Breaking News

CORONAVIRUS SA 99% BACHNAY KA TAREEKA !

                        !  کرونا وائرس سے 99٪ بچاؤ کا طریقہ 
پروفیسر وقار حسین

ڈاکٹر ڈیوڈ پرائس نے ایک ویڈیولنک کے ذریعہ ، لوگوں کے کرونا وائرس کے متعلق سوالات کے جوابات دیئے۔ (وڈیو دیکھیں ) ڈاکٹر پرائس اجکل پریمیئر ہسپتال نیو یارک کے  انتہائی نگہداشت یونٹ میں  کرونا کے سیریس مریضوں کا علاج کر رہے ہیں ۔

ڈاکٹر پرائس کے مطابق کرونا وائرس بالعموم  ہاتھ پر لگتا ہے  اور جب کوئی شخص چہرے کو چھوتا ہے، تو یہ وائرس آنکھ، ناک یا منہ کے ذریعے جسم کے اندر داخل ہو جاتا ہے ۔ ان کے مطابق یہ بیماری مکمل طور کنٹیگوئس ہے ، ہوا کے ذریعہ اس کا پھیلاؤ بہت ہی کم ہے ۔  مثلا، اگر کوئی شخص حفاظتی تدابیر اختیار کئے بغیر،  کرونا مریض کی قربت میں  ایک بند کمرہ میں، پندرہ سے تیس منٹ رہے؛ تو امکان ہے کہ وہ ہوا کے ذریعے کرونا وائرس کا شکار ہو جائے ۔ ان کے نزدیک اس بیماری کا پھیلاؤ میں :  مریض کے ڈراپلیٹ سے اشیاء کا آلودہ ہونا، پھر ہاتھ کا ان اشیاء سے لگنا اور پھر ہاتھوں کا چہرے سے چھونا؛ یعنی اشیاء، ہاتھ اور چہرے کی تکون  شامل ہے  اور وہ ویڈیو میں  اس تکون کو  توڑنے کےلئے دو طریقے بتاتے ہیں۔

پہلا طریقہ :  "آ دمی ہینڈ ناٹی" ہوجائے  اور اپنا سارا فوکس ہاتھ کی حرکات پر مرکوز کرے کہ وہ کہاں کہاں ہاتھ لگاتا ہے  اور اس کا ہاتھ کن کن اشیاء کو چھوتا ہے ؟ ہاتھ کی سرگرمیاں دیکھنے سے  پتہ چل جائے گا کہ ہاتھ کب، کہاں اور کس طرح سے جراثیم سے آلودہ ہوتا ہے ۔  اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ ہمارے  ہاتھ جراثیم زدہ ہوتے ہیں  اور ہمیں پتہ تک نہیں ہوتا ۔ ہم انہیں صاف سمجھ کر چہرے پر لگا لیتے ہیں۔  گویا ڈاکٹر پرائس کے مطابق پہلا طریقہ یہ ہے کہ ہاتھ کی آلودگی کا ادراک کر کے فوراً   ہاتھوں کو دھو لیا جائے ۔
                                                          :دوسرا طریقہ
انسان کو غور کرنا چاہیے کہ وہ ہاتھ کب، کیوں اور چہرے کے کس حصے  کو بار بار لگاتا ہے؟  2015 میں  آسٹریلیا کی نارتھ ساؤتھ ویل یونیورسٹی میں میری لاؤ س میکلاز نے ایک سٹڈی کروای،  جس میں  چھبیس میڈیکل کے طلبا کی حرکات کی ویڈیو ریکارڈ کرکے دیکھا گیا تو پتہ چلا کہ اوسطاً ہر طالبعلم ایک گھنٹہ میں تیئیس دفعہ چہرے کو ہاتھ لگاتا ہے ۔ تحقیق میں مزید پتا چلا کہ ہاتھ نے چونتالیس فیصد آنکھ ،ناک اور منہ کو چھوہا  اور چھپن فیصد چہرے کے دوسرے حصوں کو ۔ سٹڈی سے یہ بات بھی معلوم ہوئی کہ چھتیس فیصد دفعہ منہ کو؛   اکتیس فیصد دفعہ نا ک کو اور ستائیس فیصد دفعہ آنکھ کو چھوا گیا  اور  چھ فیصد دفعہ ان تینوں یا دونوں حصوں کو چھوا  گیا ۔   
ہاتھ  کی حرکات کے بارے  کیلیوفورنیا یونیورسٹی کے ماہر نفسیات  ڈاچر  کیلٹنر نے بتایا کہ کہ چہرے کو چھونا ،خود کو ریلیکسیشن  دیتا ہے ،  یہی وجہ ھے کہ وہ بار بار چہرے کو ٹچ  کر تا  ھے۔  جبکہ ایک اور سٹڈی سے یہ معلوم ہوا  کہ "جلد کا جلد" کو چھونے سے  "آکسی ٹاکسن " ہارمون خارج ہوتا ہے جو سکون اور فرحت دینے کے ساتھ ساتھ اسٹریس کو بھی کم کرتا ہے۔
ہاتھوں کا چہرے کو چھونے کا عمل لا شعوری ہے ۔ انسان اور گنتی کے دوسرے جانوروں کے علاوہ ،یہ عادت کسی اور جانور میں نہیں ہے ۔ کہ  اس عادت پر قابو پایا جاساس عمل کے پیچھے جسمانی، نفسیاتی ،ماحولیاتی  عوامل وغیرہ شامل ہیں ۔ ڈاکٹر پرائس نے سارا زور اس بات پر دیا ہے کہ اس لاشعوری عمل کا ادراک  شعوری سطح پر کیا جائے تا کے۔  




