ایک تصویر ایک کہانی ایک خیال EPISODE-1
ایک تصویر ایک کہانی ایک خیال
EPISODE-1ایک کہانی
ایک گاؤں میں ایک کسان رہتا تھا۔اس کے چار بیٹے اور دو بیٹیاں تھیں۔ ایک دن کسان کی بیوی اپنی چھوٹی بچی کے ساتھ اونٹ پر بیٹھ کر دوسرے گاؤں، کسی رشتہ دار کو ملنے گئی اور ر استہ بھول گئی -اونٹ ایک آنکھ سے کانا تھا اور ایک ٹانگ سے لنگڑا تھا-کسان کو اپنی بیوی، بچی اور اونٹ کے گم ہونے پر بہت دکھ ہوا- کسان نے اِدھر اُدھر ان کو تلاش کیا مگر ناکام رہا- تھک کر گھر آ گیا اور پریشان ہو کر بیٹھ گیا- اس کی حالت دیکھ کر کر اس کے چاروں بیٹے اس کے پاس آگئے- بڑی بیٹی پانی لے کر آئی-کسان نے اپنے بیٹوں کو انکی ماں،بہن اور اونٹ کی گمشدگی کی اطلاع دی اور حکم دیا کہ جلد از جلد اونٹ کو ڈھونڈو -بڑا بیٹا کوئی کام کاج نہ کرتا تھا-ہر وقت کھاتا پیتا اور آوارہ گردی کرتا یا پھر سویا رہتا- دوسرا بیٹا منصوبہ باز تھا- بڑے بڑے خیالات سوچتا، مشورے دیتا مگر کسی منصوبے پر عمل نہ کرتا تھا- اس نے تجویز دہی کہ شہر سے شکاری کتے منگواتے ہیں- وہ ان کو جلد ڈھونڈ لیں گے- تو چھوٹے بیٹے نے کہا جتنی دیر میں شہر سے شکاری کتے آئیں گے ، رات ہو چکی ہوگی اور سب کا کام تمام ہو چکا ہوگا- وہ پھر بولا کہ چار گھوڑوں کا بندوبست کرتے ہیں- ہم چاروں ان پر بیٹھ کر کر ان کو تلاش کریں گے- چھوٹا پھر بولا گاؤں میں تو صرف ایک ہی گھوڑا ہے، وہ بھی ملے گا یا نہیں؟ جتنی دیر میں ہم گھوڑوں کا انتظام کریں گے، رات ڈھل چکی ہوگی- وہ پھر بولا کہ گاؤں میں اعلان کرواتے ہیں- چھوٹا بولا: اگر گاؤں والوں کو پتہ ہوتا تو اب تک اونٹ گھر آ چکا ہوتا! کسان کے دونوں چھوٹے بیٹے بہت محنتی تھے - تیسرا بیٹا زیادہ محنتی تھا مگر عقل سے عاری تھا -وہ اچانک اٹھا اور گھر سے باہر یہ کہتے نکل گیا کہ میں ابھی کہ ابھی ان کو ڈھونڈ کر لاتا ہوں- سب سے چھوٹے بیٹے نے والد سے پوچھا کہ بابا ! آپ نے اونٹ کو آخری مرتبہ کہاں دیکھا تھا- باپ نے کہا کہ گھر کے باہر درخت کے ساتھ بندھا ہوا تھا- پھر اس نے پوچھا: آپ نے اسے چارہ پانی ڈالا تھا- باپ نے کہا :نہیں ، ابھی میں چارہ کاٹنے گیا تھا کہ تمہاری ماں اور بہن اس پر بیٹھ کر چلی گئی- اس نے سوچا کہ اونٹ بھوکا اور پیاسا ہے- وہ گھر کے سامنے والے رستے پر چل پڑا- ابھی تھوڑی دور آگے گیا تھا کہ سامنے دو راستے آ گئے؛ وہ ایک راستہ پر چلا اور دونوں اطراف کے درخت دیکھے اور ایک نظر زمین پر ڈالی،درخت صحیح سلامت تھے اور زمین پر بھی کوئی تازہ پتے نہ تھے -وہ واپس مڑا اور دوسرے راستے پر چل پڑا-اس راستہ پر درختوں کے پتے ٹوٹے ہوے تھے اور زمین پر بھی گرے ہوئے تھے- وہ اس راستہ پر چل نکلا-تھوڑی مسافت کے بعد اسے تین راستے نظر آئے -تینوں راستوں پر زمین پر تازہ پتے نہیں تھے -اب اونٹ کس راستے پر گیا ہوگا؟ اس نے خود سے سوال کیا- اس نے اونٹ کے پاؤں دیکھنے شروع کردیئے ایک رستہ پر پر تازہ پاؤں کے نشان تھے- اسے یقین ہو گیا کہ اونٹ اسی راستہ پر گیا ہے- وہ اس راستہ پر ہو لیا- تھوڑی دور آگے جا کر اس نے دیکھا کہ دو راستے ہیں- دونوں راستوں پر پاؤں کے نشان بھی تھے -اسے خیال آیا کہ اس کا اونٹ لنگڑا ہے، اب اس نے نشانوں کو غور سے دیکھا، ایک راستہ پر اونٹ کے تین پاؤں کے نشان واضح تھے اور چوتھے کہ مبہم تھے- اس کو سمجھ آگئی کہ ٹانگ کی خرابی کی وجہ سے وہ ایک پاؤں پر زیادہ وزن نہیں ڈال رہا ، اس لیے ایک پاؤں کا نشان مد ہم ہے- وہ اس راستہ پر روانہ ہوگیا جلد اس نے دیکھا کہ آگے تین راستے ہیں- اس نے تینوں راستوں کو دیکھا تینوں پر زمین سخت ہونے کے باعث پاؤں کے نشان گہرے نہ تھے- جس کی وجہ سے وہ اپنے لنگڑے اونٹ کا اندازہ نہ لگا سکا- اب وہ سوچ بھی گم ہوگیا کہ کیا کروں ؟ وہ واپس پلٹا اور اس جگہ پہنچا جہاں پاؤں کے نشان صاف نظر آ رہے تھے- وہاں سے اس نے اونٹ کی سمت کا اندازہ لگایا کہ وہ کس ممکنہ رستہ پر جا سکتا ہے -وہ اس راستے پر چلنے لگا، کچھ کوس کے بعد پھر اسے چار راستے نظر آئے اور زمین بدستور سخت تھی۔ ایک راستہ پر اُسے پانی کا کنواں نظر آیا وہ کوہیں والے رستے پر چل پڑا اور وہاں پر پہنچ کر اردگرد کی زمین کو دیکھا ، اس نے دیکھا کہ اس کی بہن کا لکڑی کا کھلونا کوہیں کی منڈیر پر پڑا ہوا ہے- اسے یقین ہو گیا کہ اونٹ ،اس کی ماں اور بہن یہاں آئے تھے -یہاں پیاس بجھائی اور آرام کیا- اس نے بھی وہاں سے پانی پیا اور ہاتھ منہ دھوئیے اور کوہیں والے راستے پر چل نکلا -سورج غروب ہو رہا تھا- اس کی پریشانی بڑھ رہی تھی- وہ جلدی جلدی چلنے لگ پڑا ؛ تھکا وٹ سے اس کا برا حال تھا مگر باپ کی پریشانی، ماں کی جدائی اور چھوٹی بہن کی محبت نے اس کی ہمت کو بڑھایا وہ تیزی سے چلنے لگا- آگے اسے ایک قافلہ نظر آیا- اس نے ان سے پوچھا کہ کوئی اونٹ دیکھا ہے تو انہوں نے جواب دیا کہ ہاں ! تھوڑی دیر پہلے ہی دیکھا ہے۔ اس پر ایک عورت اور بچی سوار تھی- اس عورت نے اپنے گاؤں کا رستہ پوچھا چونکہ ہم اس علاقے میں اجنبی ہیں -اس لئے اسے کچھ نہ بتا سکے- اس نے پوچھا آپ کس رستہ سے آئے ہیں ؟ کاروان کے سردار نے ہاتھ کے اشارہ سے بتایا کہ اس راستہ سے -وہ اس راستہ پر دوڑنے لگا ،کچھ دیر کے بعد سب راستے ختم ہوگئے اور ایک وسیع کھلا میدان شروع ہوگیا -میدان کو دیکھ کر کر اس کے چہرے پر خوشی کی لہر دوڑ گئی- اس کے ذہن میں آیا کہ اس کا اونٹ ایک آنکھ سے کانا ہے، کھلے میدان میں وہ سیدھا آگے نہیں جا سکے گا بلکہ دائرے میں گھومتا رہے گا- اس نے ادھر ادھر نظر دوڑائی آئی تو اسے ایک ٹیلہ نظر آیا وہ ٹیلے کی طرف بھاگنے لگا اور گرتا پڑتا ٹیلے پر چڑھنے لگا، چوٹی پر پہنچ کر ادھر ادھر دیکھا- اس کی خوشی انتہا کو چھو گئ جب اس نے نے مغرب کی جانب پھیلی سرخی کی طرف ایک اونٹ کو دیکھا- وہ تیزی سے ٹیلے سے اترا اور بھاگتا ہوا اونٹ کے پاس پہنچ گیا -اس کی ماں اسے دیکھ کر بہت خوش ہوئی- وہ ان سب کو لے کر گھر واپس آ گیا- اس کا باپ ان کو دیکھ کر بہت خوش ہوا- اس نے سب کو ساری کہانی سنائی اور داد وصول کی- اس کا محنتی بھائی بھی سارا دن ادھر ادھر گھومتا رہا مگر تھک ہار کر گھر ناکام واپس آگیا- سب سے بڑا بھائی حسب معمول چارپائی پر سو رہا تھا جبکہ دوسرا بڑا بھائی اب بھی پتھر پر بیٹھ کر زمین پر نقشے بنا کر اونٹ ڈھونڈنے کی منصوبہ بندی کر رہا تھا-
