزرگ ہمیں کہتے ہیں کہ اچھا سوچو اور اچھا بولو اور بری بات منہ سے نہ نکالو ۔  ایک اور مثال؛  فون کی گھنٹی بجتی ہے۔ آپ کو خیال آتا ہے  کہ انگلینڈ سے سجاد کا فون ہے ۔ آپ ساتھ والوں کو کہتے  ہیں کہ مجھے لگا کہ سجاد کا فون ہے اور تھوڑی دیر کے بعد سجاد کا فون آ جاتا ہے۔ اس طرح کے واقعات ہماری زندگی میں میں اکثر رونما ہوتے ہیں ۔  جو سوچنے ، بولنے، کرنے  اور نتیجہ کی اس لڑی( چیین)   کی تصدیق کرتے ہیں۔
 جوزف مرفی  نے اک کتاب لکھی " لا شعوری  ذہن کی طاقت"  اور نپولین ہل  نے  کتاب لکھی "سوچو اور امیر بنو"  اور روندا بایرن  کی چار کتابیں ;  " راز",
" میجک" ، " ہیرو" اور  "پاور"--- ان سب کتابوں کی بنیاد  ایک" راز " پر  ہے کہ وہ نہ سوچو جو ہو رہا ہے۔ (جو اکثر لوگ کرتے ہیں) بلکہ وہ سوچو جو تم چاہتے  ہو ، یعنی اگر کوئی بیمار  ہے تو یہ نہ سوچے کہ وہ بیمار ہے  بلکہ سوچے کہ وہ ٹھیک ہے، وہ صحت  مند ہے  یعنی جو ریالٹی  چاہتے ہو اس کا سوچو ، اسی پر بولو کیونکہ "کوئ"  سن رہا ہوتا ہے۔  تو وہ حقیقت بن جاتی ہے۔اس موضوع  پر کئی سو کتابیں لکھی جا چکی ہیں  اور اس نظریہ کو کشش کا قانون بھی کہتے ہیں  اور بہت سارے ممالک میں یہ قانون بہت مشہور ہے  اور لوگ اس کو پریکٹس کرتے ہیں۔


ایک سو تین سالہ کرونا کی مریض  کو ڈاکٹروں نے جواب دے دیا ۔ اس نے فیصلہ کیا کہ اس نے کرونا  سے نہیں مرنا اور وہ  نہیں مری !  بلکہ صحتیاب ہوکر  سب کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا ۔ اس کے انٹرویو لئے گئے  تو اس نے بتایا  کہ وہ ہر سانس پر کہتی تھی کہ اللہ بڑا ہے یا کرونا ؟ پھر وہ کہتی:  یقینا اللہ بڑا ہے۔ تو پھر میں ٹھیک ہو جاؤں گی؛ میں ٹھیک ہو جاؤں گی؛ میں ٹھیک ہو جاؤں گی ۔ وہ بیمار تھی اور آپنی موجودہ حالت بیماری اور متوقہ موت کا نہیں سوچ رہی تھی  اور نہ ہی اس کے متعلق بول رہی تھی بلکہ  بڑھیا ، وہ سوچ رہی تھی جو وہ چاہتی تھی ،اور وہ بول رہی تھی جو وہ چاہتی تھی اور جو وہ سوچ رہی تھی اور بول رہی تھی ؛  وہی ریئلٹی بن گئی اور وہ ٹھیک ہوگی۔ اس سوچ، " پکار" اور یقین کامل کو  مذہبی اصطلاح میں  "دعا "کہتے ہیں ۔ جس سے کسی کو انکار نہیں ۔ اچھی سوچ واقعی مدافعتی نظام کو مضبوط کرتی ہے  اور  یہ مزکورہ تین درجاتی "فارمولا"  انسان کے جسمانی،دماغی اور روحانی نظام کے لے ٹانک ہے اور وہ کسی بھی بیماری سے لڑ سکتا ہے ۔
        دنیا میں جانوروں کی سولہ لاکھ اقسام " سپیشیز" ہیں۔ اگر وہ بیمار ہوں  تو  کسی ڈاکٹر کے پاس نہیں جاتے بلکہ اللہ کے دیئے گئے دفاعی نظام سے خود علاج کرتے ہیں ۔ آج کرونا کی دوائی نہ ہونے پر  انسان کو اپنا علاج بھی قدرتی دفاعی نظام سے کرنا پڑ رہا ہے  اور حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کے دفاعی نظام کو  مضبوط کرنے کے فارمولے کو  اپنا کر ، ہم اس بیماری سے کامیابی سے نبرد آزما ہو سکتے ہیں اور علم اور دانش کے دروازے سے گزر کر صحت، خوشی اور رحمت  کے شہر میں بسیرا کر سکتے ہیں 

No comments

Thanks for your comments.