 عالمی ادارہ صحت کے ڈائریکٹر جنرل ٹیڈروس پریس بریفنگ  میں لوگوں سے اپیل کر رہے تھے کہ چہرے کو ہاتھ نہ لگائیں  اور جونہی  بریفنگ ختم ہوئی تو انہوں نے پہلا کام یہ کیا کہ عینک اتاری  اور آنکھوں کو ملنا شروع کر دیا ۔ اسی طرح کیلیفورنیا شعبہ صحت کی آفیشل کی ایک ویڈیو وائرل ہوئی جس میں وہ خاتون لوگوں کو نصیحت کر رہی ہے کہ چہرے کو ہاتھ نہ لگائیں کیونکہ اس سے کرونا وائرس پھیلتا ہے اور ساتھ ہی انہوں نے اپنے چہرے کو چھونا شروع کر دیا ۔اسی طرح امریکی صدر ایک تصویر میں  انکھ  پر  انگلی لگا تے پائے گئے۔

ان مذکورہ واقعات سے پتہ چلتا ہے کہ یہ عمل لاشعوری ہے اور جب تک اس کو شعوری سطح پر نہ لایا جائے تو اس عادت سے چھٹکارا مشکل ہے۔
اس عادت کو چھوڑنے کے لئے کچھ عملی تجاویز ہیں جن کو اپنا کر خاطر خواہ کامیابی حاصل کی جاسکتی  ہے۔
   یہ ایک منٹ کی وڈیو ضرور دیکھیں
اول: دائیں ہاتھ سے سارے کام کرنے کی عادت ڈالی جائے  اور بائیں ہاتھ  کو صرف اور صرف چہرے کو کجھلانے کے لیے رکھ لیا جائے ۔

دوئم: چہرے کے لیے ایک خصوصی ٹوپی نما کرونا ماسک تیار کیا جائے ۔ ایسا ماسک پہلے ہی غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث لوگ استعمال کرتے ہیں ۔ جس سے سر بھی ڈھنپ جاتا ہے  اور اگر آنکھوں کے سوراخ کی جگہ شیشے لگ جائیں اور ناک کے سوراخ کی جگہ پر ایک باریک جالی جو ذرات اور جراثیم کو روک سکے  اور ماسک  ٹھوڑی سے نیچے تک جائے ۔ صرف کھانا کھاتے وقت  یا پانی پینے کے لئے ماسک کو  اوپر ناک تک کر لیا جائے اور  کھانے پینے کے بعد پھر نیچے کرلیا جائے  اور اسے" کرونا کنٹرولنگ کیپ"  یا صرف ٹرپل سی کا نا م دے دیا جائے ۔
اگر ایسا ماسک کوئی کمپنی بنالے تو اس کے استعمال سے ہاتھوں
 کی چہرے کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کو  روک کر کرونا پر قابو  پایا جا سکتا ہے۔  
سوئم: عام ماسک جو ناک اور منہ پر چڑھاتے ہیں ۔ اس کے ساتھ زیرو نمبر کی بڑے سائز کی عینک لگا کر ہاتھ کی چہرے کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کو روکا جا سکتا ہے۔
چہارم: ایک اور  ذرا  آکورڈ   ٹوٹکا  ہے کہ انگلیوں کے پوروں پر سرخ مرچ یا سبز مرچ لگا لیں۔ اس طرح نہ صرف آپ کو اچھی طرح پتہ چل جائے گا آپ چہرہ کے کس حصے کو کجھلاتے ہیں بلکہ مرچوں کی ایسی جلن  ہوگی کہ دوبارہ ہاتھ چہرے کی طرف جاتے ہوئے ایک دو دفعہ ضرور سوچے گا۔
پنجم: ہاتھ کے مختلف حصوں پر غور کریں ۔  چہرہ کھجلانے میں پورا ہاتھ استعمال نہیں ہوتا بلکہ صرف انگلیاں استعمال ہوتی ہیں ۔  پوری انگلیاں بھی نہیں بلکہ اگلے پوروں سے کجھلایا جاتا ہے ۔ ساری انگلیاں بھی یکساں استعمال نہیں ہوتیں ۔  تحقیق سے پتہ چلا ہے  کہ انسان شہادت کی انگلی( انڈیکس فنگر )  کو سب سے زیادہ استعمال کرتا ہے  اور چھوٹی انگلی( پنکی فنگر) سب سے کم ۔ تو اپنا فوکس پوروں پر اور انڈکس فنگر پر مرکوز کرلیں  اور ان کی صفائی کو یقینی بنالیں   تو وائرس کی منتقلی کو روکا جا سکتا ہے ۔
اور ڈاکٹر پرائس  کے تجویز کردہ دو طریقوں : " ہاتھوں اور اشیاء کے تعلق"  اور "ہاتھوں اور چہرے کے تعلق"   کو توڑ  کر کرونا سے  ننانوے فیصد محفوظ رہا جاسکتا ہے۔

No comments

Thanks for your comments.