جدید ریسرچ کے مطابق دنیا میں کامیابی صرف 8 فیصد لوگوں کو ملتی ہے جبکہ 92 فیصد لوگ ناکام رہتے ہیں - سوال اٹھتا ہے کہ کامیابی کیا ہے ؟ کیا اس کا کوئی یقینی فارمولا ہے یا یہ معض ایک اتفاقی چیز ہے ؟ کوئی بھی کام جو آپ دل سے کرنا چاہتے ہیں ،اسکا ہو جانا کامیابی ہے اور یہ ایک ساہنٹفک عمل کا نتیجہ ہے
! دنیا میں چار اقسام کے لوگ پائے جاتے ہیں
اول : جو نہ سوچتے ہیں اور نہ ہی عمل کرتے ہیں" _ایسے لوگوں کے بارے ریسرچرز کہتے ہیں کہ یہ لوگ مر چکے ہیں ؛ بس ان کا دفنانا باقی ہے"_
دوءم: کچھ لوگ صرف سوچتے ہی رہتے ہیں_ منصوبہ بندی کمال کی کرتے ہیں _مگر آپنے کسی بھی منصوبہ پر عمل نہیں کرتے_ یقینی ناکامی ان کی' بے عملی' کا نتیجہ ہے_
سوءم: کچھ لوگ عمل تو کرتے ہیں مگر سوچتے نہیں ہیں _ ایسے لوگ کامیابی کے رستے پر تو چل نکلتے ہیں مگر منزل سے پہلے ہی کسی جان لیوا حادثے کا شکار ہو جاتے ہیں_ یقین ناکامی ان کے لیے مختص ہے _
چہارم : کچھ لوگ سوچتے ہیں اور پھر عمل کرتے ہیں _ یہ کسی کام کو کرنے سے پہلے اچھی طرح منصوبہ بندی کرتے ہیں_ اور ایک ٹارگٹ سیٹ کر کے ، اس کے حصول میں دن رات ایک کر دیتے ہیں_ دماغ اور جسم دونوں کا استعمال کرتے ہیں_ یقینی کامیابی ان کے مقدر میں لکھ دی گئی ہے _ یہ لوگ آٹھ فیصد ہوتے ہیں جبکہ پہلی تین اقسام کے لوگ 92 فیصد ہوتے ہیں_
کہانی میں چاروں اقسام کے لوگوں کو دکھایا گیا ہے _ ان میں سب سے چھوٹا بیٹا پہلے سوچتا ہے اور پھر عمل کرتا ہے_ ہر مشکل کے لیے نیا حل لے کر سامنے آتا ہے مزید وہ 52:17 فارمولہ کی کی عملی مثال ہے کہ کامیاب لوگ اپنے مقصد کے لیے 52 منٹ کام کرتے ہیں اور پھر 17 منٹ کے لیے آرام کرتے ہیں اور توانائی کو بحال کر کے پھر کام میں لگ جاتے ہیں_ چھوٹا بیٹا کوئیں پر پانی پیتا ہے ، ہاتھ پاؤں دھوتا ہے اور 52 :17 کے فارمولے پر عمل کرتا ہے _ پھر جب وہ تھکن سے چکنا چور ہو جاتا ہے تو باپ کی پریشانی ؛ ماں کی جدائی؛ بہن کی محبت کو ذہن میں لا کر اپنے آپ کو "ایموشنلی چارج" کرتا ہے_ تصویر میں ان چاروں اقسام کے لوگوں اور ان کے انجام کو دکھایا گیا ہے اگر آپ چاہتے ہیں کہ کامیابی آپ کے قدم چومے اور سر پر جیت کا تاج ہو تو آج ہی , کسی گول کو سیٹ کریں اور اچھی طرح سوچ بچار کر کے منصوبہ بندی کرلیں اور اس پر عمل پیرا ہوجائیں ؛کامیابی یقینی ہے _ کیونکہ سچی محنت کبھی رائیگاں نہیں جاتی اور ہر انسان کو وہی کچھ ملتا ہے ,جس کی وہ کوشش کرتا ہے _دنیا کی دس ہزار سال کی تاریخ گواہ ہے کہ “انہیں اقوام “نے اور “انہیں عوام” نے کامیابیاں حاصل کیں؛ جنہوں نے پلاننگ اور ہارڈ ورکنگ کو اپنی زندگی کا حصہ بنا لیا _ یہی کامیابی کا یقینی سائنسی فارمولا ہے؛ یقین نہیں آتا تو آزما لیجئے !
No comments
Thanks for your comments.